مسلیمہ کذاب کے قتل کا سہرا بلاشک و شبہ وحشی بن حرب کے سر ہے ۔ وحشی کی زندگی عجیب گزری ہے ۔ بتایا جاچکا ہے کہ اس نے بالکل اسی طرح جس طرح اس نے مسلیمہ کو برچھی پھینک کر قتل کیا تھا، حمزہ کو جنگ احد میں شہید کیا تھا ۔ جب مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا تو رسول اللہ نے مکہ کے چند لوگوں کو جنگی مجرم قرار دیا تھا ۔ ان میں وحشی کا نام بھی تھا۔ اسے کسی طرح پتہ چل گیا تھا کہ اسے مسلمان زندہ نہیں رہنے دیں گے ۔
وہ مکہ سے نکل گیا اور طائف میں قبیلہ ثقیف کے ہاں جا پناہ لی تھی۔ قبیلہ ثقیف کو مسلمانوں نے جس طرح شکست دی تھی وہ بیان ہوچکا ہے۔ اس قبیلے نے اسلام قبول کیا تو وحشی نے بھی اسلام قبول کرلیا اور بیعت کے لیے اور اپنی جان بخشی کیلئے رسول کریم کے حضور گیا۔ آپ نے اسے کئی برس پہلے دیکھا تھا ۔
(جاری ہے)
شاید حضور اسے اچھی طرح پہچان نہ سکے ۔
”کیا تم وہ وحشی ہو ؟“…رسول اکرم نے پوچھا ۔
”وہی وحشی ہوں “…وحشی نے جواب دیا …”اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتا ہوں “
”او وحشی!“…حضور نے پوچھا …”بتاتونے حمزہ کو کس طرح قتل کیا تھا ؟“
مورخ لکھتے ہیں کہ وحشی نے ایسے لب و لہجے میں سارا واقعہ سنایا جیسے وہ سننے والوں پر اپنی بہادری اور عسکری مہارت کا رعب گانٹھ رہا ہو۔ رسول کریمﷺ نے اس کی جاں بخشی کردی لیکن (ابن شام کے مطابق) آپ نے اسے کہا کہ وہ آپ کے سامنے نہ آیا کرے ۔
حمزہ رسول اللہ کے صرف چچا ہی نہیں تھے بلکہ امت محمدیہ میں ان کا مقام بہت بلند تھا اور اس وقت کے اسلامی معاشرے میں انہیں خصوصی حیثیت حاصل تھی ۔ یہ رسول کریم کی عظمت تھی کہ آپ نے حمزہ جیسی شخصیت کا قتل ایک سیاہ فام غلام کو بخش دیا تھا لیکن آپ کے دل میں قلق موجود رہا ۔
آنحضور نے وحشی بن حرب کے لیے جس ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تھا ویسی ہی ناپسندیدگی کا اظہار انہوں نے ہند کے لیے بھی کیا تھا جس کے ایماء پر وحشی نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا ۔
اس کے بعد سید الشہداء کی لاش کی جس طرح بے حرمتی کی تھی اس کا بیان پہلے ہوچکا ہے ۔ آنحضور نے ان دونوں سے اس لیے اظہار ناپسندیدگی نہیں کیا کہ انہوں نے آپ کے چچا کو شہید کردیا تھا بلکہ اس لیے کہ انہوں نے ایک جلیل القدر مسلمان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی ورنہ ذاتی دشمنی کو آپ صلی اللہ علیہ سولم کی شان کے شایاں نہیں تھا ۔ آپ نے ہند اور وحشی سے کہا تھا کہ جب تم میری نظروں کے سامنے آتے ہو تو مجھے حمزہ کی لاش یاد آجاتی ہے ۔
بہرحال آپ نے وحشی اور ہند کو معاف فرمادیا تھا ۔
وحشی بن حرب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ ہوچکا تھا مگر حضور اکرم نے اسے اچھا نہیں سمجھا تھا جس کا وحشی کو بہت دکھ تھا۔ وہ مکہ سے چلا گیا اور اس نے دو سال طائف کے علاقے میں کبھی یہاں کبھی وہاں گزارے۔ اس پر خاموشی طاری رہتی اور وہ سوچوں میں گم رہتا تھا ۔ اس نے اسلام کو دل سے قبول کرلیا تھا ۔
وہ سچا مسلمان رہا ۔
دو سال بعد اپنے بے چین ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے وہ اسلامی لشکر میں شامل ہوگیا اور اس نے خالد کے دستوں میں رہنا پسند کیا۔ یمامہ کی جنگ میں اسے پتہ چل گیا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ مسلیمہ کو ہلاک کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ فرض اس نے اپنے ذمے لے لیا اور فرض پورا کردیا۔
اس کے بعد وحشی خالد کے دستوں میں رہا اور کئی لڑائیوں میں اس نے بہادری کے جوہر دکھائے۔
شام کی فتح کے بعد وہ اسلامی لشکر سے الگ ہوکر حمص میں گوشہ نشین ہوگیا۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے حمزہ کا قتل بہت بڑا گناہ بن کر اس کے ضمیر پر سوار ہوگیا تھا ۔ اس نے شراب نوشی شروع کردی جو عیاشی نہیں تھی بلکہ وہ اپنے آپ کو فراموش کرکے الگ پڑا رہتا تھا ۔ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں اسے شراب نوشی کے جرم میں اسی کوڑوں کی سزا دی تھی جس کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوا تھا ۔
وہ شراب پیتا رہا ۔
زندگی کے آخری دنوں میں اسے ایسی شہرت ملی کہ لوگ اسے عقیدت سے ملتے تھے مگر وہ ہوش میں کم ہی ہوا کرتا تھا۔ جب کبھی ہوش میں ہوتا تو لوگوں کو حمزہ اور مسلیمہ کے قتل کے واقعات سناتا تھا۔ لوگ اس سے یہی واقعات سننے کے لیے جاتے تھے ۔ اس نے کئی بار اپنی برچھی ہاتھ میں لے کر کہا …”میں جب مسلمان نہیں تھا تو اس برچھی سے میں نے ایک بڑے ہی اچھے آدمی کو قتل کیا تھا اور میں مسلمان ہوا تو اس برچھی سے ایک بہت ہی برے آدمی کو قتل کیا “
###
ام عمارہ ایک عظیم خاتون تھیں۔
جنگ احد میں وہ ان مسلمان عورتوں کے ساتھ تھیں جو زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کے لیے اپنے لشکر کے ساتھ گئی تھیں۔ اس لڑائی میں ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ میدان پر قریش چھاگئے ۔ انہوں نے رسول کریم پرہلے بولنے شروع کردیے۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا مگر دشمن کے ہلے اتنے شدید تھے کہ آپ کے محافظوں کا گھیرا ٹوٹ گیا۔
قریش کا ایک آدمی ابن قُمہٴ رسول کریم تک پہنچ گیا ۔
رسول کریم کے دائیں مصعب بن عمر تھیں اور اس وقت ام عمارہ بھی قریب ہی تھیں۔ انہوں نے جب رسول کریم کو خطرے میں دیکھا تو زخمیوں کو پانی پلانے اور انہیں اٹھانے کا کام چھوڑ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑیں ۔ انہوں نے ایک لاش یا شدید زخمی کی تلوار لے لی ۔
ابن قمہ حضور اکرم پر حملہ کرنے کی بجائے آپ کے محافظ مصعب رضی اللہ عنہ کی طرف گیا ۔
مصعب نے اس کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ام عمارہ نے ابن قمہٴ پر تلوار کا وار کیا جو اس کے کندھے پر پڑا مگر ابن قمہٴ نے زرہ بکتر پہن رکھی تھی اس لیے تلوار اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ ابن قمہ نے گھوم کر ام عمارہ پر جوابی وار کیا جو اس خاتون کے کندھے پر پڑا اور اتنا گہرا زخم آیا کہ وہ گر پڑیں۔ ابن قمہ نے دوسرا وار نہ کیا کیونکہ وہ رسول اکرم پر حملہ کرنا چاہتا تھا ۔
اب جنگ یمامہ میں ام عمارہ اپنے بیٹے کے ساتھ آئی تھیں۔ یہاں ان کی دلیری کا یہ عالم کہ مسلیمہ کو قتل کرنے کا خطرہ مول لے لیا مگر ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔
###
وہ دسمبر ۶۳۲ء کے آخری دنوں میں سے ایک دن تھا۔ حدیقة الرحمن سرسبز اور ہرا بھرا باغ ہوا کرتا تھا جو لوگوں کو پھل دیا کرتا تھا۔ وہاں تھکے ماندے مسافر آکر سستایا کرتے تھے۔
وہاں پھولوں کی مہک تھی مگر اب وہ حدیقہة الموت بن چکا تھا۔ اس کا حسن خون میں ڈوب گیا تھا ۔ اس کی رعنائیاں لاشوں کے نیچے دب گئی تھیں۔
جب شور اٹھا کہ مسلیمہ مارا گیا ہے تو مرتدین نکل بھاگنے کا راستہ دیکھنے لگے ۔ وہ تو پہلے ہی بھاگے ہوئے اس باغ میں آئے تھے۔ ان پر پہلے ہی مسلمان دہشت بن کر طاری ہوچکے تھے ۔ باغ میں وہ ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے۔
وہ ایسی جنگ لڑ رہے تھے جو پہلے ہی ہارچکے تھے ۔ اب ان کے کانوں میں یہ صدائیں پڑیں کہ ان کا نبی مارا گیا ہے تو ان کی رہی سہی سکت بھی ختم ہوگئی ۔ ان میں جو ابھی تک لڑ رہے تھے ۔ وہ باغ سے نکل بھاگنے کی کوشش میں تھے۔ شکست ان کے ذہنوں پر مسلط ہوچکی تھی ۔
وہاں سے کچھ دور مسلمانوں کی لٹی ہوئی اور تباہ حال خیمہ گاہ میں صرف ایک خیمہ صحیح سلامت کھڑا تھا۔
یہ خالد کا خیمہ تھا ۔ بنو حنفیہ باقی تمام خیمے پھاڑ کر پرزے پرزے کرگئے تھے ۔ وہ خالد کے خیمے میں بھی گئے تھے لیکن وہاں ان کا اپنا سردار مجاعہ بن مرارہ زنجیروں میں جکڑا بیٹھا تھا ۔ وہ لیلیٰ کو قتل کرنا یا اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن مجاعہ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ پہلے مردوں کی طرف جاؤ۔ ابھی عورتوں کو پکڑنے کا وقت نہیں۔
وہ سب اپنے سردار کے حکم سے چلے گئے تھے ۔ اس طرح خالد کا خیمہ محفوظ رہا تھا۔
خالد کی بیوی لیلیٰ خیمے سے باہر ایک اونٹ پر بیٹھی تھی۔ اسے کہیں جانا نہیں تھا وہ اونچی ہوکر میدان جنگ کو دیکھ رہی تھی ۔ میدان خالی ہوچکا تھا۔ اسے باغ کی دیوار اور درختوں کے بالائی حصے نظر آرہے تھے لیکن یہ نظر نہیں آرہا تھا کہ اندر کیاہورہا ہے ۔ وہ اونٹ سے کود آئی اور خیمے میں چلی گئی ۔
”ابن مرارہ!“…لیلیٰ نے مجاعہ سے کہا …”تمہارا نبی میدان خالی کرگیا ہے خدا کی قسم ، بنو حنفیہ بھاگ گئے ہیں“
”میں نے کبھی نہیں سنا کہ تیرہ ہزار نے چالیس ہزار کو شکست دی ہے “…مجاعہ نے کہا …”میدان چھوڑ جانا مسلیمہ کی چال ہوسکتی ہے پسپائی نہیں “
”سب باغ کے اندر ہیں “…لیلیٰ نے کہا ۔
”اگر سب باغ میں ہیں تو وہاں سے زندہ صرف بنو حنفیہ نکلیں گے “…مجاعہ بن مرارہ نے کہا…”اگر مسلمان باغ میں میرے قبیلے کے پیچھے گئے ہیں تو سمجھ لو کہ انہیں موت باغ میں لے گئی ہے ۔
بنو حنفیہ ناقابل تسخیر ہیں “
”آج فیصلہ ہوجائے گا “…لیلیٰ نے کہا…ٹھہرو…مجھے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دے رہے ہیں۔ میرے خاوند کا قاصد ہوگا …”و ہ خیمے سے نکل کر کھڑی ہوگئی اور بولی …وہ فتح کی خبر لایا ہوگا …وہ آرہا ہے“
###