جنگ احد ختم ہوچکی تھی ۔ قریش ا س لحاظ سے برتری کا دعویٰ کرسکتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا تھا لیکن یہ جنگ ہارجیت کے بغیر ختم ہوگئی تھی ۔
”لیکن یہ ہماری شکست تھی “…خالد کو جیسے اپنی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ …”مسلمانوں کی نفری سات سو تھی اور ہم تین ہزار تھے ۔ ہمارے پاس دو سو گھوڑے تھے ۔ ہماری فتح قریب تب ہوتی جب ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیتے“
خالد نے اپنے آپ میں جھنجھناہٹ محسوس کی ۔
اس پر ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ اس کے دانت بجنے لگے اسے جنگ کا آخری منظر یاد آنے لگا تھا اس نے اس بھیانک یاد کو ذہن سے نکالنے کے لیے سر کو جھٹکا دیا لیکن مکھیوں کی طرح یہ یاد اس کے ارد گرد بھنبھناتی رہی۔ اسے اپنے آپ میں شرم سی محسوس ہونے لگی۔
(جاری ہے)
جنگجو یوں نہیں کیا کرتے ۔
خالد جب حضرت عمر کی للکار پر واپس آرہا تھا تو اس بلندی سے اس کی نظر میدان جنگ پر پڑی۔
وہاں لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ شاید ان میں بے ہوش زخمی بھی ہوں گے۔لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کے لیے نہ ابھی مسلمان آگے بڑھے تھے نہ اہل قریش، خالد کو ابو سفیان کی بیوی ہُند نظر آئی۔ وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے دوڑی چلی آرہی تھی۔ اس کے اشارے پر قریش کی وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ آئی تھیں۔ اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئیں۔ ُہند ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔
وہ اونچے قد کی اور فربہی مائل جسم کی پہلوان قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔ کوئی لاش اوندھے منہ پڑی نظر آتی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اس لاش کو سیدھا کرکے دیکھتی تھی ۔ اس نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا کہ وہ حمزہ کی لاش تلاش کریں۔
اسے حمزہ کی لاش مل گئی۔ ہُند بھوکے درندے کی طرح لاش کو چیرنے پھاڑنے لگی۔ اس نے لاش کے کچھ اعضاء کاٹ کر پرے پھینک دیے۔
اس نے دوسری عورتوں کو دیکھا جو اس کے قریب کھڑی تھیں۔
”کھڑی کیا دیکھ رہی ہو ؟“…ہُند نے ان عورتوں سے یوں کہا جیسے وہ پاگل ہوگئی ہو …”یہ دیکھو میں نے اپنے باپ، اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش کا کیا حال کردیا ہے ، جاؤ ، مسلمانوں کی ہر ایک لاش کا یہی حال کردو اور سب کے کان اور ناک کاٹ کر لے آؤ “
جب وہ عورتیں مسلمانوں کی لاشوں کو چیرنے پھاڑنے کے لیے وہاں سے ہٹ گئیں تو ہند نے خنجرسے حمزہ کا پیٹ چاک کرکے اس کے اندر ہاتھ ڈالا۔
اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں لاش کا کلیجہ تھا جو ہند نے خنجر سے کاٹ لیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہ کا۔ حمزہ کے کلیجے کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور درندوں کی طرح اسے چبانے لگی لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کلیجے کے اس ٹکڑے کو اگل دیا ۔ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اس ٹکڑے کو نگلنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن یہ ٹکرا اس کے حلق سے نیچے نہیں جارہا تھا ۔
خالد کو دور ابو سفیان کھڑا نظر آیا۔ ہند کی اس وحشیانہ حرکت نے خالد کا مزہ کرکرا کردیا تھا ۔ وہ جنگجو تھا ۔ وہ صرف آمنے سامنے آکر لڑنے والا آدمی تھا۔ اپنے دشمن کی لاشوں کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف یہ کہ اسے پسند نہ آیا بلکہ اس نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔
ابو سفیان کو دیکھ کر خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ابو سفیان کے پاس جاگھوڑا روکا۔
”ابو سفیان!“…خالد نے غصے اور حقارت کے ملے جلے لہجے میں کہا …”کیا تم اپنی بیوی اور ان عورتوں کی اس وحشیانہ حرکت کو پسند کر رہے ہو ؟“
ابو سفیان نے خالد کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جس میں بے بسی کی جھلک تھی اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے لاشوں کے ساتھ اپنی بیوی کا یہ سلوک پسند نہیں ۔
”خاموش کیوں ہو ابو سفیان!“
”تم ہند کو جانتے ہو خالد!“…ابوسفیان نے دبی سی زبان میں کہا …”یہ عورت اس وقت پاگلوں سے بدتر ہے ۔
اگر میں یا تم اسے روکنے کے لیے آگے بڑھے تو یہ خنجر سے ہمارے پیٹ بھی چاک کردے گی ۔ “
خالد ہند کو جانتا تھا ۔ وہ ابو سفیان کی بے بسی کو سمجھ گیا ۔ ابو سفیان نے سر جھکایا ، گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا اور منہ پھیر کر دوسری طرف چل پڑا۔ خالد بھی اس منظر کو برداشت نہ کرسکا۔
جب ہند حمزہ کی لاش کا کلیجہ چبا کر اگل چکی تو اس نے پیچھے دیکھا اس کے پیچھے جبیر بن مطعم کا غلام وحشی بن حرب کھڑا تھا۔
اس کے ہاتھ میں افریقہ کی بنی ہوئی وہی برچھی تھی جس سے اس نے حمزہ کو شہید کیا تھا ۔
”یہاں کیا کر رہے ہو بن حرب!“ہند نے تحکمانہ انداز میں اسے کہا …”جاؤ اور مسلمانوں کی لاشوں کے ٹکڑے کردو“
وحشی بن حرب بولتا بہت کم تھا ۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ بات اشاروں میں ہی کرلی جائے۔ اس نے ہند کا حکم ماننے کی بجائے اپنا ہاتھ ہند کے آگے پھیلادیا اور اس کی نظریں ہند کے گلے میں لٹکتے ہوئے سونے کے ہار پر جم گئیں۔
ہند کو اپنا وعدہ یاد آگیا۔ اس نے وحشی سے کہا تھا کہ تم میرے باپ، چچا اور بیٹے کے قاتل کو قتل کردو تو میں نے جتنے زیورات پہن رکھے ہیں وہ تمہارے ہوں گے ۔ اب وحشی اپنا انعام لینے آیا تھا ۔ ہند نے اپنے تمام زیورات اتار کر وحشی بن حرب کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ وحشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ وہاں سے چل پڑا۔ ہند پر اس وقت فتح اور انتقام کا بھوت سوار تھا ۔
”ٹھہر جاؤ بن حرب!“…ہند نے جوشیلی آواز میں اس حبشی کو بلایا ۔ وہ جب اس کے پاس آیا تو ہند نے کہا …”میں نے تمہیں کہا تھا کہ میر اکلیجہ ٹھنڈا کردو تو تمہیں اپنے زیورات دوں گی لیکن تم اس سے زیادہ انعام کے حقدار ہو“…ہند نے قریش کی عورتوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا …”تم جانتے ہو ان عورتوں میں کنیزیں کون کون ہیں۔ دیکھو ۔ وہ جوان بھی ہیں ، خوبصورت بھی، تمہیں جو کنیز اچھی لگتی ہے اسے لے جاؤ “
وحشی بن حرب نے اپنی عادت کے مطابق خاموشی سے چند لمحے ہند کے چہرے پر نظریں گاڑیں لیکن اس کی نظریں کنیزوں کی طرف نہ گئیں۔
اس نے انکار میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا ۔
کچھ دیر بعد میدان جنگ کی ہولناکی میں سے ہند کی بلند اور مترنم آواز سنائی دینے لگی۔ مورخ ابن ہشام کے مطابق اس نے ترنم سے جونغمہ گایا اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے :
ہم نے بدر کے معرکے کا حساب برابر کردیا ہے ۔
ایک خونریز معرکے کے بدلے ہم نے ایک خونریز معرکہ لڑلیا ہے ۔
عتبہ کا غم میری برداشت سے باہر تھا ۔
عتبہ میرا باپ تھا ۔
مجھے چچا کا بھی غم تھا، اپنے بیٹے کا بھی غم تھا
اب میرا سینہ ٹھنڈا ہوگیا ہے
میں نے اپنی قسم پوری کردی ہے
وحشی نے میرے دل کے درد کا مداوا کردیا ہے
میں عمر بھر وحشی کی احسان مند رہوں گی ۔
اس وقت تک جب تک میری ہڈیاں قبر کی مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوجاتیں
######