Episode 35 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 35 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

یہ کہانی چند ماہ پہلے مکہ سے شروع ہوئی تھی ۔ یوحاوہ نے شرم و حجاب کے بغیر سب کو سنایا کہ وہ قریش کے تین نامور سالاروں…خالد، عکرمہ اور صفوان…کو اپنے حسن و جوانی کے طلسم میں الگ الگ گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ اس نے انہیں آپس میں ٹکرانے کی سوچی تھی لیکن ان میں کوئی بھی اس کے ہاتھ نہ آیا۔ اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ وہ تینوں کے دلوں میں اپنے سردار ابو سفیان کی نفرت پیدا کردے گی ۔
 
”…لیکن خالد پتھر ثابت ہوا “…یوحاوہ نے کہا …”اس نے مجھے دھتکارا نہیں لیکن وہ دلچسپی بھی ظاہر نہ کی جس کی مجھے توقع تھی ۔ میرا خیال ہے عکرمہ اور صفوان پر خالد کا ہی اثر ہے ۔ یہ تینوں جنگ و جدل کے دلدادہ ہیں۔ اس کے سوا کچھ سوچتے ہی نہیں “
یوحاوہ مایوس نہ ہوئی۔ اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

(جاری ہے)

خالد سے اس نے توجہ جلد ہٹالی کیونکہ اس کے دماغ میں یہی ایک سودا سمایا ہوا تھا کہ مسلمانوں کو میدان میں شکست دینی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان جنگ میں یا جنگی قیدی بنا کر قتل کرنا ہے ۔

 
ایک روز یوحاوہ مکہ سے چار میل دور ایک گاؤں میں گئی اور دن کے پچھلے پہر وہاں سے واپس چلی ۔ اس کے ساتھ دو لڑکیاں اور تین آدمی تھی ۔ وہ سب یہودی تھے اور وہ دو گھوڑوں والی گاڑی پر سوار تھے ۔ ابھی آدھا راستہ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ وہ صحرائی آندھی آگئی جو ریت کے ٹیلوں کو اڑا کر لے جاتی ہے ۔ ایک تو اس کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ تنومند آدمی بھی پاؤں جما کر کھڑا نہیں رہ سکتا۔
اگر جسم کا کوئی حصہ ننگا رہ جائے تو ریت اتنی زور سے ٹکراتی ہے کہ کھال اترتی محسوس ہوتی ہے ۔ اونٹ گھوڑے بے قابو ہوکر بھاگ اٹھتے ہیں۔ 
اچانک ریت کی ایک دیوار جو زمین سے آسمان تک پہنچی ہوئی تھی بڑی تیزی سے آئی اور ان یہودیوں کی گھوڑا گاڑی کو اس دیوار نے نگل لیا۔ فضا لال ہوگئی ریت کے تھپیڑے اتنی زور سے پڑنے لگے جیسے بحری طوفان میں موجیں اٹھ اٹھ کر کشتی میں پڑتی اور کشتی کو پٹختی ہیں۔
ٹیلے جڑوں سے اکھڑنے لگے۔ صحرائی آندھی میں رک کر کھڑے ہوجانا بہت ہی خطرناک ہوتا ہے ۔ ریت اس طرح جسم سے ٹکرا کر وہیں اکٹھی ہونے لگتی ہے جیسے کوئی بیلچے سے ریت پھینک رہا ہو۔ کچھ دیر بعد وہاں ریت کی اونچھی ڈھیری بن جاتی ہے اور اس میں ایک انسان دفن ہوتا ہے مگر وہ زندہ نہیں رہ سکتا ہے ۔ 
”آندھی ہمارے پہلو کی طرف سے آئی تھی ۔ “…یوحاوہ نے سنا یا …”گھوڑے ریت سے لدے ہوئے جھکڑ برداشت نہ کرسے اور بے لگام ہوگئے۔
انہوں نے اپنا رخ آندھی کے رخ کے مطابق کرلیا اور سرپٹ دوڑ پڑے۔ آگے چھوٹے بڑے گڑھے آگئے۔ گھوڑا گاڑی بری زورسے اچھلتی، ڈولتی اور بے لگام گھوڑوں کے رحم و کرم پر اڑی جارہی تھی۔ گاڑی کے اندر اس قدر ریت آرہی تھی کہ اپنا آپ بھی نظر نہیں آتا تھا …“
”ایک جگہ گاڑی کے ایک طرف کے پہیے گڑھے میں چلے گئے یا دوسری طرف کے پہیے اونچی جگہ چڑھ گئے گاڑی ایک طرف سے اتنی اوپر اٹھ گئی کہ اس کا پہلو کے بل گرنا یقینی تھا لیکن گاڑی نہ گری۔
اسے اتنا سخت جھٹکا لگا کہ میں جو اس طرف بیٹھی تھی لڑھک کر باہر جا پڑی۔ گاری آگے نکل گئی میں قلابازیاں کھاتی گئی۔ سنبھل کر اٹھی اور اپنے ساتھیوں کو پکارا مگر آندھی کے زناٹوں اور اس کی چیخوں میں اپنی آواز مجھے بھی مشکل سے سنائی دے رہی تھی۔ میرے ساتھ گاڑی میں جو بیٹھے تھے انہوں نے شاید مجھے گرتے نہیں دیکھا تھا۔ اگر دیکھا تو ان میں سے کسی نے اتنی ہمت نہ کی کہ میرے پیچھے کود آتا تاکہ میں تنہا نہ رہتی …“
”میں اتنی خوفزدہ کبھی نہیں ہوئی تھی اور میں ایسی خوفناک آندھی میں بھی کبھی نہیں پھنسی تھی۔
آندھی میں کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔ میرے نیچے کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ گھوڑے صحیح راستے سے ہٹ کر نہ جانے گاڑی کو کس طرف لے آئے تھے۔ میں چہرے پر کپڑا ڈالے آندھی کے رخ میں جارہی تھی پاؤں جمتے نہیں تھے ۔ “
###
یوحاوہ کو آندھی دھکیلتی لے جارہی تھی ۔ اچانک آندھی کی چیخیں بہت ہی بلند اور ڈراؤنی ہوگئیں۔ یوحاوہ پہلے نیچے گئی وہ گھاٹی تھی جو وہ آندھی کے زور پر اتر گئی ۔
پھر وہ ایک دیوار سے ٹکرائی ۔ یہ ریتلی مٹی کی دیوار تھی۔ یوحاوہ اس پر ہاتھ رکھ رکھ کر آگے چلتی گئی ۔ یہ نشیبی جگہ تھی جس میں مٹی کے ٹیلے اور ٹنڈمنڈ سے صحرائی درخت بھی تھے۔ یہاں آندھی کی چیخیں ایسی ہوگئی تھیں جیسے بہت سی عورتیں چیخ چلارہی ہوں۔ بعض چیخیں آندھی کی لگتی ہی نہیں تھی۔ یہ انسانوں کی بھی نہیں لگتی تھیں۔ یہ چڑیلوں یا درندوں کی معلوم ہوتی تھیں۔
 
یہ یہودی حسینہ جو اپنے آپ کو نڈر اور دلیر سمجھتی تھی خوف سے روپڑی۔ وہ جانتی تھی کہ آندھی تھم جائے گی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کسی کے ہاتھ چڑھ گئی تو وہ اسے اس کے گھر نہیں اپنے گھر لے جائے گا اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کوئی اسے خراب کرکے قتل کرجائے۔ رات آرہی تھی ۔ بھیڑیوں کا خطرہ الگ تھا ۔ کوئی اور خطرہ نہ ہوتا تو یہ خطرہ موجود تھا کہ وہ مکہ کے راستے سے بھٹک آئی ہے ۔
صحرا میں راستے کی تلاش ناممکن ہوتی ہے ۔ بھٹکے ہوئے مسافر کا انجام موت ہوتا ہے ۔ وہ تھکن سے نہیں پیاس سے مرتا ہے ۔ 
اسے اونٹ کے بڑبڑانے کی آواز آئی۔ اس کی دہشت زدگی بڑھ گئی لیکن اسے آندھی کی آواز سمجھ کر اس نے دل کو تسلی دے لی۔ اسے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا ۔ وہ مٹی کی دیوار پر ہاتھ رکھ رکھ کر جارہی تھی ۔ یہ دیوار بہت بڑا ٹیلہ تھا جو آگے جاکر گھوم گیا۔
اونٹ کی آواز ایک بار پھر سنائی دی ۔ اب یہ آواز بہت قریب سے آئی تھی ۔ اتنی قریب سے کہ یوحاوہ رک کر پیچھے ہٹ آئی۔ اب اسے شک نہ رہا۔ یہ اونٹ کی ہی آواز تھی ۔ 
اونٹ اکیلا نہیں ہوسکتا تھا۔دو تین آدمیوں کا وہاں ہونا ضروری تھا ۔ یہ آدمی اس کے ہمدرد تو نہیں ہوسکتے تھے ۔ وہ گناہ اور بدی کا دور تھا۔ یوحاوہ نے وہاں سے بھاگنے کا ارادہ کیا لیکن کس طرف؟کہاں؟وہاں کوئی پناہ نہیں تھی۔
آندھی ٹیلوں اور خشک درختوں کے درمیان سے گزر کر ہیبت ناک چیخیں پیدا کر رہی تھی۔ یوحاوہ کے پاؤں جیسے زمین نے جکڑ لیے تھے ۔ اسے اپنے ان آدمیوں پر غصہ آنے لگا جن کے ساتھ وہ گھوڑا گاڑی میں جارہی تھی ۔ انہیں اتنا بھی پتہ نہ چلا کہ وہ گاڑی سے گرگئی ہے ۔ 
###
کوئی طاقت تھی جو اسے دھکیل کر ایک طرف لے گئی۔ وہاں سے دیوار کی طرح سیدھا کھڑا ٹیلہ اندر کو چلا گیا تھا ۔
یہ بڑھی اچھی اوٹ تھی ۔ وہ آندھی کے تھپیڑوں سے محفوظ ہوگئی۔ وہاں تین چار گز دور تک وہ دیکھ بھی سکتی تھی۔ اسے اونٹ نظر نہیں آرہا تھا دیوار کیس اتھ ساتھ وہ اور اندر گئی تو ایک غار کا دہانہ دکھائی دیا لیکن اس نے اندر جانے کی جرات نہ کی وہ رک گئی ۔ 
”اندر آجاؤ “…اسے ایک آدمی کی آواز سنائی دی …”باہر کیوں کھڑے ہو بھائی اندر آجاؤ “
یوحاوہ کی بے اختیار چیخ نکل گئی اور وہ پیچھے کو دوڑی۔
جوں ہی وہ اس اوٹ سے باہر نکلی۔ آندھی نے اس پر اس طرح ریت پھینکی جیسے کسی نے بیلچے سے پھینکی ہو۔ یوحاوہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ ایک آدمی جو پیچھے سے آیا تھا ۔ اس کے سامنے آن کھڑا ہوا ۔ 
”اوہ…تم عورت ہو “…اس آدمی نے پوچھا …”اکیلی ہو؟تم اکیلی نہیں ہوسکتیں“
”میرے ساتھ چار آدمی ہیں۔ “…یوحاوہ نے اپنا چہرہ اوڑھنی میں چھپا کر کہا …”ان کے پاس گھوڑے ہیں ان کے پاس تلواریں اور برچھیاں ہیں “
”کہاں ہیں وہ؟“…اس آدمی نے کہا …”تم ان سے الگ ہوکر ادھر کیوں آئی تھیں؟…انہیں ادھر لے آؤ۔
بڑا اچھا غار ہے ہم سب آسانی سے اس میں بیٹھ سکیں گے “
یوحاوہ وہاں سے نہ ہلی۔ اس آدمی نے اسے تین بار کہا کہ وہ ان آدمیوں کو ساتھ لے آئے لیکن یوحاوہ کی زبان بند ہوگئی تھی ۔ اس آدمی نے جھپٹا مار کر یوحاوہ کی اوڑھنی کھینچ لی ۔ 
”تم اس یہودی کی بیٹی نہیں ہو ؟“…اس آدمی نے پوچھا اور یوحاوہ کے باپ کا نام لے کر بولا …تم اکیلی ہو 
”ہاں میں اکیلی ہوں“…یوحاوہ نے روتی ہوئی آواز میں کہا …”مجھ پر رحم کرو “
یوحاوہ نے اسے بتادیا کہ یہاں کس طرح پہنچی ہے ۔
 
”میرے ساتھ آؤ “…اس آدمی نے کہا اور یوحاوہ کا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے چلا ۔ 
”ذرا رکو“…یوحاوہ نے کہا …”تم کتنے آدمی ہو ؟…کیا تم مجھ پر رحم نہیں کرو گے ؟تم قبیلہ قریش کے آدمی ہو شاید “
”میں اکیلا ہوں “…آدمی نے کہا …”اور میرا قبیلہ قریش ہی ہے۔ میں تم پر رحم ہی کر رہا ہوں “
”میں نے تمہیں مکہ میں اکثر دیکھا ہے ۔ “…یوحاوہ نے کہا …”تمہارے نام سے میں واقف نہیں“
”میں جریدین مسیب ہوں…میرے ساتھ آؤ “
”پھر تم مجھے گھر تک پہنچادوگے؟“…یوحاوہ نے پوچھا …”میں تمہیں ناراض نہیں کروں گی “
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط