Episode 39 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 39 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

بنو قریظہ کی تباہی کی خبر مکہ پہنچی تو سب سے زیادہ خوشی ابو سفیان کو ہوئی ۔ 
”خدا کی قسم، بنو قریظہ کو اس بدعہدی کی سزا ملی ہے جو اس کے سردار کعب بن اسد نے ہمارے ساتھ کی تھی“…”ابو سفیان نے کہا …“اگر اس کا قبیلہ مدینے پر شب خون مارتا رہتا تو فتح ہماری ہوتی اور ہم بنو قریظہ کو موت کی بجائے مال غنیمت دیتے …کیوں خالد! کیا بنو قریظہ کا انجام بہت برا نہیں ہوا ؟
خالد نے ابو سفیان کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس کی بات اچھی نہ لگی ہو ۔
 
”کیا تم بنو قریظہ کے اس انجام سے خوش نہیں ہو خالد؟“…ابو سفیان نے پوچھا ۔ 
”مدینہ سے پسپائی کا دکھ اتنا زیادہ ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی بھی میرا یہ دکھ ہلکا نہیں کرسکتی “…خالد نے کہا …”بدعہد کی دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیا تم مجھے بتاسکتے ہو کہ یہودیوں نے کس کے ساتھ وفا کی ہے ؟اپنی بیٹیوں کو یہودیت کے تحفظ اور فروغ کے لیے دوسری قوموں کے آدمیوں کی عیاشی کا ذریعہ بنانے والی قوم پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا “
’ہمیں مسلمانوں نے نہیں طوفانی آندھی نے محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا تھا ’“…ابوسفیان نے کہا …”ہمارے پاس خوراک نہیں رہی تھی ۔

(جاری ہے)

”تم لڑنا نہیں چاہتے تھے “…خالد نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا ۔ 
خالد اب خاموش رہنے لگا تھا۔ اسے کوئی زبردستی بلاتا تووہ جھنجھلا اٹھتا۔ اس کے قبلے کا سردار ابوسفیان اس سے گھبرانے لگا تھا۔ خالد اسے بزدل کہتا تھا۔ خالد نے اپنے آپ سے عہد کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست دے گا لیکن اسے جب میدان جنگ میں مسلمانوں کی جنگی چالیں اور ان کا جذبہ یاد آتا تھا تو وہ دل ہی دل میں رسول اکرم کو خراج تحسین پیش کرتا تھا۔
ایسا عسکری جذبہ اور ایسی عسکری فہم و فہراست قریش میں ناپید تھی ۔ یہ فہم و فراست خالد میں تھی لیکن اپنے قبیلے سے اسے تعاون نہیں ملتا تھا ۔ 
آج جب وہ مدینہ کی طرف اکیلا جارہا تھا تو اسے معرکہ خندق سے پسپائی یاد آرہی تھی۔ اسے غصہ بھی آرہا تھا اور وہ شرمسار بھی ہورہا تھا۔ اسے یاد آرہا تھا کہ اس نے ایک سال کس طرح گزارا تھا۔ وہ مدینہ پر ایک اور حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن اہل قریش مدینہ کا نام سن کر دبک جاتے تھے ۔
 
آخر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آرہے ہیں اسے یہ خبر ابوسفیان نے سنائی تھی ۔ 
”مسلمان مکہ پر حملہ کرنے صرف اس لیے آرہے ہیں کہ ہم نے ثابت کردیا ہے کہ قبیلہ قریش محمد سے ڈرتا ہے“…خالد نے ابو سفیان سے کہا …”کیا تم نے اپنے قبیلے کو کبھی بتایا ہے کہ مسلمان مکہ پر حملے کرسکتے ہیں ؟کیا قبیلہ حملہ روکنے کے لیے تیار ہے؟“
”اب اس بحث کا وقت نہیں کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا “…ابوسفیان نے کہا …”مجھے اطلاع دینے والے نے بتایا ہے مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار ہے…تم کچھ سوچ سکتے ہو ؟“
”میں سوچ چکا ہوں “…خالد نے کہا …”مجھے تین سو سوار دے دو، میں مسلمانوں کو راستے میں روک لوں گا میں کرع الغیم کی پہاڑیوں میں گھات لگاؤں گا ۔
وہ اسی درے سے گزر کر آئیں گے ۔ میں انہیں پہاڑیوں میں بکھیر کر ماروں گا “
”تم جتنے سوار چاہو لے لو “…ابو سفیان نے کہا …”اور فوراً روانہ ہوجاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ درے سے گزر آئیں“
خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس خبرنے اس کے جسم میں نئی روح پھونک دی تھی۔ اس نے اسی روز تین سو سوار تیار کرلیے تھے مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی ۔
ان میں زیادہ تر نفری پیادہ تھی ۔ خالد خوش تھا کہ اپنے سواروں کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے ۔ اب ابوسفیان اس کے سر پر سوار نہیں تھا ۔ سب فیصلے اسے خود کرنے تھے …وہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے روانہ ہوگیا ۔ 
###

خالد کچھ دیر آرام کرکے اور گھوڑے کو پانی پلا کر چل پڑا تھا۔ اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا تھا۔ مکہ سے گھوڑا آرام آرام سے چلتا آیا تھا۔
خالد بڑی مضبوط شخصیت کا آدمی تھا۔ اس کے ذہن میں خواہشیں کم اور ارادے زیادہ ہوا کرتے تھے ۔ وہ ذہن کو اپنے قبضے میں رکھا کرتا تھا مگر مدینہ کو جاتے ہوئے ذہن اس پر قابض ہوجاتا تھا۔ یادوں کے تھپیڑے تھے جو اسے طوفانی سمندر میں بہتی ہوئی کشتی کی طرح پٹخ رہے تھے کبھی اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہوجاتی جیسے وہ مدینہ بہت جلدی پہنچنا چاہتا ہو اور کبھی یوں جیسے اسے کہیں بھی پہنچنے کی جلدی نہ ہو ۔
اس کی آنکھوں کے آگے منزل سراب بن جاتی اور دور ہی ہٹتی نظر آتی تھی ۔ 
گھوڑا اپنے سوار کے ذہنی خلفشار سے بے خبر چلا جارہا تھا۔ 
سوار نے اپنے سر کو جھٹک کر گردوپیش کو دیکھا۔ وہ ذرا بلند جگہ پر جارہا تھا۔ افق سے احد کا سلسلہ کوہ اور اوپر اٹھ آیا تھا۔ خالد کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد ان پہاڑیوں کے قریب سے مدینے کے مکان ابھرنے لگیں گے ۔
 
اسے ایک با پھر خندق اور وہ پسپائی یاد آئی اور اسے مسلمانوں کے ہاتھوں چار سو یہودیوں کا قتل بھی یاد آیا۔ بنو قریظہ کی اس تباہی کی خبر پر قریش کا سردار ابوسفیان تو بہت خوش ہوا تھا مگر خالد کو خوشی نہ ہوئی نہ افسوس ہوا تھا۔ 
”قریش یہودیوں کی فریب کاریوں کا سہارا لے کر محمد کے پیروکاروں کو شکست دینا چاہتے ہیں “
خالد کو خیال آیا۔
اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جیسے اس خیال کو ذہن سے صاف کردینا چاہتا ہوں ۔ اس کا ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جارہا تھا گھنٹیوں کی مترنم آوازیں اسے ماضی سے نکال لائیں۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ بائیں طرف وسیع نشیب تھا خالد اوپر اوپر جارہا تھا۔ نیچے چار اونٹ چلے آرہے تھے اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے تھے۔ ان کے پہلو میں ایک گھوڑا تھا۔ اونٹوں پرر دو عورتیں، چند بچے اور دو آدمی سوار تھے۔
اونٹوں پر سامان بھی لدا ہوا تھا گھوڑا سوار بوڑھا آدمی تھا ان کی رفتار تیز تھی۔ خالد نے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کردی ۔ 
اونٹوں کا یہ مختصر سا قافلہ اس کے قریب آگیا ۔ بوڑھے گھوڑ سوار نے اسے پہچان لیا۔ 
”تمہارا سفر آسان ہو ولید کے بیٹے !“…بوڑھے نے بازو بلند کرکے لہرایا اور بولا …”نیچے آجاؤ کچھ دور اکٹھے چلیں گے “
خالد نے گھوڑے کی لگام کو ایک طرف جھٹکا دیا اور ہلکی سی ایڑ لگائی۔
گھوڑا نیچے اتر گیا ۔ 
”ہا ہا !“…خالد نے اپنا گھوڑا بوڑھے کے گھوڑے کے پہلو میں لے جاکر خوشی کا اظہار کیا اور کہا …”ابو جریج!…اور یہ سب تمہارا خاندان ہے “
”ہاں!“…بوڑھے ابو جریج نے کہا …”یہ میرا خاندان ہے …اور تم خالد بن ولید! کدھر کا رخ کیا ہے؟مجھے یقین ہے تم مدینہ کو نہیں جارہے …مدینہ میں تمہارا کیا کام ؟“
یہ قبیلہ غطفان کا ایک خاندان تھا جو نقل مکانی کرکے کہیں جارہا تھا ۔
ابو جریج نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ خالد مدینہ کو نہیں جارہا تو خالد نے اسے بتانا مناسب بھی نہ سمجھا ۔ 
”اہل قریش کیا سوچ رہے ہیں؟“…ابوجریج نے کہا …”کیا یہ صحیح نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ نبی مانتے ہی چلے جارہے ہیں ؟کیا ایسا نہیں ہوگا کہ ایک روز مدینہ والے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے اور ابو سفیان ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گا۔
”جو سردار اپنی شکست کا انتقام لینا ضروری نہیں سمجھتا وہ ہتھیار ڈالنے کو بھی برا نہیں سمجھے گا “…خالد نے کہا…”کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملے کرنے گئے تھے تو مدینے والوں نے اپنے ارد گرد خندق کھود لی تھی۔“…خالد نے کہا …”ہم خندق پھلانگ سکتے تھے ۔ میں خندق پھلانگ گیا تھا عکرمہ بھی خندق کے پار چلا گیا تھا مگر ہمارا لشکر جس میں تمہارے قبیلے کے جنگجو بھی تھے دور کھڑا تماشہ دیکھتا رہا تھا۔
مدینہ سے پسپا ہونے والا سب سے پہلا آدمی ہمارا سردار ابوسفیان تھا ۔ “
”میرے بازؤں میں طاقت نہیں رہی ابن ولید!“…ابوجریج نے اپنا ایک ہاتھ جو ضعیفی سے کانپ رہا تھا۔ خالد کے آگے کرکے کہا …”میرا جسم ذرا سا بھی ساتھ دیتا تو مین بھی اس معرکے میں اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتا …اس روز میرے آنسو نکل آئے تھے جس روز میرا قبیلہ مدینہ سے پسپا ہوکر لوٹا تھا …اگر کعب بن اسد دھوکہ نہ دیتا اور مدینہ پر تین چار شب خون ماردیتا تو فتح یقیناً تمہاری ہوتی “
خالد جھنجھلا اٹھا۔
اس نے ابوجریج کو قہر کی نظروں سے دیکھا اور چپ رہا ۔ 
”کیا تم نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن نے تمہارے قبیلے کے ایک آدمی جرید بن مسیب کو محمد کے قتل کے لیے تیار کیا تھا “…ابوجریج نے پوچھا ۔ 
”ہاں!“…خالد نے کہا …”سنا تھا …اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ جرید بن مسیب میرے قبیلے کا آدمی تھا …کہاں ہے وہ ؟ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کا پتہ نہیں چلا میں نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن اسے اپنے ساتھ یہودی جادوگر لیث بن موشان کے پاس لے گئی تھی اور ا سنے جرید کو محمد کے قتل کے لیے تیار کیا تھا مگر مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے لیث بن موشان کا جادو جواب دے گیا۔
جرید بن مسیب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ بنو قریظہ میں سے زندہ بھاگ جانے والے صرف دو تھے ۔ لیث بن موشان اور یوحاوہ“
”اب صرف ایک زندہ ہے “…ابوجریج نے کہا …”لیث بن موشان…صرف لیث بن موشان زندہ ہے “
”اور جرید اور یوحاوہ؟“
”وہ بدروحیں بن گئے تھے “…ابوجریج نے کہا …”میں تمہیں ان کی کہانی سنا سکتا ہوں تم نے یوحاوہ کو دیکھا تھا۔
وہ مکہ کی ہی رہنے والی تھی اگر تم کہو گے کہ اسے دیکھ کر تمہارے دل میں ہلچل نہیں ہوتی تھی اور تم اپنے اندر حرارت سی محسوس نہیں کرتے تھے تو خالد میں کہوں گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو ۔ کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ مدینے پر حملے کے لیے غطفان اہل قریش سے کیوں جا ملا تھا اور دوسرے قبیلوں کے سرداروں نے کیوں ابو سفیان کو اپنا سردار تسلیم کرلیا تھا ؟…یہ یوحاوہ اور اس جیسی چار یہودنوں کا جادو چلا تھا ۔ “
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط