نعیم بن مسعود یہ کہہ کر چلے گئے …”میں اپنے سردار غطفان کو خبردار کرنے جارہا ہوں“ خالد اور عکرمہ آئے تو ابو سفیان نے انہیں بتایا کہ نعیم اسے کعب بن اسد کے متعلق کیا بتاگئے ہیں “
”غیروں کے سہارے لے کر لڑائیاں نہیں لڑی جاسکتیں ابو سفیان!“…خالد نے کہا …”آپ نے تو یہ سوچا ہی نہیں کہ بنو قریظہ مسلمانوں کے سائے میں بیٹھے ہیں۔
وہ زمین کے نیچے سے مسلمانوں پر وار کرسکتے ہین لیکن وہ ہیں تو مسلمانوں کے رحم و کرم پر ۔ اگر آپ لڑنے آئے ہیں تو جنگجوؤں کی طرح لڑیں۔“
”کیا یہ صحیح نہیں ہوگا کہ تم دونوں میں سے کوئی کعب بن اسد کے پاس جائے ؟“…ابو سفیان نے پوچھا ”ہوسکتا ہے کہ اس نے نعیم سے کہا ہو کہ وہ ہم سے یرغمال مانگے گا لیکن تم جاؤ تو وہ ایسی شرط پیش نہ کرے؟…کیا تمہیں نظر نہیں آرہا ہے کہ تمام کا تمام لشکر نیم فاقہ کشی کی حالت میں ہے ؟کیا یہ لشکر خندق عبور کرسکتا ہے ؟یہی ایک صورت ہے کہ کعب مدینے کے اندر مسلمانوں پر شب خون مارنے کا انتظام کردے “
”میں جاؤں گا “…عکرمہ نے کہا …”میں آپ کو یہ بھی بتادیتا ہوں کہ کعب بن اسد نے یرغمال کی شرط پیش کی تو میں ٓپ سے پوچھے بغیر معاہدہ مسنوخ کر آؤں گا “
”کیا میں بھی عکرمہ کے ساتھ چلا جاؤں ؟“…خالد نے ابو سفیان سے پوچھا ۔
(جاری ہے)
…”اس کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں“
”نہیں“…ابوسفیان نے کہا …”اگر خطرہ ہے تو میں دو سالار ضائع نہیں کرسکتا۔ عکرمہ اپنی حفاظت کے لیے جتنے لشکری ساتھ لے جانا چاہتا ہے لے جائے “
عکرمہ اسی وقت روانہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ چار لشکری تھے۔ اسے بڑی دور کا چکر کاٹ کر بنو قریظہ تک پہنچنا تھا ۔ وہ جمعہ کی رات اور تاریخ ۱۴مارچ ۶۲۷ء تھی جب عکرمہ خندق سے دور دور چلتا شیخین کے سلسلہ کوہ میں داخل ہوا اور کعب بن اسد کے گھر پہنچا۔
کعب کو معلوم تھا کہ عکرمہ کیوں آیا ہے ۔
”آؤ عکرمہ“…کعب بن اسد نے کہا …”میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو ۔ تمہارے آنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ میں نے دس دن کی مہلت مانگی تھی ۔ “
کعب بن اسد نے اپنے غلام کو آواز دی ۔ غلام آیا تو اس نے غلام سے شراب اور پیالے لانے کو کہا ۔
”پہلے میری بات سن لو کعب !“…عکرمہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا …”میں شراب پینے نہیں آیا ۔
مجھے بہت جلدی واپس جانا ہے ۔ ہم محاصرے کو اور زیادہ طول نہیں دے سکتے۔ ہم کل مدینے پر حملہ کر رہے ہیں تمہارے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق تم مدینے میں ان جگہوں پر جو ہم نے تمہیں بتائی ہیں کل سے حملے شروع کردو۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم نے ظاہری طور پر ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن درپردہ تم نے وہ معاہدہ قائم رکھا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ تم نے کیا ہے “
اتنے میں ایک نہایت حسین لڑکی شراب کی صراحی اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔
وہ عکرمہ کو دیکھ کر مسکرائی ۔ عکرمہ نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر اور زیادہ گہرا ہوگیا۔
”کعب!“…عکرمہ نے کہا …”تم نے اپنا مذہب اور اپنی زبان ان چیزوں کے عوض بیچ ڈالی ہے جنہوں نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا “
کعب بن اسد نے لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ چلی گئی ۔
”میرے عزیز عکرمہ!“…کعب نے کہا …”میں تمہارے چہرے پر رعونت کے آثار دیکھ رہا ہوں۔
صاف پتہ چلتا ہے کہ تم مجھے اپنا غلام سمجھ کر حکم دینے آئے ہو ۔ میں نے مسلمانوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا وہ بنو قریظہ کے تحفظ اور سلامتی کے لیے کیا تھا ۔ اور میں نے جو معاہدہ تمہارے ساتھ کیا ہے وہ تمہاری فتح اور مسلمانوں کی شکست کی خاطر کیا ہے ۔ مسلمانوں کو ختم کرنا میرے مذہب کا حکم ہے تمہارے ساتھ معاہدے نبھانا اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے ۔
اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے میں تمہیں استعمال کروں گاحیی بن اخطب سے میں نے کہہ دیا تھا کہ اہل قریش اور اہل غطفان مجھے بنو قریظہ کی سلامتی کی ضمانت دیں تاکہ ایسا نہ کہ تم لوگ ناکام ہوجاؤ اور مسلمان ہم سے ظالمانہ انتقام لیں۔ “
”نعیم بن مسعود نے جو چنگاری ان لوگوں کے درمیان پھینک دی تھی وہ عکرمہ کے سینے میں سلگ اٹھی۔ نعیم نے عکرمہ کے ذہن میں ابو سفیان کی معرفت پہلے ہی ڈال دیا تھا کہ کعب افراد کی صورت میں ضمانت مانگے گا ۔
کعب کی زبان سے ضمانت کا لفظ سنتے ہی عکرمہ بھڑک اٹھا،۔ “
”کیا تمیں ہم پر اعتبار نہیں ؟“…عکرمہ نے غصیلی آواز میں کہا …”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم شاید بھول گئے کہ محمد ہمارا اور تمہارا مشترکہ دشمن ہے ؟“
”میں یہ نہیں کہتا جو تم کہہ رہے ہو “…کعب بن اسد نے کہا …”لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اپنے مشترکہ دشمن کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جانتے۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو عقل خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے وہ ہم میں سے کسی کو نہیں دی …میں اس کی ضمانت چاہتا ہوں “
”کہو، تمہیں کیسی ضمانت چاہیے؟“…عکرمہ نے پوچھا ۔
”قبیلہ قریش اور غطفان کے چند ایک سرکردہ افراد ہمارے پاس بھیج دو“…کعب بن اسد نے کہا …”میں کوئی نئی بات نہیں کر رہا عکرمہ! یہ تمہارا دستور ہے ۔
اس رواج اور شرط سے تم واقف ہو ۔ میں نے ضمانت کے طور رپر یرغمال میں لینے والے آدمیوں کی تعداد نہیں بتائی، یہ تعداد تم خود مقرر کرلو۔ تم جانتے ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کروگے تو تمہارے ان سرکردہ افراد کو ہم قتل کردیں گے “
”انہیں تم قتل نہیں کروگے“…عکرمہ نے بھڑکی ہوئی آواز میں کہا …”تم انہیں مسلمانوں کے حوالے کردو گے “
”کیا کہہ رہے ہو عکرمہ؟“…کعب بن اسد نے حیرت اور پریشانی کے لہجے میں پوچھا۔
…”کیا تم مجھے اتنا خلیل سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یہ دھوکہ دوں گا کہ تمہارے قبیلوں کے سرداروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کراؤں گا؟مجھ پر اعتبار کرو “
”یہودی پر اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے سانپ پر اعتبار کرلیا ہو “…عکرمہ نے غصے کے عالم میں کہا …”اگر تم اپنے آپ کو اتنا ہی قابل اعتماد سمجھتے ہو تو کل مدینہ میں ان چھوٹے قلعوں پر حملے شروع کردو جہاں مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے “
”کل؟“…کعب نے کہا …”کل ہفتے کا دن ہے ہفتے کا دن یہودیوں کا ایک مقدس دن ہے جسے ہم سبت کہتے ہیں۔
اس روز عبادت کے سوا ہم اور کوئی کام نہیں کرتے۔ کوئی یہودی سبت کے دن کوئی کام یا کاروبار کرے یا کسی پر حملہ کرے تو خدائے یہود اسے انسان سے خنزیر یا بندر کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے “
عکرمہ دیکھ چکا تھا کہ کعب بن اسد کی نیت ٹھیک نہیں۔ وہ شراب پیتا چلا جارہا تھا عکرمہ نے شراب پینے سے انکار کردیا تھا ۔ اس نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ وہ فیصلہ کرکے وہی واپس آئے گا ۔
”تم کل حملہ کرویا ایک دن بعد کرو ہم تمہاری نیت کو عملی صورت میں دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ تمہیں یرغمال میں اپنے آدمی دیئے جائیں یا نہ دیے جائیں “…عکرمہ نے کہا …”اس سے پہلے ہم تمہیں ایک آدمی بھی نہیں دیں گے “
”میں کہہ چکا ہوں کہ یرغمال کے بغیر ہم کچھ نہیں کریں گے “…کعب بن اسد نے کہا …”جوں ہی تمہارے آدمی ہمارے پاس پہنچ جائیں گے ہم تمہاری منشا کے مطابق مدینہ کے اندر کھلبلی مچادیں گے ۔
تم دیکھنا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں کس طرح چھرا گھونپتے ہیں “
عکرمہ اٹھ کھڑا ہو ا اور غصے میں بولا …”تم بدطینت ہو ۔ تمہاری نیت صاف ہوتی تو تم کہتے کہ مجھے کسی ضمانت کی ضرورت نہیں،آؤ مل کر مسلمانوں کو مدینہ کے اندر ہمیشہ کے لیے ختم کردیں“
”مجھے اگر حکم ہی ماننا ہے تو میں محمد کا حکم کیوں نہ ما ن لوں “…کعب بن اسد نے عکرمہ کا غصہ دیکھتے ہوئے کہا …”ہم مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں ہمیں جو تحفظ ان سے مل سکتا ہے وہ تم نہیں دے سکو گے “
مورخ ابن ہشام اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ نعیم بن مسعود کا چھوڑا ہوا تیر نشانے پر لگا عکرمہ غصے کے عالم میں کعب بن اسد کے گھر سے نکل آیا۔
یہودیوں اور اہل قریش کا معاہدہ جو اگر برقرار رہتا تو مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جاتی۔ کعب کے گھر کے اندر ہی ٹوٹ گیا۔
###