Episode 101 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 101 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

تین چار روز بعد رات کو شمر فوج کی ایک چوکی میں بیٹھا دو نوعمر لڑکوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ ایران کے شاہی درباروں میں ایسے لڑکوں کا رقص مقبول تھا جن کے جسم لڑکیوں کی طرح دلکش ، گداز اور لچکدار ہوتے تھے۔ انہیں ایسا لباس پہنایا جاتا تھا جس میں وہ نیم عریاں رہتے تھے ۔ 
شمر شاہی خاندان کا فرد تھا۔ اس رات یہ دو لڑکے اس نے اپنے سپاہیوں کے لیے بلوائے تھے ۔
شراب کا دور چل رہا تھا۔ سپاہی چیخ چیخ کر داد دے رہے تھے۔ شراب میں بدمست ہوکر دوتین سپاہیوں نے بھی لڑکوں کے ساتھ ناچنا شروع کردیا ۔ شمر کے حکم پر ان سپاہیوں کو دوسرے سپاہی اٹھا کر چوکی سے باہر پھینک آئے ۔ 
یہ چوکی چھوٹا سا ایک قلعہ تھا لیکن اس کے دروازہ رات کو بھی کھلے رہتے تھے ایرانیوں کو کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہیں تھا وہ اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے ۔

(جاری ہے)

رقص جب عروج کو پہنچا اور شراب کا نشہ شمر اور اس کے سپاہیوں کے دماغوں کو ماؤف کرنے لگا تو سنسناتا ہوا ایک تیر آیا جو شمر کی گردن میں ایک طرف سے لگا اور اس کی نوک دوسری طرف سے باہر نکل گئی ۔ شمر دونوں ہاتھ اپنی گردن پر رکھ کر اٹھا سپاہیوں میں ہڑبونگ مچ گئی ۔ وہ سب شمر کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے تین چار اور تیر آئے تین چار چیخیں سنائی دیں پھر ان ایرانیوں پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔
انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ کٹنے لگے ان میں سے جو بھاگ کردروازوں کی طرف کیے وہ دروازوں میں کٹ گئے ۔ 
چوکی والوں کو کہیں سے بھی مدد نہیں مل سکتی تھی ۔ کسی بھی دروازے سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا تھا ۔ انہیں ہتھیار اٹھانے کی تو مہلت ہی نہیں ملی تھی ۔ اس حملے میں جو بچ گئے وہ زمین پر لیٹ گئے ۔ 
یہ ایک طوفان تھا یا بگولہ جو غیر متوقع طور پر آیا اور جب گزر گیا تو اپنے ساتھ وہ تمام مال اور دولت جو اس چوکی میں تھا۔
لے گیا پیچھے لاشیں رہ گئیں یا تڑپتے ہوئے زخمی یا وہ اچھے بھلے ایرانی سپاہی جو جان بچانے کے لیے لاشوں اور زخمیوں میں لیٹ گئے تھے ۔ 
###
صبح ہوئی ۔مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کے لیے گھروں سے نکل رہے تھے کہ گھوڑ سوار ایرانی فوج نے ان کی بستی کو گھیرے میں لے لیا۔ دوسری چوکی کو اس وقت اس چوکی پر حملے کی اطلاع ملی تھی جب حملہ آور اپنا کام کرکے بہت دور نکل گئے تھے ۔
مسلمانوں کو کام پر جانے سے روک لیا گیا۔ ایرانی فوجیوں نے مردوں کو الگ اکٹھا کرکے کھڑا کردیا اور ان کے گھروں سے عورتوں کو باہر نکال کر مردوں سے دور کھڑا رہنے کا حکم دیا ۔ فوجی ان کے گھروں میں گھس گئے اور اس طرح تلاشی لی جیسے ان کے مکانوں کے فرش بھی کھود کر دیکھے ہوں 
انہیں کسی گھر سے کوئی ایسی چیز نہ ملی جو شک پیدا کرتی۔ البتہ سپاہیوں کو اپنے کام کی جو چیزیں نظر آئیں وہ انہوں نے اٹھالیں۔
پھر انہوں نے عورتوں اور مردوں کو اکٹھا کھڑا کرکے انہیں دھمکیاں دیں ۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک ان کے لیے نیا نہیں تھا۔ کسی نہ کسی بہانے ان کے گھروں کی تلاشی ہوتی ہی رہتی تھی ۔ اس کے بعد انہیں اسی طرح دھمکیاں ملتی تھیں لیکن اب ایرانیوں کو معقول بہانہ ملا تھا ۔ 
”رات ابلہ کی ایک مضافاتی فوجی چوکی پر بہت سے آدمیوں نے شب خون مارا ہے “…ایک ایرانی کماندار نے مسلمانوں سے کہا …”ہمارا ایک کماندار اور ساٹھ سپاہی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں۔
اگر تم میں کوئی مرد یا عورت اس گروہ کے کسی ایک آدمی کو بھی پکڑوائے گا ۔ اسے انعام ملے گا۔ نقد انعام لے علاوہ اسے اس فصل کا آدھا حصہ ملے گا …“…اس نے سب پر نگاہ ڈالی اورپوچھا …”ایک دوسرے کو دیکھ کر بتاؤ کہ تم میں کون غیر حاضر ہے “
سب نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ کون غیر حاضر ہے ۔ ان کی نگاہیں خدام کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
وہ تین چار دنوں سے بستی سے غائب تھا ۔ …”سب نے دیکھا خدام وہاں موجود تھا۔ سب نے سکون کی سانس لی پھر بہت سی آوازیں اٹھیں کہ کوئی غیر حاضر نہیں “
ایرانی فوجیوں کے جانے کے بعد جنہیں معلوم تھا کہ خدام تین چار روز غائب رہا ہے ۔ وہ باری باری اس سے پوچھنے لگے کہ وہ کہاں چلا گیا ہے ۔ 
”میں شمر کے ڈر سے بھاگ گیا ہوں “…خدام نے ہر کسی کو یہی ایک جواب دیا ۔
 
اس کے باپ نے سب کو بتایا کہ خدام گزشتہ رات کے پچھلے پہر آیا تھا ۔ 
اس روز باغ میں کام کرتے ہوئے زہرہ اور خدام کام سے کھسک گئے اور وہ اس جگہ جابیٹھے جہاں انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ زہرہ خوشی سے پاگل ہورہی تھی اور وہ رہ رہ کر خدام کی بلائیں لیتی تھی ۔ 
”یہ کیسے ہوا خدام!“…اس نے خوشی سے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے پوچھا …”یہ ہوا کیسے؟“
”اسے اللہ کی مدد کہتے ہیں زہرہ !“…خدام نے کہا …”اب نہ کہنا کہ خدا مدد نہیں کرتا “
”خدام!“…زہرہ سنجیدہ ہوگئی جیسے اس کے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ آئی ہی نہ ہو ۔
خدام کے چہرے پر نظریں گاڑھ کر قدرے پریشان لہجے میں بولی …”سچ کہو خدام! شمر کے قاتل تم ہی تو نہیں ؟…کہتے ہیں رات صحرائی ڈاکوؤں کے بہت بڑے گروہ نے شمر کی چوکی پر اس وقت شب خون مارا تھا جب وہ شراب اور رقص میں بدمست تھے ۔ ایسا تو نہیں کہ تم ان ڈاکوؤں سے جا…“
خدام کے اچانک قہقہے نے بنت سعود کی بات پوری نہ ہونے دی ۔ وہ ہنستا ہی رہا اور اس نے اپنا بازو زہرہ کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگالیا۔
زہرہ پر جذبات کا ایسا آسیب طاری ہوا کہ وہ بھول ہی گئی کہ وہ خدام سے کیا کہہ رہی تھی۔ 
###
خدام نے قہقہے میں ایک راز چھپالیا تھا اور زہرہ پر جذبات کا آسیب طاری کرکے یہ راز اس کی آنکھوں کے آگے سے ہٹالیا تھا ۔ زہرہ کو یہ خطرہ نظر آیا تھا کہ خدام غیر معمولی طور پردلیر، غرت مند اور جسمانی لحاظ سے طاقتور اور پھرتیلا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ شمر کو قتل کرانے کے لیے ڈاکوؤں کے گروہ سے جاملا ہو۔
اس زمانے میں صحرائی ڈاکوؤں کے گروہ فوجی دستوں کی طرح اپنی کارروائیاں کرتے تھے ۔ وہ مسافروں کے قافلوں کو لوٹتے اور اگر فوج کے مقابلے میں آجاتے تو جم کر مقابلہ کرتے اور لڑتے لڑتے یوں غائب ہوجاتے تھے جیسے انہیں صحرا کی ریت اور ریتلے ٹیلوں نے نگل لیا ہو۔ 
زہرہ نے کئی بار دیکھا تھا کہ دو تین اجنبی مسافر آئے اور یہ بتا کر کہ وہ بہت دور جارہے ہیں کسی مسلمان کے گھر ٹھہرے اور صبح ہوتے ہی چلے گئے ۔
وہ جب بھی آتے تھے خدام اور اس جیسے تین چار نوجوان زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارتے اور ان کے جانے کے بعد یہ نوجوان پراسرار سی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے تھے ۔ 
زہرہ نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اجنبی مسافروں کے جانے کے بعد مسلمان قبیلوں کے بزرگ سرجوڑ کر بیٹھ جاتے اور سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے ۔ پھر جب مسلمان کھیتی باڑی ، باغبانی اور دیگر کاموں میں مصروف ہوتے تو یہ بزرگ ان کے درمیان گھومتے پھرتے اور ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتے تھے جیسے وعظ کر رہے ہوں ۔
 
”اپنے مذہب کو نہ چھوڑنا “…بزرگ اس قسم کی باتیں کرتے تھے …”جس خدا کے بھیجے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہو ۔ اس خدا کی مدد آرہی ہے …آتش پرست طاقتور ہیں…بہت طاقتور ہیں لیکن وہ اللہ سے زیادہ طاقتور نہیں…ثابت قدم رہو …ظالم کا ہاتھ کٹنے والا ہے …اللہ مظلومین کے ساتھ ہے “
”کب؟آخر کب …“ایک روز ایک آدمی نے جھنجھلا کر ان بزرگوں سے پوچھا …”خدا کی قسم ! تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم ظلم و ستم سہتے چلے جائیں اور چپ رہیں اور تمہارے وعظ سنتے رہیں۔
اگر آج ہم کہہ دیں کہ ہم مسلمان نہیں اور اسلام کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں …خدا کی مدد آرہی ہے …کب آرہی ہے ؟‘
”اسے بتاؤ “…ایک بزرگ نے اس آدمی کے ساتھ کام کرنے والے آدمی سے کہا …”اسے اچھی طرح سمجھاؤ…اسے بتاؤ کہ اس علاقے میں یہ صدیوں پرانے جو کھنڈر کھڑے ہیں خدا کا ہاتھ ان میں سے اٹھے گا اور ظالم کا ہاتھ کٹ جائے گا “
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط