تین چار ماہ بعد وہ مسلمان جن کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اسے طعنے دے رہے تھے۔ وہ اوچھے طریقے سے انتقام لینے والا آدمی نہیں تھا ۔ وہ وہاں سے کھسک کر آیا اور اہل قریش کے ہجوم میں گم ہوگیا۔ اسے اس قبیلے کا ایک آدمی مل گیا جو ان دو مسلمانوں کو پکڑ لایا تھا ۔(کسی بھی تاریخ میں اس قبیلے کا نام نہیں ملتا، مورخوں نے ابن ہشام کے حوالے سے اسے ایک جنگجو قبیلہ لکھا ہے جو قریش کا اتحادی تھا )
خالد نے اس جنگجو قبیلے کے اس آدمی سے پوچھا کہ ان دو مسلمانوں کو کس طرح پکڑا گیا ہے ۔
”خدا کی قسم!“…اس آدمی نے کہا …”کہو تو ہم ان مسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لائیں اور نیلامی کے چبوترے پر کھڑا کردیں “
”تم جو کام نہیں کرسکتے اس کی قسم نہ کھاؤ “…خالد نے کہا …”مجھے بتاؤ کہ ان دو کو کہاں سے پکڑا گیا ہے “
”یہ چھ تھے “…اس شخص نے جواب دیا …”ہم نے احد میں مارے جانے والوں کا انتقام لیا ہے ۔
(جاری ہے)
آئندہ بھی ایسے ہی انتقام لیتے رہیں گے ۔ ہمارے قبیلے کے کچھ آدمی مدینہ محمد کے پاس گئے اور کہا کہ وہ اسلام قبول کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا پورا قبیلہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرچکا ہے لیکن پورا قبیلہ مدینے نہیں آسکتا۔ ہمارے ان آدمیوں نے محمد سے کہا کہ ان کے ساتھ چند ایک مسلمانوں کو ان کے قبیلے میں بھیجا جائے جو پورے قبیلے کو مسلمان کریں اور پھر قبیلے کو مذہبی تعلیم دینے کے لیے کچھ عرصہ وہیں رہیں…“
”ہمارے یہ آدمی جب واپس آئے تو ان کے ساتھ چھ مسلمان تھے ۔
ادھر ہمارے سردار شارجہ بن مغیث نے ایک سو آدمیوں کو رجیع کے مقام پر بھیج دیا۔ جب یہ چھ مسلمان رجیع پہنچے تو ہمارے ایک سو آدمیوں نے انہیں گھیر لیا…تم سن کر حیران ہوگے کہ یہ چھ مسلمان تلواریں نکال کر ایک سو آدمیوں کے مقابلے پر آگئے ۔ ہم نے تین کو مار ڈالا اور تین کو پکڑ لیا۔ ان کے ہاتھ رسیوں سے باندھ دیے۔ شارجہ بن مغیث نے حکم دیا تھا کہ مدینے سے کچھ مسلمان تمہارے دھوکے میں آکر تمہارے ساتھ آگئے تو ان میں سے دو تین کو مکہ لے جانا اور انتقام لینے والوں کے ہاتھوں فروخت کردینا …“
”ہم تین کو ادھر لارہے تھے ۔
راستے میں ان میں سے ایک نے رسیوں میں سے ہاتھ نکال لیے مگر وہ بھاگا نہیں وہ اتنا پھرتیلا تھا کہ اس نے ہمارے ایک آدمی کی نیام سے تلوار نکال لی کیونکہ اسے ہم نے نہتہ کر رکھا تھا ۔ اس نے بڑی تیزی سے ہمارے آدمیوں کو مار ڈالا۔ اکیلا آدمی اتنے سارے آدمیوں کا مقابلہ کب تک کرتا ۔ وہ مارا گیا اور ہم نے اس کے جسم کا قیمہ کردیا۔ یہ دورہ گئے ۔ ہم نے ان کے ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے باندھ دیے اور یہاں لے آئے “
”اور تم خوش ہو “…خالد نے اسے طنزیہ کہا …”محمدصلی اللہ علیہ وسلم کیا کہے گا ؟…اہل قریش اور ان کے دوست قبیلے اتنے بزدل ہوگئے ہیں کہ اب دھوکہ دینے اور چھ آدمیوں کو ایک سو سے مروانے پر اتر آئے ہیں۔
کیا تم نے مجھے یہ بات سناتے شرم محسوس نہیں کی ؟کیا ان ایک سو آدمیوں نے اپنی ماؤں کو شرمسار نہیں کیا ، جن کا دودھ انہوں نے پیا ہے ؟“
”تم نے میدان جنگ میں مسلمانوں کا کیا بگاڑا تھا ولید کے بیٹے ؟“…اس آدمی نے کہا …”کیا تم محمد کی طاقت کا مقابلہ کرسکتے ہو ؟بدر میں ایک ہزار قریش تین سو تیرہ سے مار کھاآئے تھے ۔احد کی لڑائی میں محمد کے پیروکار کتنی تعداد میں تھے؟…سات سو سے کم ہوں گے زیادہ نہیں تھے ۔
قریش کتنے تھے ؟…ہزاروں۔ سن خالد بن ولید!محمد کے ہاتھ میں جادو ہے جہاں جادو چلتا ہے وہاں تلوار نہیں چل سکتی “
”پھر تمہاری تلوار کس طرح چلی ہے ؟“…خالد نے پوچھا …”اگر محمد کے ہاتھ میں جادو ہے تو وہ تمہارے سردار شارجہ بن مغیث کے دھوکے میں کس طرح آگیا ؟اس کے چار آدمیوں کو کس طرح مار ڈالا؟ان دو کو محمد کا جادو آزاد کیوں نہیں کرالیتا؟…تم جس چیز کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں رکھتے اسے جادو کہہ دیتے ہو “
”ہم نے جادو کو جادو سے کاٹا ہے “…شارجہ بن مغیث کے قبیلے کے اس آدمی نے کہا …”ہمارے پاس یہودی جادوگر آئے تھے ۔
ان کے ساتھ تین جادوگرنیاں تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام یوحاوہ ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک گھنی جھاڑی میں سے ایک برچھی زمین پر سرکتی باہر آئی۔ یہ برچھی جھاڑی میں واپس چلی گئی اور سانپ بن کر باہر آئی ۔ یہ سانپ واپس جھاڑی میں چلا گیا ۔‘ ‘
#######
مدینے کی طرف جاتے ہوئے اُسے یہ واقعہ یاد آرہا تھا ہ وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن زہریلی بھڑوں کی طرح یہ یاد اس کے اوپر بھنبھناتی رہی۔
اسے یوحاوہ یاد آئی۔ وہ جادوگرنی تھی یا نہیں۔ اس کے حسن میں، جسم کی ساخت، مسکراہٹ اور بولنے کے انداز میں جادو تھا ۔ اس نے شارجہ بن مغیث کے اس آدمی کے منہ سے یوحاوہ کا نام سنا تو وہ چونکا۔ معرکہ احد کے بعد جب اہل قریش کی فوج مکہ واپس آئی تھی تو مکہ کے یہودی ایسے انداز سے ابو سفیان، خالد اور عکرمہ کے پاس آئے تھے جیسے احد میں یہودیوں کو شکست ہوئی ہو، یہودیوں کے سرداروں نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی اور لڑائی ہار جیت کے بغیر ختم ہوگئی ہے تو یہ قریش کی شکست ہے ۔
یہ یہودیوں کی ناکامی ہے …یہودیوں نے اہل قریش کے ساتھ اس طرح ہمدردی کا اظہا رکیا تھا جیسے وہ اہل قریش کی ناکامی پر غم سے مرے جارہے ہوں۔
انہی دنوں خالد نے پہلی بار یوحاوہ کو دیکھا تھا ۔ وہ اپنے گھوڑے کی ٹہلائی کے لیے آبادی سے باہر نکل گیا تھا ۔ جب وہ واپس آرہا تھا تو راستے میں اسے یوحاوہ مل گئی تھی ۔ یوحاوہ کی مسکراہٹ نے اسے روک لیا ۔
”میں تسلیم نہیں کرسکتی کہ ولید کا بیٹا جنگ سے ناکام لوٹ آیا ہے “…یوحاوہ نے کہا اور خالد کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی اور بولی”مجھے اس گھوڑے سے پیار ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے گیا تھا “
خالد یوں گھوڑے سے اتر آیا جیسے یوحاوہ کے جادو نے اسے گھوڑے سے زمین پر کھڑا کردیا ہو ۔
”اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی کہ تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکے“…یوحاوہ نے کہا…”تمہاری شکست ہماری شکست ہے ۔
اب ہم تمہارا ساتھ دیں گے لیکن تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تم ہمیں اپنے ساتھ نہیں دیکھ سکو گے “
خالد نے یوں محسوس کیا جیسے اس کی زبان بند ہوگئی ہو ۔ تلواروں، برچھیوں اور تیروں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرنے والا خالد یوحاوہ کی مسکراہٹ کا مقابلہ نہ کرسکا۔
”اگر یہودی ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تو ہمارے کس کام آسکیں گے ؟“…خالد نے پوچھا ۔
”کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف تیر ہی انسان کے جسم سے پار ہوجاتا ہے ؟“…یوحاوہ نے کہا …”عورت کا تبسم تم جیسے دلیر اور جری مردوں کے ہاتوں سے تلوار گراسکتا ہے “
خالد اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن کچھ پوچھ نہ سکا۔ یوحاوہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور پھولوں کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر تبسم آگیا ۔ یوحاوہ آگے چل پڑی ۔ خالد اسے دیکھتا رہا ۔ اس نے اپنے وجود کے اندر لطیف سے جھٹکے محسوس کیے۔ اس کے گھوڑے نے کھرمارا تو خالد اپنے آپ میں آگیا۔ وہ بڑی تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوا اور چل پڑا کچھ دور آکر اس نے پیچھے دیکھا یوحاوہ رک کر اسے دیکھ رہی تھی ۔ یوحاوہ نے اپنا ہاتھ ذرا اوپر کرکے ہلادیا۔
######