Episode 15 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 15 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

جنگ احد ختم ہوچکی تھی ۔ قریش ا س لحاظ سے برتری کا دعویٰ کرسکتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا تھا لیکن یہ جنگ ہارجیت کے بغیر ختم ہوگئی تھی ۔ 
”لیکن یہ ہماری شکست تھی “…خالد کو جیسے اپنی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ …”مسلمانوں کی نفری سات سو تھی اور ہم تین ہزار تھے ۔ ہمارے پاس دو سو گھوڑے تھے ۔ ہماری فتح قریب تب ہوتی جب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیتے“
خالد نے اپنے آپ میں جھنجھناہٹ محسوس کی ۔
اس پر ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ اس کے دانت بجنے لگے اسے جنگ کا آخری منظر یاد آنے لگا تھا اس نے اس بھیانک یاد کو ذہن سے نکالنے کے لیے سر کو جھٹکا دیا لیکن مکھیوں کی طرح یہ یاد اس کے ارد گرد بھنبھناتی رہی۔ اسے اپنے آپ میں شرم سی محسوس ہونے لگی۔

(جاری ہے)

جنگجو یوں نہیں کیا کرتے ۔ 

خالد جب حضرت عمر کی للکار پر واپس آرہا تھا تو اس بلندی سے اس کی نظر میدان جنگ پر پڑی۔
وہاں لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ شاید ان میں بے ہوش زخمی بھی ہوں گے۔لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کے لیے نہ ابھی مسلمان آگے بڑھے تھے نہ اہل قریش، خالد کو ابو سفیان کی بیوی ہُند نظر آئی۔ وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے دوڑی چلی آرہی تھی۔ اس کے اشارے پر قریش کی وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ آئی تھیں۔ اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئیں۔ ُہند ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔
وہ اونچے قد کی اور فربہی مائل جسم کی پہلوان قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔ کوئی لاش اوندھے منہ پڑی نظر آتی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اس لاش کو سیدھا کرکے دیکھتی تھی ۔ اس نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا کہ وہ حمزہ کی لاش تلاش کریں۔ 
اسے حمزہ کی لاش مل گئی۔ ہُند بھوکے درندے کی طرح لاش کو چیرنے پھاڑنے لگی۔ اس نے لاش کے کچھ اعضاء کاٹ کر پرے پھینک دیے۔
اس نے دوسری عورتوں کو دیکھا جو اس کے قریب کھڑی تھیں۔ 
”کھڑی کیا دیکھ رہی ہو ؟“…ہُند نے ان عورتوں سے یوں کہا جیسے وہ پاگل ہوگئی ہو …”یہ دیکھو میں نے اپنے باپ، اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش کا کیا حال کردیا ہے ، جاؤ ، مسلمانوں کی ہر ایک لاش کا یہی حال کردو اور سب کے کان اور ناک کاٹ کر لے آؤ “
جب وہ عورتیں مسلمانوں کی لاشوں کو چیرنے پھاڑنے کے لیے وہاں سے ہٹ گئیں تو ہند نے خنجرسے حمزہ کا پیٹ چاک کرکے اس کے اندر ہاتھ ڈالا۔
اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں لاش کا کلیجہ تھا جو ہند نے خنجر سے کاٹ لیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہ کا۔ حمزہ کے کلیجے کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور درندوں کی طرح اسے چبانے لگی لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کلیجے کے اس ٹکڑے کو اگل دیا ۔ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اس ٹکڑے کو نگلنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن یہ ٹکرا اس کے حلق سے نیچے نہیں جارہا تھا ۔
 
خالد کو دور ابو سفیان کھڑا نظر آیا۔ ہند کی اس وحشیانہ حرکت نے خالد کا مزہ کرکرا کردیا تھا ۔ وہ جنگجو تھا ۔ وہ صرف آمنے سامنے آکر لڑنے والا آدمی تھا۔ اپنے دشمن کی لاشوں کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف یہ کہ اسے پسند نہ آیا بلکہ اس نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ 
ابو سفیان کو دیکھ کر خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ابو سفیان کے پاس جاگھوڑا روکا۔
 
”ابو سفیان!“…خالد نے غصے اور حقارت کے ملے جلے لہجے میں کہا …”کیا تم اپنی بیوی اور ان عورتوں کی اس وحشیانہ حرکت کو پسند کر رہے ہو ؟“
ابو سفیان نے خالد کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جس میں بے بسی کی جھلک تھی اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے لاشوں کے ساتھ اپنی بیوی کا یہ سلوک پسند نہیں ۔ 
”خاموش کیوں ہو ابو سفیان!“
”تم ہند کو جانتے ہو خالد!“…ابوسفیان نے دبی سی زبان میں کہا …”یہ عورت اس وقت پاگلوں سے بدتر ہے ۔
اگر میں یا تم اسے روکنے کے لیے آگے بڑھے تو یہ خنجر سے ہمارے پیٹ بھی چاک کردے گی ۔ “
خالد ہند کو جانتا تھا ۔ وہ ابو سفیان کی بے بسی کو سمجھ گیا ۔ ابو سفیان نے سر جھکایا ، گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا اور منہ پھیر کر دوسری طرف چل پڑا۔ خالد بھی اس منظر کو برداشت نہ کرسکا۔ 
جب ہند حمزہ کی لاش کا کلیجہ چبا کر اگل چکی تو اس نے پیچھے دیکھا اس کے پیچھے جبیر بن مطعم کا غلام وحشی بن حرب کھڑا تھا۔
اس کے ہاتھ میں افریقہ کی بنی ہوئی وہی برچھی تھی جس سے اس نے حمزہ کو شہید کیا تھا ۔ 
”یہاں کیا کر رہے ہو بن حرب!“ہند نے تحکمانہ انداز میں اسے کہا …”جاؤ اور مسلمانوں کی لاشوں کے ٹکڑے کردو“
وحشی بن حرب بولتا بہت کم تھا ۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ بات اشاروں میں ہی کرلی جائے۔ اس نے ہند کا حکم ماننے کی بجائے اپنا ہاتھ ہند کے آگے پھیلادیا اور اس کی نظریں ہند کے گلے میں لٹکتے ہوئے سونے کے ہار پر جم گئیں۔
ہند کو اپنا وعدہ یاد آگیا۔ اس نے وحشی سے کہا تھا کہ تم میرے باپ، چچا اور بیٹے کے قاتل کو قتل کردو تو میں نے جتنے زیورات پہن رکھے ہیں وہ تمہارے ہوں گے ۔ اب وحشی اپنا انعام لینے آیا تھا ۔ ہند نے اپنے تمام زیورات اتار کر وحشی بن حرب کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ وحشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ وہاں سے چل پڑا۔ ہند پر اس وقت فتح اور انتقام کا بھوت سوار تھا ۔
 
”ٹھہر جاؤ بن حرب!“…ہند نے جوشیلی آواز میں اس حبشی کو بلایا ۔ وہ جب اس کے پاس آیا تو ہند نے کہا …”میں نے تمہیں کہا تھا کہ میر اکلیجہ ٹھنڈا کردو تو تمہیں اپنے زیورات دوں گی لیکن تم اس سے زیادہ انعام کے حقدار ہو“…ہند نے قریش کی عورتوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا …”تم جانتے ہو ان عورتوں میں کنیزیں کون کون ہیں۔ دیکھو ۔ وہ جوان بھی ہیں ، خوبصورت بھی، تمہیں جو کنیز اچھی لگتی ہے اسے لے جاؤ “
وحشی بن حرب نے اپنی عادت کے مطابق خاموشی سے چند لمحے ہند کے چہرے پر نظریں گاڑیں لیکن اس کی نظریں کنیزوں کی طرف نہ گئیں۔
اس نے انکار میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا ۔ 
کچھ دیر بعد میدان جنگ کی ہولناکی میں سے ہند کی بلند اور مترنم آواز سنائی دینے لگی۔ مورخ ابن ہشام کے مطابق اس نے ترنم سے جونغمہ گایا اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے :
ہم نے بدر کے معرکے کا حساب برابر کردیا ہے ۔ 
ایک خونریز معرکے کے بدلے ہم نے ایک خونریز معرکہ لڑلیا ہے ۔ 
عتبہ کا غم میری برداشت سے باہر تھا ۔
 
عتبہ میرا باپ تھا ۔ 
مجھے چچا کا بھی غم تھا، اپنے بیٹے کا بھی غم تھا 
اب میرا سینہ ٹھنڈا ہوگیا ہے 
میں نے اپنی قسم پوری کردی ہے 
وحشی نے میرے دل کے درد کا مداوا کردیا ہے 
میں عمر بھر وحشی کی احسان مند رہوں گی ۔ 
اس وقت تک جب تک میری ہڈیاں قبر کی مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوجاتیں
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط