مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے گھوڑ سوار وہاں نہیں تھے ۔ وہی تھوڑے سے سوار تھے جو پیادوں کے ساتھ تھے ۔ خالد کے ساتھ کچھ گھوڑ سوار محافظ تھے ۔ آتش پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ۔ اندرزغر کے لیے یہ فتح بڑی آسان تھی ۔ خالد نے اتنی تھوڑی نفری کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کے سامنے آکر غلطی کی تھی ۔
جس میدان میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھی وہ ہموار میدان تھا اس کے دائیں اور بائیں دو بلند ٹیکریاں تھیں ایک ٹیکری آگے جاکر مڑ گئی تھی ۔
اس کے پیچھے اور ایک ٹیکری تھی خالد نے اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں رکھا تھا۔ ادھر آتش پرست بھی جنگی ترتیب میں ہوگئے اور دونوں فوجوں کے سالار ایک دوسرے کا جائزہ لینے لگے ۔
خالد نے دیکھا کہ آتش پرستوں کے پیچھے دریا تھا لیکن اندرزغر نے اپنی فوج کو دریا سے تقریباً ایک میل دور رکھا تھا آتش پرستوں کے پہلے سالاروں نے اپنا عقب دریا کے قریب رکھا تھا تاکہ عقب محفوظ رہے لیکن اندرزغر نے اپنے عقب کی اتنی احتیاط نہ کی اسے یقین تھا کہ یہ مٹھی بھر مسلمان اس کے عقب میں آنے کی جرأت نہیں کریں گے ۔
(جاری ہے)
”زرتشت کے پجاریو!“…اندرزغر نے اپنی سپاہ سے خطاب کیا …”یہ ہیں وہ مسلمان جن سے ہمارے ساتھیوں نے شکست کھائی ہے ۔ انہیں اپنی آنکھوں دیکھ لو ۔ کیا ان سے شکست کھاکر تم ڈوب نہیں مرو گے …کیا تم انہیں فوج کہو گے …یہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کا گروہ ہے ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ جائے “
وہ دن یوں ہی گزر گیاسالار ایک دوسرے کی فوج کو دیکھتے اور اپنی اپنی فوج کی ترتیب سیدھی کرتے رہے اگلے روز خالد نے اپنی فوج کو حملے کا حکم دے دیا۔
فارس کی فوج تہ در تہہ کھڑی تھی مسلمانوں کا حملہ تیز اور شدید تھا لیکن دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی مسلمانوں کو پیچھے ہٹ آنا پڑا۔ دشمن نے اپنی اگلی صف کو پیچھے کرکے تازہ دم سپاہیوں کو آگے کردیا۔
####
خالد نے ایک اور حملے کے کے لیے اپنے چند ایک دستوں کو آگے بھیجا۔ گھمسان کا معرکہ ہوا لیکن مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ آتش پرستوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور وہ نیم زرہ پوش بھی تھے۔
مسلمانوں کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک دیوار سے ٹکرا کر واپس آگئے ہوں۔
خالد نے کچھ دیر اور حملے جاری رکھے مگر مجاہدین تھکن محسوس کرنے لگے ۔ متعدد مجاہدین زخمی ہوکر بیکار ہوگئے ۔ خالد نے اس خیال سے کہ ان کی فوج حوصلہ نہ ہار بیٹھے خود حملے کے لیے سپاہیوں کے ساتھ جانے لگے ۔ اس سے مسلمانوں کا جذبہ تو قائم رہا لیکن ان کے جسم شل ہوگئے ۔
آتش پرست ان پر قہقہے لگارہے تھے ۔
اس وقت تک مسلمانوں نے خالد کی زیر کمان جتنی لڑائیاں لڑی تھیں۔ ان میں یہ پہلی لڑائی تھی جس میں مسلمانوں نے اپنے سالار کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج دبا دبا سا تھا لیکن فوج میں بے اطمینانی سی صاف نظر آنے لگی۔ خالد جیسے عظیم سالار کے خلاف سپاہیوں کی بے اطمینانی عجیب سی بات تھی ۔
وہ پوچھتے تھے کہ اپنا سوار دستہ کہاں ہے وہ محسوس کر رہے تھے کہ خالد اپنے مخصوص انداز سے نہیں لڑ رہے ۔
خالد سپاہیوں کی طرح ہر حملے میں آگے جاتے تھے پھر بھی ان کے سپاہیوں کو کسی کمی کا احساس ہورہا تھا ۔ دشمن کی اتنی زیادہ نفری دیکھ کر بھی مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے انہیں شکست نظر آنے لگی تھی ۔
آتش پرستوں نے ابھی ایک بھی ہلہ نہیں بولا تھا ۔ اندزرغر مسلمانوں کو تھکا کر حملہ کرنا چاہتا تھا مسلمان تھک چکے تھے ۔ خالد اپنی فوج کی یہ کیفیت دیکھ رہے تھے ۔
اسی لیے انہوں نے حملے روک دیے تھے۔ وہ سوچ ہی رہے کہ اب کیا چال چلیں کہ آتش پرستوں کی طرف سے ایک دیوہیکل آدمی آگے آیا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر کہا کہ جس میں میرے مقابلے کی ہمت ہے آگے آجائے ۔
یہ ہزار مرد پہلوان اور تیغ زن تھا ۔ فارس میں ہزار مرد کا لقب اس جنگجو پہلوان کو دیا جاتا تھا جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا تھا ہزار مرد کا مطلب تھا کہ یہ ایک آدمی ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے ۔
اندرزغر اس دیو کو آگے کرکے مسلمانوں کا تماشہ دیکھنا چاہتا تھا ۔ مسلمانوں میں اس کے مقابلے میں اترنے والا کوئی نہ تھا ۔ خالد گھوڑے سے کود کر اترے، تلوار نکالی اور ہزار مرد کے سامنے جاپہنچے ۔ کچھ دیر دونوں کی تلواریں ٹکراتی رہیں ار دونوں پینترے بدلتے رہے۔ آتش پرست پہلوان مست بھینسا لگتا تھا ۔ اس میں اتنی طاقت تھی کہا اس کا ایک وار انسان کو دو حصوں میں کاٹ دیتا۔
خالد نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وار کم کردیے اور اسے وار کرنے کا موقع دیتے رہے تاکہ وہ تھک جائے اس پر انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ جیسے وہ خود تھک کر چور ہوگئے ہیں۔
ایرانی پہلوان خالد رضی اللہ عنہ کو کمزور اور تھکا ہوا آدمی سمجھ کر ان کے ساتھ کھیلنے لگا ۔ کبھی تلوار گھما کر ، کبھی اوپر سے نچے کو وار کرتا اور کبھی وار کرتا اور ہاتھ روک لیتا۔
وہ طنزیہ کلامی بھی کر رہا تھا ۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں لاپرواہ سا ہوگیا۔ ایک بار اس نے تلواریں گھمائی جیسے خالد کی گردن کاٹ دے گا ۔ خالد یہ وار اپنی تلوار پر روکنے کی بجائے تیزی سے پیچھے ہٹ گئے ۔ پہلوان کا وار خالی گیا تو وہ گھوم گیا ۔ اس کا پہلو خالد کے آگے ہوگیا۔ خالد اسی کے انتظار میں تھے ۔ انہوں نے نوک کی طرف سے پہلوان کے پہلو میں تلوار کا اس طرح وارکیا کہ برچھی کی طرح تلوار اس کے پہلو میں اتاردی۔
وہ گرنے لگا تو خالد نے اس کے پہلو سے تلوار کھینچ کر ایسا ہی ایک اور وار کیا اور تلوار اس کے پہلو میں دور تک اندر لے گئے ۔
طبری اور ابو یوسف نے لکھا ہے کہ پہلوان گرا اور مرگیا ۔ خالد اس کے سینے پر بیٹھ گئے اور حکم دیا کہ انہیں کھانا دیاجائے انہیں کھانا دیا گیا جو انہوں نے ہزار مرد کی لاش پر بیٹھ کر کھایا ۔ اس انفرادی معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے میں جان ڈال دی ۔
###