مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں کھلبلی برپا ہوچکی تھی ۔ ایک شور تھا …”قریش اور غطفان نے خندق عبور کرلی ہے …مسلمانو!امتحان کا وقت آچکا ہے …ہوشیار …خبردار…دشمن آگیا ہے “
رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو بے قابو نہ ہونے دیا۔ آپ نے دیکھ لیا تھا کہ اہل قریش خندق کے پار کھڑے قہقہے لگارہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کا مذاق بھی اڑا رہے تھے پھبتیاں بھی کس رہے تھے ۔
رسول کریم اس جگہ پہنچے جہاں عکرمہ اور اس کے سوار کھڑے للکار رہے تھے ۔ رسول کریم کے ساتھ حضرت علی بھی تھے آپ نے صورت حال کا جائزہ لیا تو سمجھ گئے کہ عکرمہ انفرادی مقابلے کے لیے آیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور حجرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر عمرو بن عبدو د نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا ۔
”قسم ہے ہبل اور عزیٰ کی“…عمرو نے للکار کر کہا …”تم میں مجھے کوئی ایک بھی نظر نہیں آرہا جو میرے مقابلے میں اتر سکے “
مورخ عینی شاہدوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی خاموشی گواہی دے رہی تھی کہ ان پر عمرو کا خوف طاری ہوگیا ہے وجہ یہ تھی کہ عمرو کی جسامت اور طاقت کے ایسے ایسے قصے مشہور تھے جیسے وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہو۔
(جاری ہے)
دیکھا شاید کسی نے بھی نہیں تھا لیکن سب کہتے تھے کہ عمرو گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے اور وہ پانچ سو گھوڑ سواروں کو اکیلا شکست دے سکتا ہے ۔ اس کے متعلق ہر کوئی تسلیم کرتا تھا کہ اسے نہ کوئی گراسکا ہے نہ گراسکے گا ۔
ابو سفیان خندق کے پار کھڑا دیکھ رہا تھا ۔ خالد اور صفوان بھی دیکھ رہے تھے ۔ غطفان، عینیہ اور ان کا تمام لشکر دیکھ رہا تھا …اور نعیم بن مسعود بھی غیر مسلمانوں کے لشکر میں دم بخود کھڑے تھے ۔
”میں جانتا ہوں تم میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا “…عمرو بن عبدود کی للکار ایک بار پھر گرجی۔ خندق کے پار قریش کا قہقہہ بلند ہوا اور کئی پھبتیاں سنائی دیں۔
حضرت علی نے رسول خدا کی طرف دیکھا۔ آپ نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور حضرت علی کے سر پر باندھ دیا، پھر اپنی تلوار حضرت علی کو دی ۔ مورخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسول کریم کی سرگوشی سنائی دی …”علی کا مددگار تو ہی ہے میرے اللہ !“
مورخین نے اس تلوار کے متعلق جو رسول اکرم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دی تھی لکھا ہے کہ یہ قریش کے ایک مشہور جنگجو منبہ بن حجاج کی تھی۔
وہ بدر کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔ فاتح مجاہدین نے یہ تلوار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی تھی۔ آپ نے اس کے بعد یہی تلوار اپنے پاس رکھی۔ اب آپ نے وہی تلوار جضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے کر عرب کے ایک دیو قامت کے مقابلے میں اتارا۔ یہ تلوار تاریخ اسلام میں ذوالفقار کے نام سے مشہور ہوئی۔
حضرت علی عمرو بن عبدود کے سامنے جاکھڑے ہوئے ۔
”ابوطالب کے بیٹے!“…عمرو جو گھوڑے پر سوار تھا ۔ حضرت علی سے مخاطب ہوا …”کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا باپ میرا کتنا گہرا دوست تھا ؟کیا یہ میرے لیے بہت برا فعل نہیں ہوگا کہ میں اپنے عزیز دوست کے بیٹے کو قتل کردوں؟“
”اے میرے باپ کے دوست !“…حضرت علی نے للکار کر جواب دیا …”ہماری دوستی ختم ہوچکی ہے ۔ خدا کی قسم میں تمہیں صرف ایک بار کہوں گا کہ اللہ کو برحق اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تسلیم کرلو اور ہم میں شامل ہوجاؤ “
”تم نے ایک بار کہہ لیا ہے “…عمر ونے کہا …”میں دوسری بار یہ بات نہیں سنوں گا …میں یہ بھی کہوں گا کہ میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا“
”میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں عمرو!“…حضرت علی نے کہا …”اتر گھوڑے سے اور آمیرے مقابلے میں اور بچا اپنے آپ کو اس تلوار سے جو مجھے اللہ کے رسول نے عطا کی ہے “
###
عمر و کے متعلق مورخ لکھتے ہیں کہ وہ وحشی تھا ۔
جب غصے میں آتا تھا تو اس کا چہرہ غضبناک ہوکر درندوں جیسا ہوجاتا تھا ۔ وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور تلوار سونت کر حضرت علی پر پہلا وار اتنی تیزی سے کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ اس کی تلوار نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کاٹ دیا ہے لیکن حضرت علی یہ بھرپور وار بچاگئے ۔ اس کے بعد عمرو نے یکے بعد دیگرے حضرت علی پر متعدد وار کیے۔ حضرت علی نے ہر وار غیر متوقع پینترا بدل کر بچایا۔
عمرو نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ جس جسامت اور طاقت پر اسے اتنا گھمنڈ ہے وہ ہر جگہ کام نہیں آسکتی۔ تیغ زنی کے معرکے میں جس تیزی اور پھرتی کا مظاہرہ حضرت علی کر رہے تھے وہ عمرو نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کا جسم بھاری بھرکم تھا ۔ اگر وہ گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا بھی سکتا تھا تو بھی اس میں گھوڑے جیسی رفتار نہیں تھی۔ اس کی طاقت گھوڑے سے زیادہ بھی ہوسکتی تھی۔
حضرت علی نے اس پر ایک بھی وار نہ کیا جسے عمرو نے خوفزدگی سمجھا ہوگا۔ وہ وار پر وار کرتا رہا اور حضرت علی کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتے رہے ۔
خندق کے پار اہل قریش کا لشکر جو قہقہے لگارہا تھا ۔ یکلخت خاموش ہوگیا کیونکہ ان کا دیوقیامت عمرو وار کرتے کرتے رک گیا تھا اور خاموش کھڑا ہوگیا تھا ۔ وہ ہانپ رہا تھا ۔ وہ غالباً حیران تھا کہ یہ نوجوان جو قدبُت میں اس کے جسم کا بیسواں حصہ بھی نہیں ۔
اس سے مرعوب کیوں نہیں ہوا، دراصل عمرو تھک گیا تھا ۔
حضرت علی نے جب اس کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی طاقت اتنے سارے وار کرتے کرتے صرف کرچکا ہے اور حیران و پریشان کھڑا ہے تو حضرت علی نے یہ حیران کن مظاہرہ کیا کہ تلوار پھینک کر بجلی کی سی تیزی سے عمرو پر جھپٹے اور اچھل کر اس کی گردن اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت علی نے عمرو کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگ ایسے پھنسائی کہ وہ پیٹھ کے بل گِرا۔
اس نے اپنی گردن چھڑانے کے لیے بہت زور لگایا لیکن اس کی گردن حضرت علی کی آہنی گرفت سے آزاد نہ ہوسکی۔ حضرت علی نے اس کی گردن سے ایک ہاتھ ہٹا کر کمر بندسے خنجر نکالا اور اس کی نوک عمرو کی شہ رگ پر رکھ دی ۔
”اب بھی میرے اللہ کے رسول پر ایمان لے آؤ تو میں تیری جان بخشی کردوں گا“…حضرت علی نے کہا ۔
عمرو بن عبدود نے جب دیکھا کہ اس کی وہ طاقت جس سے اہل عرب لرزتے تھے بیکار ہوگئی ہے تو اس نے یہ اوچھی حرکت کی کہ حضرت علی کے منہ پر تھوک دیا۔
دیکھنے والے ایک بار پھر حیران رہ گئے کیونکہ حضرت علی خنجر سے اس کی شہہ رگ کاٹ دینے کی بجائے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ انہوں نے خنجر کو کمر بند میں اڑس لیا اور ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا۔ عمرو اب اس طرح اٹھا جیسے اس کے جسم کی طاقت ختم ہوچکی ہو ، صرف اسے ہی نہیں ہر کسی کو توقع تھی کہ حضرت علی اسے زندہ نہیں اٹھنے دیں گے لیکن حضرت علی بڑے آرام سے پیچھے ہٹے۔
”عمرو!“…حضرت علی نے کہا …”میں نے اللہ کے نام پر تیرے ساتھ زندگی اور موت کا مقابلہ کیا تھا لیکن تو نے میرے منہ پر تھوک کر میرے دل میں ذاتی دشمنی پیدا کردی ہے میں تجھے ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل نہیں کروں گا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے خدا کو میرا یہ انتقام اچھا نہ لگے…جا یہاں سے اپنی جان لے کر واپس چلا جا“
عمرو بن عبدود شکست تسلیم کرنے والا آدمی نہیں تھا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ میدان میں یہ اس کی پہلی ہار تھی جسے وہ برداشت نہ کرسکا۔ اس نے اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کے لیے یہ اوچھی حرکت کی کہ تلوار نکال کر حضرت علی پر جھپٹ پڑا۔ حضرت علی اس حملے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن ان کی کامیابی کے لیے رسول خدا نے خدا سے مدد مانگی تھی ۔ عین وقت پر جب عمرو کی تلوار اور حضرت علی کی گردن میں دو چار لمحوں کا فاصلہ رہ گیا تھا حضرت علی نے اپنی ڈھال آگے کردی۔
عمرو کا وار اس قدر زور دار تھا کہ اس کی تلوار نے حضرت علی کی ڈھال کو کاٹ دیا۔ ڈھال حضرت علی کے کان کے قریب سر پر لگی جس سے خون پھوٹنے لگا ۔
عمرو ڈھال میں سے تلوار کھینچ ہی رہا تھا کہ حضرت علی کی وہ تلوار جو انہیں رسول کریم نے دی تھی ، اتنی تیزی سے حرکت میں آئی کہ عمرو کی گردن کٹ گئی گردن پوری نہ کٹی لیکن شہ رگ کٹ چکی تھی عمرو کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اس کا جسم ڈولنے لگا ۔
حضرت علی نے اس پر دوسرا وار نہ کیا۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ یہی وار کافی ہے ۔ عمرو کی ٹانگیں دوہری ہوئیں۔ اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور وہ لڑھک گیا عرب کی مٹی اس کا خون چوسنے لگی ۔
خندق کے پار دشمن کے لشکر پر ایسا سکوت طاری ہوگیا جیسے پورے کا پورا لشکر کھڑے کھڑے مرگیا ہو ۔ اب مسلمانوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔
عربوں کی رسم کے مطابق اس مقابلے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا۔
مسلمانوں کے ایک جیش نے عکرمہ اور اس کے باقی سواروں پر حملہ کردیا۔ قریش کے ان سواروں کے لیے بھاگ نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ وہ خیریت سے پسپا ہونے کے لیے لڑے۔ اس معرکے میں قریش کا ایک آدمی مارا گیا ۔ عکرمہ نے اپنا گھوڑا خندق کی طرف موڑ کر بھاگ نکلنے کے لیے ایڑ لگادی ۔ خندق پھلانگنے سے پہلے عکرمہ نے اپنی برچھی پھینک دی ۔ ان میں سے ایک سوار جس کا نام خالد بن عبداللہ تھا خندق کو پھلانگ نہ سکا ،اس کا گھوڑا خندق کے اگلے کنارے سے ٹکرایا اور خندق میں جاپڑا۔ وہ اٹھ کر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن مسلمانوں نے اس پر پتھروں کی بوچھاڑ کردی اور وہ وہیں ختم ہوگیا ۔
###