Episode 21 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 21 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

ہند نے تماشے کا پورا انتظام کر رکھا تھا ۔ اس کے اشارے پر چالیس کمسن لڑکے جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں دوڑتے اور چیختے چلاتے ہوئے تماشائیوں میں سے نکلے اور خبیب کے ارد گرد ناچنے اور چیخنے چلانے لگے۔ دو چار لڑکے برچھیاں تانے ہوئے خبیب تک جاتے اور برچھیاں تول کر خبیب پر وارکرتے لیکن خبیب کو گزند پہنچائے بغیر ہاتھ روک لیتے۔ خبیب بدکتے اور نعرے لگاتے …”میرا خدا سچا ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں “
چند اور لڑکے اس طرح برچھیاں تان کر ان پر ہلہ بولتے جیسے خبیب کے جسم کو چھلنی کردیں گے لیکن وار کرکے وار روک لیتے۔
خبیب کے بدکنے پر تماشائیوں کا ہجوم دادو تحسین کے نعرے اور قہقتے لگاتا۔
لڑکوں کا یہ کھیل کچھ دیر جاری رہا۔ اس کے بعد لڑکوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ برچھی کا وار بڑی زور سے کرتے لیکن خبیب کے جسم پر اتنا سا وار لگتا کہ برچھیوں کی انیاں کھال میں ذرا سی اتر کر پیچھے آجاتیں۔

(جاری ہے)

 

بہت دیر تک یہی کھیل چلتا رہا ۔ تماشائی دادوتحسین کے نعرے اور خبیب اللہ اکبر اور محمد رسول اللہ کے نعرے بلند کرتے رہے ۔
خبیب  کے کپڑے خون سے لال ہوچکے تھے ۔ 
ابو جہل کا بیٹا عکرمہ ہاتھ میں برچھی لئے ان لڑکوں کے پاس جاپہنچا اور انہیں ہدایات جاری کرنے لگا۔ لڑکے اب اپنی برچھیاں خبیب کے جسم میں چبھورہے تھے ۔ خبیب کے جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہ رہا جہاں برچھی نہ چبھی ہو اور وہاں سے خون نہ ٹپک رہا ہو ۔ ان کے چہرے پر بھی برچھیاں ماری گئیں جب بہت دیر گزر گئی اور لڑکے ناچ ناچ کر اور برچھیاں چبھو چبھو کر تھک گئے تو عکرمہ نے لڑکوں کو وہاں سے ہٹادیا۔
خبیب خون میں نہائے ہوئے تھے اور ابھی زندہ تھے ۔ ہر طرف دیکھ رہے تھے ان کے نعروں میں کمی نہیں آئی تھی ۔ عکرمہ ان کے سامنے کھڑا ہوگیا اور برچھی تان کر خبیب کے سینے میں اتنی زور سے ماری کہ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے برچھی خبیب  کے جسم سے پار ہوگئی۔ وہ شہید ہوگئے ۔ 
”ان کی لاشیں یہیں بندھی رہنے دو “…ہند کی گرجدار آواز سنائی دی …”اب کئی دن ان کی لاشوں کے گلنے سڑنے کا تماشہ دیکھتے رہو “
######
یہ واقعہ جولائی ۶۶۸ء کا تھا جو خالدکو یاد آرہا تھا ۔
اس نے اپنے دل میں درد کی ٹیس محسوس کی ۔ خبیب اور زید کے قتل نے قریش کے سرداروں میں اختلاف کا بیج بودیا تھا ۔ جس طرح ان دو مسلمانوں نے آخری وقت نماز پڑھی اور اسلام سے نکل آنے پر موت کو ترجیح دی تھی۔ اس نے قریش کے کئی سرداروں پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ خود خالد نے اگر اسلام کی نہیں تو خبیب اور زید کی دل ہی دل میں بہت تعریف کی تھی ۔ ابو سفیان اور اس کی بیوی ہند کے خلاف اس کے دل میں ناپسندیدگی پیدا ہوگئی تھی ۔
 
”یہ جنگجوؤں کا شیوہ نہیں تھا “…اس نے اپنے آپ سے کہا …”یہ جنگجوؤں کو زیب نہیں دیتا تھا ۔ “
ایک روز وہ ان سرداروں کی محفل میں بیٹھا تھا جو رسول خدا کے ان دو صحابہ کرام کے قتل کے خلاف تھے ۔ 
”کیا تم سب جانتے ہو کہ مارے جانے والے یہ دو نہیں بلکہ چھ مسلمان تھے ؟“…خالد نے پوچھا 
”ہاں“…ایک نے جواب دیا …”یہ شارجہ بن مغیث کا کام تھا ۔
وہ ان چھ مسلمانوں کو دھوکے سے پھندے میں لایا تھا۔ “
”اور اس کے پیچھے مکہ کے یہودیوں کا دماغ کام کر رہا تھا ۔ “…خالد نے کہا …”اور اس میں یوحاوہ یہودن نے دو تین اور یہودی لڑکیاں ساتھ لے جاکر اپنے اور ان کے حسن کا جادو چلایا تھا “
”یوحاوہ جادوگرنی ہے “…ایک سردار نے کہا …”وہ بھائی کو بھائی کے ہاتھوں ذبح کراسکتی ہے ۔
”کیا یہ خطرہ نہیں کہ یہودی ہمیں بھی ایک دوسرے کا دشمن بنادیں گے ؟“…کسی سردار نے کہا ۔
”نہیں“…ایک بوڑھا سردار بولا …”وہ محمد کے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے ہم ہیں۔ یہودیوں کا مفاد اس میں ہے کہ وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اتنی پکی اور شدید کردیں کہ ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیں“
”ہمیں یہودیوں پر شک نہیں کرنا چاہیے “…ایک سردارنے کہا …”بلکہ ضرورت ہے کہ ہم یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف زمین کے نیچے استعمال کریں “
”لیکن ایسے نہیں جیسے شارجہ نے کہا ہے“…خالد نے کہا …”اور ایسے بھی نہیں جیسے ابو سفیان اور اس کی بیوی نے کیا ہے“
”کیا تم سب جانتے ہو کہ یوحاوہ مکہ کے چند ایک یہودیوں کے ساتھ مدینہ چلی گئی ہے ؟“
بوڑھے سردار نے پوچھا اور خود ہی جواب دیا …”وہ مدینہ اور ارد گرد کے یہودیوں اور دوسرے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھاریں گے ۔
اسلام کے فروغ سے وہ خود خطرہ محسوس کر رہے ہیں اگر محمد کا عقیدہ پھیلتا چلا گیا اور میدان جنگ میں محمد کے پیروکاروں کا جذبہ یہی رہا جو ہم دیکھ چکے ہیں تو خدائے یہودہ کا سورج غروب ہوجائے گا “
”لیکن یہودی لڑنے والی قوم نہیں “…خالد نے کہا …”وہ میدان جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے “
”مسلمانوں کے لیے وہ میدان جنگ میں زیادہ مہلک ثابت ہوں گے “…ایک سردار نے کہا …”وہ اپنی یوحاوہ جیسی دلکش لڑکیوں کے ذریعے مسلمان سرداروں اور سالاروں کو میدان جنگ میں اترنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے “
یوحاوہ خالد کے دل و دماغ پر غالب آتی جارہی تھی اور چاربرس پرانی باتیں اسے سنائی دے رہی تھیں۔
وہ مدینے کی طرف چلاجارہا تھا اور احد کی پہاڑی اوپر اٹھتی آرہی تھی پھر یہ پہاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگی، اس کا گھوڑا کھائی میں اتر رہا تھا، یہ کوئی ایک میل لمبا اور ڈیڑھ دو فرلانگ چوڑا نشیب تھا جس میں کہیں کہیں مخروطی ٹیلے کھڑے تھے۔ یہ ریتلی مٹی کے تھے ۔ خالد کو دوڑتے ہوئے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ اس نے چونک کر ادھر دیکھا اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر چلا گیا ۔ وہ چار پانچ غزال تھے جو اس کے نیچے دوڑتے جارہے تھے ۔ کچھ دور جاکر ایک غزال نے دوسرے غزال کے پہلو میں ٹکر ماری پھر دونوں غزال آمنے سامنے آگئے اور ان کے سر ٹکرانے لگے ۔ دوسرے غزال انہیں دیکھنے رک گئے ۔ 
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط