طائف بڑی خوبصورت بستی ہوا کرتی تھی ۔ یہ باغوں کی بستی تھی ۔ پھلوں اور پھولوں کی مہک سے ہوائیں مخمور رہتی تھی۔ طائف میں جاکر دکھی دل کھل اٹھتے تھے ۔ یہ جنگجو سرداروں کی بستی تھی ۔ یہ ثقیف جیسے طاقتور قبیلے کا مرکز تھا ۔ اس بستی کے قریب اس قبیلے کی عبادت گاہ تھی جس میں ثقیف، ہوازن اور چند اور قبائل کے دیوتا لات کا بت رکھا تھا جو بت نہیں ایک چبوترہ تھا۔
یہ قبائل اس چبوترے کو دیوتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے تھے ۔
اس عبادت گاہ میں ان کا کاہن رہتا تھا جسے خدا کا اور دیوتا لات کا ایلچی سمجھا جاتا تھا ۔ کاہن فال نکال کر لوگوں کو آنے والے خطروں سے آگاہ کرتا تھا ۔ کاہن کسی خوش نصیب کو ہی نظر آیا کرتا تھا ۔ عام لوگوں کو کاہن نہیں عبادت گاہ کے صرف مجاور ملا کرتے تھے ۔
(جاری ہے)
کاہن کو جو دیکھ لیتا وہ ایسے خوش ہوتا تھا جیسے اس نے خدا کو دیکھ لیا ہو ۔
طائف چونکہ ان کے دیوتا کا مسکن تھا اس لیے یہ قبائل کا مقدس مقام تھا۔
ایک ہی مہینہ پہلے طائف میں جشن کا سماں تھا۔ یہاں کے سردار اعلیٰ مالک بن عوف نے اپنے قبیلے جیسے ایک طاقتور قبیلے ہوازن اور کچھ اور قبیلوں کے سرداروں کو بہت بڑی ضیافت میں مدعو کیا تھا۔ علاقے کی چنی ہوئی خوبصورت ناچنے اور گانے والیاں بلائی گئی تھیں۔ ان کے رقص نے تماشائیوں پر وجد طاری کردیا تھا ۔
اس رات شراب کے مٹکے خالی ہورہے تھے ۔
اس رات اہل ثقیف اور اہل ہوازن نے عہد کیا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک حملہ کرکے رسول اکرم اور مکہ کے تمام مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے ۔ ان قبائل کے ایک ضعیف العمر سردار درید بن الصمہ نے کہا تھا کہ اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمد اور اس کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں ختم کرکے اپنی عورتوں کو منہ دکھائیں گے ۔
مالک بن عوف جس کی عمر ابھی تیس سال تھی جوش سے پھٹا جارہا تھا ۔ اس نے کہا تھا کہ قبائل کا متحدہ لشکر مکہ میں مسلمانوں کو بے خبری میں جادبوچے گا ۔
اس رات مالک بن عوف، درید بن الصمہ اور دوسرے قبیلوں کے سردار کاہن کے پاس گئے تھے۔ کاہن سے انہوں نے پوچھا تھا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کو بے خبری میں دبوچ سکیں گے اور کیا ان کا اچانک اور غیر متوقع حملہ مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھاسکے گا ؟
کاہن نے انہیں یقین دلایا تھا کہ دیوتا لات نے انہیں اشیر باد دی ہے ۔
کاہن نے بڑے وثوق سے کہا تھا …
’مسلمانوں کو اس وقت پتہ چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی اب ایک ہی ماہ بعد طائف کا حسن اداس تھا ۔ بستی کے ماحول پر خوف و ہراس طاری تھا۔ اپنے دیوتا لات کی اشیر باد سے اور کاہن کی یقین دہانی سے ثقیف، ہوزن اور دیگر قبیلوں کا جو لشکر مکہ پر حملہ کرنے گیا تھا وہ مکہ سے دور حنین کے مقام پر مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ کر اور تتر بتر ہوکر واپس آرہا تھا ۔
بھاگ کے آنے والوں میں پیش پیش اس متحدہ لشکر کا سالار اعلیٰ جواں سال اور جوشیلا سردار مالک بن عوف تھا۔ وہ سب سے پہلے اس لیے طائف پہنچا کہ شہر کے دفاع کو مضبوط بناسکے ۔ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں طائف کی طرف بڑھے آرہے تھے ۔ “
”طائف کے لوگو!“…طائف کی گلیوں میں گھبرائی گھبرائی سی آوزیں اٹھ رہی تھیں…مسلمان آرہے ہیں…شہر کا محاصرہ ہوگا …تیار ہوجاؤ…اناج اور کھجوریں اکٹھی کرلو۔
پانی جمع کرلو
سب سے زیادہ گھبراہٹ مالک بن عوف پر طاری تھی ۔ اسے طائف ہاتھ سے جاتا نظر آرہا تھا۔ اسے شکست اور پسپائی کی چوٹ تو پڑی ہی تھی سب سے بڑی چوٹ اس پر یہ پڑی کہ وہ جب شہر میں داخل ہوا تو عورتوں نے اس کی بہادری اور فتح کے گیت گانے کی بجائے اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھا تھا اور اس کے لشکریوں کو بعض عورتوں نے طعنے بھی دیے تھے ۔
”بیویاں اور بیٹیاں کہا ں ہیں جنہیں تم ساتھ لے گئے تھے ؟“…عورتیں لشکریوں سے طنزیہ لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔
”بچے بھی مسلمانوں کو دے آئے ہو ؟“…یہ بھی ایک طعنہ تھا جو عورتیں انہیں دے رہی تھیں۔
مالک بن عوف نے اپنے سامنے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں کو بٹھا رکھا تھا اور انہیں بڑی تیز تیز بولتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ دوسرے قبیلوں کو بھی شہر میں لے آؤ ، مسلمان آرہے ہیں…مالک بن عوف نے ذرا سا بھی آرام نہ کیا۔
آتے ہی طائف کا دفاع مضبوط کرنے میں لگ گیا۔ اس کے نائب کماندار اور قاصد پسپا ہوکر آنے والوں کو اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔
آدھی رات تک وہ تھک کر چور ہوچکا تھا ۔ اس نے اپنی سب سے زیادہ حسین اور چہیتی بیوی کو اپنے پاس بلایا۔وہ آگئی ۔
’کیا آپ نے حلف نہیں اٹھایا تھا کہ محمد اور اس کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے بت توڑ ڈالے ہیں ختم کرکے اپنی عورتوں کو منہ دکھائیں گے “…بیوی نے اسے کہا…”آپ فتح کی بجائے ماتھے پر شکست کا داغ لے کر آئے ہیں۔
آپ کے حلف اور عہد کے مطابق میرا وجود آپ پر حرام ہے “
”تم میری بیوی ہو “…مالک بن عوف نے غصے سے کہا …”میری حکم عدولی کی جرات نہ کرو۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میں بہت پریشان ہوں ۔ مجھے اس وقت تمہاری ضرورت ہے ۔ تم میری سب سے پیاری بیوی ہو “
”آپ کو میری ضرورت ہے “…بیوی نے کہا …”لیکن مجھے ایک غیرت مند مرد کی ضرورت ہے ۔ مجھے اس مالک بن عوف کی ضرورت ہے جو یہاں سے عہد کرکے نکلا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ کے اندر ہی ختم کرکے واپس آئے گا …کہاں ہے وہ مالک بن عوف؟…وہ میرے لیے مرگیا ہے ۔
اس مالک بن عوف کو میں نہیں جانتی جو اپنے قبیلے اور اپنے دوست قبیلوں کی ہزاروں عورتیں اور ہزاروں بچے اپنے دشمن کے حوالے کرکے اپنی خواب گاہ میں آبیٹھا ہے اور ایک عورت سے کہہ رہا ہے کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے “…اس حسین عورت کی آواز بلند ہوکر جذبات کی شدت سے کانپنے لگی۔ وہ مالک بن عوف کے پلنگ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی …”آج رات تمہاری کوئی بیوی تمہارے پاس نہیں آئے گی ۔
آج رات تمہاری کسی بیوی کو ان عورتوں کی آہیں اور فریادیں چین سے سونے نہیں دیں گے جو مسلمانوں کے قبضے میں ہیں…ذرا سوچ…تصور میں لا ان عورتوں کو ، ان نوخیز لڑکیوں کو جنہیں تو مسلمانوں کے حوالے کر آیا ہے “…وہ اب مسلمانوں کے بچے پیدا کریں گے ، بچے جو ان کے قبضے میں ہیں وہ مسلمان ہوجائیں گے ۔
مالک بن عوف تو خطروں میں کود جانے والا کودو سرا آدمی تھا۔
اس نے اپنے بزرگ اور میدان جنگ کے منجھے ہوئے استاد درید بن الصمہ کی اس پندو نصیحت کو ٹھکرادیا تھا کہ وہ عقل و ہوش سے کام لے اور جوانی کے جوش و خروش پر قابو پائے۔ اب وہی مالک بن عوف اپنی بیوی کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر کسی نے پانی چھڑک دیا ہو۔ اس کی مردانگی ختم ہوچکی تھی ۔
”تمام مسلمانوں کو ختم کرنے گئے تھے مالک!“…بیوی اب اس طرح بولنے لگی جیسے اس کی نگاہوں مین اتنے جری اور بہادر شوہر کا احترام ختم ہوچکا ہو۔
وہ کہہ رہی تھی …”مسلمانوں کو ختم کرتے کرتے تم مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرآئے ہو “
”کاہن نے کہا تھا کہ …“
”کون کاہن؟“…بیوی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا …”وہ جو مندر میں بیٹھا فالیں نکالتا رہتا ہے ۔ تم جیسے آدمی اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں بنایا اور بگاڑا کرتے ہیں ؟تم نے کاہن سے پوچھا نہیں کہ اس کی فال نے جھوٹ کیوں بولا ہے ؟“
مالک بن عوف اٹھ کھڑا ہوا ۔
اس کی سانسیں تیزی سی چلنے لگیں ۔اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا۔ اس نے دیوار کے ساتھ لٹکتی ہوئی تلوار اتاری اور بیوی سے کچھ کہے بغیر باہر نکل گیا۔
طائف میں رات تو آئی تھی لیکن وہاں کی سرگرمیاں اور بھاگ دوڑ دیکھ کر دن کا گماں ہوتا تھا۔ باہر سے خبریں آرہی تھین کہ مسلمان طائف کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے چلے آرہے ہیں لوگ دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور پانی کا تھا۔ بہت سے لوگ پانی جمع کرنے کے لیے حوض بنارہے تھے ۔
مالک بن عوف ان سرگرمیوں کے شوروغل سے گزرا چلا جارہا تھا۔ لوگ اتنے مصروف تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلا کہ ان کے درمیان سے ان کا سالار اعلیٰ گزر گیا ہے ۔
###