Episode 127 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 127 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

عراقی عیسائیوں کے عزائم جنگی تیاریاں اور الیس کے مقام پر ان کا ایک فوج کی صورت میں اجتماع خالد سے پوشیدہ نہیں تھا۔ خالد کی فوج وہاں سے دور تھی لیکن انہیں دشمن کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع مل رہی تھی ۔ ان کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے ۔ عیسائیوں کے علاقے میں عرب کے مسلمان بھی رہتے تھے ۔ ان کی ہمدردیاں مدینہ کے مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی فتوحات کو دیکھ کر انہیں آتش پرستوں سے آزادی اور دہشت گردی سے نجات صاف نظر آنے لگی تھی ۔
وہ دل و جان سے مسلمانوں کے ساتھ تھے ۔ وہ کسی کے حکم کے بغیر خالد کے لیے جاسوسی کر رہے تھے ۔ 
خالد کے لشکر کے حوصلے بلند تھے ۔ اتنی بڑی جنگی طاقت پر مسلسل تین فتوحات نے اور بیشمار مال غنیمت نے اور اسلامی جذبے نے ان کے حوصلوں کو تروتازہ رکھا ہوا تھا ۔

(جاری ہے)

لیکن خالد جانتے تھے کہ ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں۔ مجاہدین کے لشکر کو آرام ملا ہی نہیں تھا۔

وہ کوچ اور پیش قدمی کی حالت میں رہے یا میدان جنگ میں لڑتے رہے تھے۔ 
”انہیں مکمل آرام کرنے دو “…خالد اپنے سالاوں سے کہہ رہے تھے …”ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی ہوں گی جتنے بھی دن ممکن ہوسکا میں انہیں آرام کی حالت میں رکھوں گا …اور ان دستوں کو بھی یہیں بلالو جنہیں ہم دجلہ کے کنارے دشمن پر نظر رکھنے کے لیے چھوڑ آئے تھے …تم میں مجھے مثنیٰ بن حارثہ نظر نہیں آیا “
”وہ گزشتہ رات سے نظر نہیں آیا “…ایک سالار نے جواب دیا ۔
 
ایک گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیے جو قریب آرہے تھے ۔ گھوڑا خالد کے خیمے کے قریب آکر رکا ۔ 
”مثنیٰ بن حارثہ آیا ہے “…کسی نے خالد رضی اللہ عنہ کو بتایا ۔ 
مثنیٰ گھوڑے سے کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خالد کے خیمے میں داخل ہوا ۔ 
”تجھ پر اللہ کی رحمت ہو ولید کے بیٹے “…مثنیٰ نے پرجوش آواز میں کہا اور بیٹھنے کی بجائے خیمے میں ٹہلنے لگا ۔
 
”خدا کی قسم ابن حارثہ!“…خالد نے مسکراتے ہوئے کہا …”تیری چال ڈھال اور تیرا جوش بتارہا ہے کہ تجھے کہیں سے خزانہ مل گیا ہے۔ “
”خزانے سے زیادہ قیمتی خبر لایا ہوں ابن ولید!“…مثنیٰ بن حارثہ نے کہا …”میرے قبیلے کے عیسائیوں کا ایک لشکر تیار ہوکر الیس کے مقام پر جمع ہونے کے لیے چلا گیا ہے ان کے سرداروں نے دروازے بند کرکے ہمارے خلاف جو منصوبہ بنایا ہے وہ مجھ تک پہنچ گیا ۔
”کیا یہی خبر لانے کے لیے تورات سے کسی کو نظر نہیں آیا ؟“…خالد نے پوچھا ۔ 
”ہاں“…مثنیٰ نے جواب دیا ۔ …”وہ میرا قبیلہ ہے میں جانتا تھا کہ میرے قبیلے کے لوگ انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے میں اپنا حلیہ بدل کر ان کے پیچھے چلا گیا تھا جس مکان میں بیٹھ کر انہوں نے ہمارے خلاف لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے میں اس کے ساتھ والے مکان میں بیٹھا ہوا تھا میں وہاں سے پوری خبر لے کر نکلا ہوں …دوسری اطلاع یہ ہے کہ ان کے سردار اس مقصد کے لیے مدائن چلے گئے ہیں کہ وہ اردشیر سے فوجی مدد لے کر ہم پر حملہ کریں گے “
”تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنے لشکر کو آرام کی مہلت نہیں دے سکوں گا “…خالد نے کہا …”کیا تم پسند نہیں کروگے جس طرح ہم نے ولجہ میں آتش پرستوں کو تیاری کی مہلت نہیں دی تھی اسی طرح عیسائیوں اور آتش پرستوں کے اجتماع سے پہلے ہی ان پر حملہ کردیں“
”خدا تیری عمر دراز کرے ابن ولید!“…مثنیٰ نے کہا …”طریقہ یہی بہتر ہے کے دشمن کا سر اٹھنے سے پہلے ہی کچل دیا جائے “
خالد نے اپنے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا جیسے وہ ان مشورہ سے مانگ رہا ہو ۔
 
”ہونا تو ایسا ہی چاہیے “…سالار عاصم بن عمرو نے کہا…”لیکن لشکر کی جسمانی حالت دیکھ لیں کیا ہمارے لیے یہ فائدہ مند نہ ہوگا کہ کم از کم دو دن لشکر کو آرام کرنے دیں ؟“
”ہاں ابن ولید!“…دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا …”کہیں ایسا نہ ہو کی پہلی تین فتوحات کے نشے میں ہمیں شکست کا منہ دیکھ نا پڑے “
”ابن حاتم“…خالد نے کہا …”میں تیرے اتنے اچھے مشورے کی تعریف کرتا ہوں لیکن یہ بھی سوچ کہ ہم نے دو دن عیسائیوں کو دے دیے تو کیا ایسا نہیں ہوگا کہ فارس کا لشکر ان سے آملے ؟“
”ایسا ہوسکتا ہے “…عدن بن حاتم نے کہا …”لیکن بہتر یہ ہوگا کہ آتش پرستوں کے لشکر کو آنے دیں یوں بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہم بکر بن وائل کے عیسائیوں سے الجھے ہوئے ہوں اور آتش پرست عقب سے ہم پر آپڑیں۔
جس جس کو ہمارے خلاف لڑنا ہے اسے اس میدان میں آنے دیں جہاں وہ لڑنا چاہتے ہیں “
”ابن ولید!“…مثنیٰ بن حارثہ نے کہا…”کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ عیسائیوں پر حملے کی پہل میں کروں ؟“
”تو نے ایسا کیوں سوچا ہے ؟“…خالد نے پوچھا ۔ 
”اس لیے کہ جتنا انہیں میں جانتا ہوں اور کوئی نہیں جانتا “…مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا …”اور میں اس لیے بھی سب سے آگے ہوکر ان پر حملہ کرنا چاتا ہوں کہ ان کے منصوبے بھی یہ بھی شامل ہے کہ ان کے قبیلے کے جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے انہیں قتل کردیا جائے میں انہیں کہوں گا کہ دیکھو کون کسے قتل کر رہا ہے ۔
”اس وقت ہماری نفری کتنی ہے “…خالد نے پوچھا ۔ 
”اٹھارہ ہزار سے کچھ زیادہ ہی ہوگی “…ایک سالار نے جواب دیا ۔ 
”جب ہم فارس کی سرحد میں داخل ہوئے تھے تو ہماری نفری اٹھارہ ہزار تھی ۔ “…خالد نے کہا …”اس علاقے کے مسلمانوں نے میری نفری کم نہیں ہونے دی “
مورخوں نے لکھا ہے کہ ان تین جنگوں میں بہت سے مسلمان شہید اور شدید زخمی ہوئے تھے ۔ بعض نے لکھا ہے کہ نفری تقریباً آدھی رہ گئی تھی ، لیکن مثنیٰ بن حارثہ کے قبیلے نے نفری کی کمی پوری کردی تھی ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط