اکیدر بن مالک اپنے دربار میں اونچی مسند پر بیٹھا تھا ۔ اس کے پیچھے دو نیم برہنہ لڑکیاں کھڑی مورچھل ہلارہی تھی۔ اکیدر بن مالک کے چہرے پر وہی رعونت جو روایتی بادشاہوں کے چہروں پر ہوا کرتی تھی ۔
”اے ابن مالک!“اس کے بوڑھے وزیر نے جو اس کی فوج کا سالار بھی تھا اٹھ کر کہا …”“تیری بادشاہی کو کبھی زوال نہ آئے۔ کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ ایلہ ، جربہ اور اذرح اور مقننہ کے قبیلوں نے مسلمانوں کی دوستی قبول کرلی ہے …آج دوستی قبول کی ہے تو کل قبیلہ قریش کے محمد کے مذہب کو بھی قبول کرلیں گے
”کیا ہمارابزرگ وزیر ہمیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں؟“…اکیدر بن مالک نے کہا …”ہم ایسا کوئی مشورہ قبول نہیں کریں گے “
”نہیں ابن مالک!“…بوڑھے وزیر نے کہا …”میری عمر نے جو مجھے دکھایا ہے وہ تو نے ابھی نہیں دیکھا میں مانتا ہوں کہ تو یہ بھی نہیں سوچ رہا کہ مسلمانوں نے حملہ کردیا تو ہم تمہاری بادشاہی کو کس طرح بچائیں گے “
”صلیب مقدس کی قسم!“…اکیدر بن مالک نے کہا …”ہمارے ارد گرد جو علاقہ ہے وہ ہماری بادشاہی کو بچائے گا ۔
(جاری ہے)
میرے اس خوفناک صحرا کی ریت مسلمانوں کا خون چوس لے گی ۔ ریت اور مٹی کے جو ٹیلے دومتہ الجندل کے ارد گرد کھڑے ہیں یہ خدا نے میرے سنتری کھڑے کر رکھے ہیں ہم پر کوئی فتح نہیں پاسکتا “
اس وقت خالد بن ولید اپنے چار سو سوار دستوں کے ساتھ آدھا راستہ طے کرچکے تھے ۔ اگلے روز وہ اس صحرا میں داخل ہوگئے جسے مورخوں نے بھی ناقابل تسخیر لکھا ہے ۔
مجاہدین کے چہرے ریت کی مانند خشک ہوگئے تھے ۔ گھوڑوں کی چال بتارہی تھی کہ یہ مسافت اور پیاس ان کی بردشت سے باہر ہوئی جارہی ہے لیکن خالد بن ولید کی قیادت مجاہدین کے دلوں میں نئی روح پھونک رہی تھی ۔
دومتہ الجندل اچھا خاصا شہر تھا اس کے ارد گرد دیوار تھی ۔ خالد بن ولید اس کے قریب پہنچ گئے اور اپنے سواروں کو ایک وسیع نشیب میں چھپادیا ۔
مجاہدین کی جسمانی کیفیت ایسی تھی کہ انہیں کم از کم ایک دن اور ایک رات آرام کرنے کی ضرورت تھی لیکن خالد نے اپنے سواروں کو تیاری کی حالت میں رکھا ۔ سورج غروب ہوگیا ۔ پھر رات گہری ہونے لگی ۔ چاند پوری آب و تاب سے چمکنے لگا صحرا کی چاندنی بڑی شفاف ہوگئی ۔ خالد بن ولید اپنے ایک آدمی کو ساتھ لے کر شہر کی دیوار کی طرف چل پڑے۔ وہ جائزہ لینا چاہتے تھے کہ شہر کا محاصرہ کیا جائے جس کے لیے چار سو سوار کافی نہیں تھے۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا تھا کہ شہر کی ناکہ بندی کردی جائے ۔ دوسری صورت یلغار تھی ۔
خالد دیوار کے دروازے سے خاصا پیچھے ایک اوٹ میں بیٹھ گئے چاندنی اتنی صاف تھی کہ دیوار کے اوپر سے خالد رضی اللہ عنہ نظر آسکتے تھے ۔
شہر کا بڑا دروازہ کھلا۔ خالد سمجھے کہ اکیدر فوج لے کر باہر آرہا ہے اور وہ ان پر حملے کرے گا لیکن اکیدر کے پیچھے پیچھے چند سوار باہر نکلے اور دروازہ بند ہوگیا۔
خالد کو یاد آیا کہ تبوک سے روانگی کے وقت ررسول کریم نے انہیں کہا تھا …”اکیدر تمہیں شاید شکار کھیلتا ہوا ملے گا “
اکیدر بن مالک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جیسے شکار کھیلنے کے لیے ہی پیدا ہوا تھا ۔ صحرا میں شکار رات کو ملتا تھا کیونکہ دن کے وقت جانور دبکے چھپے رہتے تھے ۔ پورے چاند کی رات بڑے شکار کے لیے موزوں سمجھی جاتی تھی ۔
یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انٹیلی جنس کا کمال تھا کہ آپ نے دشمن کی عادات اور خصلتوں کا بھی پتہ چلالیا تھا اور آپ نے خالد رضی اللہ عنہ کو اکیدر کے متعلق پوری معلومات دے دی تھیں۔
خالد نے جب دیکھا کہ اکیدر ابن مالک چند ایک سواروں کے ساتھ باہر آیا ہے تو انہوں نے اس کے انداز کا پوری طرح جائزہ لیا۔ خالد رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ اکیدر کو معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ چار سو مسلمان سوار اس کے شہر کے قریب پہنچ گئے ہیں اور وہ شکار کھیلنے جارہا ہے ۔
خالد اپنے آدمی کے ساتھ رینگتے سرکتے پیچھے آئے جب اکیدر اپنے سواروں کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو خالد دوڑ کر اپنے سواروں تک پہنچ گئے ۔ انہوں نے کچھ سوار منتخب کیے اپنے تمام سواروں کو انہوں نے تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا ۔ وہ سواروں کے ایک جیش کو اپنی قیادت میں اس طرف لے گئے جدھر اکیدر گیا تھا۔ خالد نے یہ خیال رکھا کہ اکیدر شہر سے اتنا آگے چلا جائے کہ جب اس پر حملہ ہو تو شہر تک اس کی آواز بھی نہ پہنچ سکے ۔
رات کے سناٹے میں اتنے زیادہ گھوڑوں کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا تھا۔ اکیدر اور اس کے ساتھیوں کو پتہ چل گیا تھا کہ ان کے پیچھے گھوڑ سوار آرہے ہیں اکیدر کا بھائی حسان بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے کہا کہ وہ جاکے دیکھتا ہے کہ یہ کون ہیں۔ اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کو موڑا ہی تھا کہ خالد نے اپنے سواروں کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا ۔ اکیدر کو خالد اور ان کے سواروں کی للکار سے پتہ چلا کہ یہ مسلمان ہیں۔
حسان نے برچھی سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن مارا گیا ۔
اکیدر اپنے سواروں سے ذرا الگ تھا۔ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رخ اکیدر کی طرف کرلیا۔ اکیدر ایسا بوکھلایا کہ خالد پر وار کرنے کی بجائے اس نے راستے سے ہٹنے کی کوشش کی ۔ خالد نے اس پر کسی ہتھیار سے وار نہ کیا نہ گھوڑے کی رفتار کم کی ۔ انہوں نے گھوڑا اکیدر کے گھوڑے کے قریب سے گزارا اور بازو اکیدر کی کمر میں ڈال کر اسے اس کے گھوڑے سے اٹھا کر اپنے ساتھ ہی لے گئے ۔
اکیدر بن مالک کے شکاری ساتھیوں اور محافظوں نے دیکھا کہ ان کا فرمانروا پکڑا گیا اور اس کا بھائی مارا گیا ہے تو انہوں نے خالد کے سواروں کا مقابلہ کرنے کی بجائے بھاگ نکلنے کا راستہ دیکھا۔ وہ زمین ایسی تھی کہ چھپ کرنکل جانے کے لیے نشیب، کھڈ اور ٹیلے بہت تھے۔ ان میں کچھ زخمی ہوئے لیکن نکل گئے ۔ شہر میں داخل ہوکر انہوں نے دروازہ بند کردیا۔
###