”کل رات اس وقت کے کچھ بعد اس دیوار کے باہر اس جگہ آجانا جو میں تمہیں بتاؤں گی “…آزاد نے کہا …”میرا کمرہ اس دیوار کے بالکل ساتھ ہے تم دیوار کسی اور طریقے سے پھلانگ نہیں سکو گے کمند پھینکنی پڑے گی رسہ لیتے آنا۔ اسے دیوار کے اوپر سے اندر کو پھینکنا ۔ میں اسے کہیں باندھ دوں گی ۔ تم رسے سے اوپر آجانا“
اگلی رات فیروز اس طرح چھپتا چھپاتا دیوار کے ساتھ ساتھ جارہا تھا کہ اسے پہرہ دار کے گزر جانے تک چھپنا پڑتا تھا ۔
وہ اس جگہ پہنچ گیا جو اسے آزاد نے بتائی تھی ۔ اس نے دیوار پر رستہ پھینکا جس کا اگلا سرا دوسری طرف نیچے تک چلا گیا ۔ آزاد موجود تھی۔ اس نے رسہ پکڑ لیا اور کہیں باندھ دیا ۔ فیروز رستے کو پکڑ کر اور پاؤں دیوار کے ساتھ جماتا دیوار پر چڑھ گیا۔ اس نے رسہ دیوار پر باندھ دیا اور اس کے مدد سے نیچے اتر گیا ۔
(جاری ہے)
آزاد اسے اپنے کمرے میں لے گئی اور آدھی رات کے بعد تک اسے کمرے میں ہی رکھا کیونکہ اسود کے بیدار ہونے کا خطرہ تھا ۔
”آدھی رات کے بعد وہ بے ہوش اور بے سدھ ہوجاتا ہے “…آزاد نے کہا …”یہ شخص انسانوں کے روپ میں دیو ہے ایسا دیو جو شراب پیتا اور عورتوں کو کھاتا ہے …تم نے اس کی جسامت دیکھی ہے اتنا لمبا اور چوڑا جسم تلوار کے ایک دو وار تو شراب کی طرح پی جائے گا اسے ہلاک کرنا آسان نہیں ہوگا “
”اسے ہلاک کرنا ہے خواہ میں خود ہلاک ہوجاؤں “…فیروز نے کہا ۔
آزاد نے کمرے کا دروازہ ذرا سا کھولا اور باہر دیکھا ۔ اس غلام گردش کے اگلے سرے پر ایک پہرہ دار کھڑا رہتا تھا ۔ وہ سائے کی طرح کھڑا نظر آرہا تھا ۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ اس طرف اس کی پیٹھ ہے آزاد اپنے کمرے سے نکلی اور دبے پاؤں اسود کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ ہلکی روشنی والا ایک فانوس جل رہا تھا ۔ اسود پیٹھ کے بل بستر پر پڑا خراٹے لے رہا تھا ۔
مورخ بلازری نے اس دور کی تحریوں کے دو حوالے دے کر لکھا ہے کہ آزاد جب اسود کو دیکھ کر واپس آئی تو اس کا انداز ایسا تھا جیسے ایک شعلہ آیا ہو۔ یہ انتقام اور نفرت کا شعلہ تھا ۔
”آؤ فیروز“…اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا …”وہ بے ہوش پڑا ہے “
فیروز آزاد کے ساتھ کمرے سے نکل گیا اور دبے پاؤں آزاد کے پیچھے اسود کے کمرے میں داخل ہوا۔
اسود جنگلی سانڈ جیسا انسان تھا ۔ کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا ۔ نہ جانے ایسے کیوں ہوا، اسود بیدار ہوگیا۔ اپنے وزیر اور اپنی حسین ایرانی بیوی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ آزاد کو وہ قابل اعتماد سمجھتا تھا ۔ فیروز کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہوا ہوگا ۔
”اس وقت کیا مصبیت آگئی ہے “…اسود نے شک سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھا ۔
فیروز نے ایک لمحہ ضائع نہ کیا تلوار کھینچی اور پوری طاقت سے اسود کی گردن پر وار کیا ۔ اسود نے گردن بچالی اور تلوار اس کے ننگے سر پر پڑی اسود کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلیں اور بستر سے لڑھک کر دوسری طرف گرا۔
غلام گردش میں دوڑتے قدموں کی دھمک سنائی دی ۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کردیا۔ پہرہ دار دوڑا آرہا تھا ۔
آزاد نے تیزی سے آگے بڑھ کر پہرہ دار کو روک لیا۔ کمرے سے اسود کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہی تھیں۔
”واپس اپنی جگہ چلے جاؤ“…آزاد نے پہرہ دار کو تحکمانہ لہجے میں کہا …”رحمن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے ۔ وحی نازل ہورہی ہے …جاؤ، ادھر نہ آنا “
مورخ بلاذری نے لکھا ہے کہ پہرہ دار نے احترام سے سرجھکالیا اور چلا گیا۔
آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اٹھ کر بستر پر گر رہا ہے اور فیروز دوسرے وار کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
اسود بستر پر گر پڑا۔ اس کا سر پلنگ کے بازو پر تھا اور سانڈوں کی طرح ڈکار رہا تھا۔
”تم اسے نہیں مارسکو گے فیروز!“…آزاد نے آگے بڑھ کر کہا اور اسود کے بال جو لمبے تھے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور وہ خود فرش پر بیٹھ گئی …اب فیروز…گردن کاٹ دو
فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن صاف کاٹ کر سر جسم سے الگ کردیا۔
فیروز کے ساتھیوں قیس عبدالغیوث اور داذویہ کو معلوم تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے ۔ فیروز نے اسود کا سر اٹھایا اور ان دونوں کے ہاں جاپہنچا۔ محافظوں اور پہرہ داروں کو رحمن الیمن کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے محل کو محاصرے میں لے لیا۔ آزاد فیروز کے ساتھ رہی۔ محل میں بھگدڑ مچ گئی حرم کی عورتوں کا ہجوم چیختا چلاتا باہر کو بھاگا ۔ ادھر رسول اللہ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ اور ویرین یحنس سرکردہ مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کر چکے تھے اور دن رات زمیں دوز سرگرمیوں سے مسلمانوں کے حوصلے بحال کرچکے تھے ۔
ابھی صبح صادق میں کچھ وقت باقی تھا۔ محل کی چھت سے اذان کی آواز بلند ہوئی ۔ لوگ حیران ہوئے کہ محل میں اذان…لوگ محل کی طرف دوڑے۔ اسود کی فوج حکم کی منتظر تھی لیکن حکم دینے والا قیس عبدالغیوث تھا وہی سپہ سالار تھا اس نے فوج کو باہر نہ آنے دیا ۔
اسود کا سر محل کے باہر لٹکادیا گیا۔ محل کی چھتوں سے للکار بلند ہورہی تھی …”ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور اسودعنسی کذاب ہے “
اسود کے پیروکاروں پر خوف طاری ہوگیا اور مسلمان مسلح ہوکر نکل آئے اور انہوں نے یمنیوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔
مصر کے مشہور صحافی اور سابق وزیر معاف محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب ابوبکر ، صدیق اکبر میں فیروز کی زبانی ایک روایت پیش کی ہے ۔ فیروز نے کہا تھا :
”اسود کو قتل کرکے ہم نے وہاں کا انتظام پہلے کی طرح رہنے دیا یعنی جس طرح اسود کے تسلط سے پہلے تھا۔ ہم نے قتل کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ معاذ بن حبل کو بلایا کہ وہ ہمیں باجماعت نماز پڑھائیں…ہم بے انتہا خوش تھے کہ ہم نے اسلام کے اتنے بڑے دشمن کو ختم کردیا ہے لیکن اچانک اطلاع ملی کہ رسول خدا وصال فرماگئے ہیں اس خبر سے یمن میں ابتری سی پھیل گئی “
فیروز کو مسلمانوں نے صنعاء کا حاکم مقرر کردیا ۔
یہ واقعہ مئی ۶۳۲ء کا ہے ۔ قیس بن ہبیرہ اور دبربن یحنس جون ۶۳۲ء کے دوسرے ہفتے میں یہ خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے کہ جھوٹا نبی اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور یمن پر اسلامی پرچم لہرادیا گیا ہے ۔ لیکن مدینہ سوگوار تھا ۔ ۵ جون۶۳۲ء (۱۲ربیع الاول ۱۱ھجری) رسول خدا وصال فرماگئے تھے ۔
###