ہند نے تماشے کا پورا انتظام کر رکھا تھا ۔ اس کے اشارے پر چالیس کمسن لڑکے جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں دوڑتے اور چیختے چلاتے ہوئے تماشائیوں میں سے نکلے اور خبیب کے ارد گرد ناچنے اور چیخنے چلانے لگے۔ دو چار لڑکے برچھیاں تانے ہوئے خبیب تک جاتے اور برچھیاں تول کر خبیب پر وارکرتے لیکن خبیب کو گزند پہنچائے بغیر ہاتھ روک لیتے۔ خبیب بدکتے اور نعرے لگاتے …”میرا خدا سچا ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں “
چند اور لڑکے اس طرح برچھیاں تان کر ان پر ہلہ بولتے جیسے خبیب کے جسم کو چھلنی کردیں گے لیکن وار کرکے وار روک لیتے۔
خبیب کے بدکنے پر تماشائیوں کا ہجوم دادو تحسین کے نعرے اور قہقتے لگاتا۔
لڑکوں کا یہ کھیل کچھ دیر جاری رہا۔ اس کے بعد لڑکوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ برچھی کا وار بڑی زور سے کرتے لیکن خبیب کے جسم پر اتنا سا وار لگتا کہ برچھیوں کی انیاں کھال میں ذرا سی اتر کر پیچھے آجاتیں۔
(جاری ہے)
بہت دیر تک یہی کھیل چلتا رہا ۔ تماشائی دادوتحسین کے نعرے اور خبیب اللہ اکبر اور محمد رسول اللہ کے نعرے بلند کرتے رہے ۔
خبیب کے کپڑے خون سے لال ہوچکے تھے ۔
ابو جہل کا بیٹا عکرمہ ہاتھ میں برچھی لئے ان لڑکوں کے پاس جاپہنچا اور انہیں ہدایات جاری کرنے لگا۔ لڑکے اب اپنی برچھیاں خبیب کے جسم میں چبھورہے تھے ۔ خبیب کے جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہ رہا جہاں برچھی نہ چبھی ہو اور وہاں سے خون نہ ٹپک رہا ہو ۔ ان کے چہرے پر بھی برچھیاں ماری گئیں جب بہت دیر گزر گئی اور لڑکے ناچ ناچ کر اور برچھیاں چبھو چبھو کر تھک گئے تو عکرمہ نے لڑکوں کو وہاں سے ہٹادیا۔
خبیب خون میں نہائے ہوئے تھے اور ابھی زندہ تھے ۔ ہر طرف دیکھ رہے تھے ان کے نعروں میں کمی نہیں آئی تھی ۔ عکرمہ ان کے سامنے کھڑا ہوگیا اور برچھی تان کر خبیب کے سینے میں اتنی زور سے ماری کہ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے برچھی خبیب کے جسم سے پار ہوگئی۔ وہ شہید ہوگئے ۔
”ان کی لاشیں یہیں بندھی رہنے دو “…ہند کی گرجدار آواز سنائی دی …”اب کئی دن ان کی لاشوں کے گلنے سڑنے کا تماشہ دیکھتے رہو “
######
یہ واقعہ جولائی ۶۶۸ء کا تھا جو خالدکو یاد آرہا تھا ۔
اس نے اپنے دل میں درد کی ٹیس محسوس کی ۔ خبیب اور زید کے قتل نے قریش کے سرداروں میں اختلاف کا بیج بودیا تھا ۔ جس طرح ان دو مسلمانوں نے آخری وقت نماز پڑھی اور اسلام سے نکل آنے پر موت کو ترجیح دی تھی۔ اس نے قریش کے کئی سرداروں پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ خود خالد نے اگر اسلام کی نہیں تو خبیب اور زید کی دل ہی دل میں بہت تعریف کی تھی ۔ ابو سفیان اور اس کی بیوی ہند کے خلاف اس کے دل میں ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تھی ۔
”یہ جنگجوؤں کا شیوہ نہیں تھا “…اس نے اپنے آپ سے کہا …”یہ جنگجوؤں کو زیب نہیں دیتا تھا ۔ “
ایک روز وہ ان سرداروں کی محفل میں بیٹھا تھا جو رسول خدا کے ان دو صحابہ کرام کے قتل کے خلاف تھے ۔
”کیا تم سب جانتے ہو کہ مارے جانے والے یہ دو نہیں بلکہ چھ مسلمان تھے ؟“…خالد نے پوچھا
”ہاں“…ایک نے جواب دیا …”یہ شارجہ بن مغیث کا کام تھا ۔
وہ ان چھ مسلمانوں کو دھوکے سے پھندے میں لایا تھا۔ “
”اور اس کے پیچھے مکہ کے یہودیوں کا دماغ کام کر رہا تھا ۔ “…خالد نے کہا …”اور اس میں یوحاوہ یہودن نے دو تین اور یہودی لڑکیاں ساتھ لے جاکر اپنے اور ان کے حسن کا جادو چلایا تھا “
”یوحاوہ جادوگرنی ہے “…ایک سردار نے کہا …”وہ بھائی کو بھائی کے ہاتھوں ذبح کراسکتی ہے ۔
“
”کیا یہ خطرہ نہیں کہ یہودی ہمیں بھی ایک دوسرے کا دشمن بنادیں گے ؟“…کسی سردار نے کہا ۔
”نہیں“…ایک بوڑھا سردار بولا …”وہ محمد کے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے ہم ہیں۔ یہودیوں کا مفاد اس میں ہے کہ وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اتنی پکی اور شدید کردیں کہ ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیں“
”ہمیں یہودیوں پر شک نہیں کرنا چاہیے “…ایک سردارنے کہا …”بلکہ ضرورت ہے کہ ہم یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف زمین کے نیچے استعمال کریں “
”لیکن ایسے نہیں جیسے شارجہ نے کہا ہے“…خالد نے کہا …”اور ایسے بھی نہیں جیسے ابو سفیان اور اس کی بیوی نے کیا ہے“
”کیا تم سب جانتے ہو کہ یوحاوہ مکہ کے چند ایک یہودیوں کے ساتھ مدینہ چلی گئی ہے ؟“
بوڑھے سردار نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا …”وہ مدینہ اور ارد گرد کے یہودیوں اور دوسرے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھاریں گے ۔
اسلام کے فروغ سے وہ خود خطرہ محسوس کر رہے ہیں اگر محمد کا عقیدہ پھیلتا چلا گیا اور میدان جنگ میں محمد کے پیروکاروں کا جذبہ یہی رہا جو ہم دیکھ چکے ہیں تو خدائے یہودہ کا سورج غروب ہوجائے گا “
”لیکن یہودی لڑنے والی قوم نہیں “…خالد نے کہا …”وہ میدان جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے “
”مسلمانوں کے لیے وہ میدان جنگ میں زیادہ مہلک ثابت ہوں گے “…ایک سردار نے کہا …”وہ اپنی یوحاوہ جیسی دلکش لڑکیوں کے ذریعے مسلمان سرداروں اور سالاروں کو میدان جنگ میں اترنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے “
یوحاوہ خالد کے دل و دماغ پر غالب آتی جارہی تھی اور چاربرس پرانی باتیں اسے سنائی دے رہی تھیں۔
وہ مدینے کی طرف چلاجارہا تھا اور احد کی پہاڑی اوپر اٹھتی آرہی تھی پھر یہ پہاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگی، اس کا گھوڑا کھائی میں اتر رہا تھا، یہ کوئی ایک میل لمبا اور ڈیڑھ دو فرلانگ چوڑا نشیب تھا جس میں کہیں کہیں مخروطی ٹیلے کھڑے تھے۔ یہ ریتلی مٹی کے تھے ۔ خالد کو دوڑتے ہوئے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ اس نے چونک کر ادھر دیکھا اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر چلا گیا ۔ وہ چار پانچ غزال تھے جو اس کے نیچے دوڑتے جارہے تھے ۔ کچھ دور جاکر ایک غزال نے دوسرے غزال کے پہلو میں ٹکر ماری پھر دونوں غزال آمنے سامنے آگئے اور ان کے سر ٹکرانے لگے ۔ دوسرے غزال انہیں دیکھنے رک گئے ۔
######