Episode 30 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 30 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

نعیم بن مسعود یہ کہہ کر چلے گئے …”میں اپنے سردار غطفان کو خبردار کرنے جارہا ہوں“ خالد اور عکرمہ آئے تو ابو سفیان نے انہیں بتایا کہ نعیم اسے کعب بن اسد کے متعلق کیا بتاگئے ہیں “
”غیروں کے سہارے لے کر لڑائیاں نہیں لڑی جاسکتیں ابو سفیان!“…خالد نے کہا …”آپ نے تو یہ سوچا ہی نہیں کہ بنو قریظہ مسلمانوں کے سائے میں بیٹھے ہیں۔
وہ زمین کے نیچے سے مسلمانوں پر وار کرسکتے ہین لیکن وہ ہیں تو مسلمانوں کے رحم و کرم پر ۔ اگر آپ لڑنے آئے ہیں تو جنگجوؤں کی طرح لڑیں۔“
”کیا یہ صحیح نہیں ہوگا کہ تم دونوں میں سے کوئی کعب بن اسد کے پاس جائے ؟“…ابو سفیان نے پوچھا ”ہوسکتا ہے کہ اس نے نعیم سے کہا ہو کہ وہ ہم سے یرغمال مانگے گا لیکن تم جاؤ تو وہ ایسی شرط پیش نہ کرے؟…کیا تمہیں نظر نہیں آرہا ہے کہ تمام کا تمام لشکر نیم فاقہ کشی کی حالت میں ہے ؟کیا یہ لشکر خندق عبور کرسکتا ہے ؟یہی ایک صورت ہے کہ کعب مدینے کے اندر مسلمانوں پر شب خون مارنے کا انتظام کردے “
”میں جاؤں گا “…عکرمہ نے کہا …”میں آپ کو یہ بھی بتادیتا ہوں کہ کعب بن اسد نے یرغمال کی شرط پیش کی تو میں ٓپ سے پوچھے بغیر معاہدہ مسنوخ کر آؤں گا “
”کیا میں بھی عکرمہ کے ساتھ چلا جاؤں ؟“…خالد نے ابو سفیان سے پوچھا ۔

(جاری ہے)

…”اس کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں“
”نہیں“…ابوسفیان نے کہا …”اگر خطرہ ہے تو میں دو سالار ضائع نہیں کرسکتا۔ عکرمہ اپنی حفاظت کے لیے جتنے لشکری ساتھ لے جانا چاہتا ہے لے جائے “
عکرمہ اسی وقت روانہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ چار لشکری تھے۔ اسے بڑی دور کا چکر کاٹ کر بنو قریظہ تک پہنچنا تھا ۔ وہ جمعہ کی رات اور تاریخ ۱۴مارچ ۶۲۷ء تھی جب عکرمہ خندق سے دور دور چلتا شیخین کے سلسلہ کوہ میں داخل ہوا اور کعب بن اسد کے گھر پہنچا۔
کعب کو معلوم تھا کہ عکرمہ کیوں آیا ہے ۔ 
”آؤ عکرمہ“…کعب بن اسد نے کہا …”میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو ۔ تمہارے آنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ میں نے دس دن کی مہلت مانگی تھی ۔ “
کعب بن اسد نے اپنے غلام کو آواز دی ۔ غلام آیا تو اس نے غلام سے شراب اور پیالے لانے کو کہا ۔ 
”پہلے میری بات سن لو کعب !“…عکرمہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا …”میں شراب پینے نہیں آیا ۔
مجھے بہت جلدی واپس جانا ہے ۔ ہم محاصرے کو اور زیادہ طول نہیں دے سکتے۔ ہم کل مدینے پر حملہ کر رہے ہیں تمہارے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق تم مدینے میں ان جگہوں پر جو ہم نے تمہیں بتائی ہیں کل سے حملے شروع کردو۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم نے ظاہری طور پر ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن درپردہ تم نے وہ معاہدہ قائم رکھا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ تم نے کیا ہے “
اتنے میں ایک نہایت حسین لڑکی شراب کی صراحی اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔
وہ عکرمہ کو دیکھ کر مسکرائی ۔ عکرمہ نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر اور زیادہ گہرا ہوگیا۔ 
”کعب!“…عکرمہ نے کہا …”تم نے اپنا مذہب اور اپنی زبان ان چیزوں کے عوض بیچ ڈالی ہے جنہوں نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا “
کعب بن اسد نے لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ چلی گئی ۔ 
”میرے عزیز عکرمہ!“…کعب نے کہا …”میں تمہارے چہرے پر رعونت کے آثار دیکھ رہا ہوں۔
صاف پتہ چلتا ہے کہ تم مجھے اپنا غلام سمجھ کر حکم دینے آئے ہو ۔ میں نے مسلمانوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا وہ بنو قریظہ کے تحفظ اور سلامتی کے لیے کیا تھا ۔ اور میں نے جو معاہدہ تمہارے ساتھ کیا ہے وہ تمہاری فتح اور مسلمانوں کی شکست کی خاطر کیا ہے ۔ مسلمانوں کو ختم کرنا میرے مذہب کا حکم ہے تمہارے ساتھ معاہدے نبھانا اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے ۔
اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے میں تمہیں استعمال کروں گاحیی بن اخطب سے میں نے کہہ دیا تھا کہ اہل قریش اور اہل غطفان مجھے بنو قریظہ کی سلامتی کی ضمانت دیں تاکہ ایسا نہ کہ تم لوگ ناکام ہوجاؤ اور مسلمان ہم سے ظالمانہ انتقام لیں۔ “
”نعیم  بن مسعود نے جو چنگاری ان لوگوں کے درمیان پھینک دی تھی وہ عکرمہ کے سینے میں سلگ اٹھی۔ نعیم نے عکرمہ کے ذہن میں ابو سفیان کی معرفت پہلے ہی ڈال دیا تھا کہ کعب افراد کی صورت میں ضمانت مانگے گا ۔
کعب کی زبان سے ضمانت کا لفظ سنتے ہی عکرمہ بھڑک اٹھا،۔ “
”کیا تمیں ہم پر اعتبار نہیں ؟“…عکرمہ نے غصیلی آواز میں کہا …”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم شاید بھول گئے کہ محمد ہمارا اور تمہارا مشترکہ دشمن ہے ؟“
”میں یہ نہیں کہتا جو تم کہہ رہے ہو “…کعب بن اسد نے کہا …”لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اپنے مشترکہ دشمن کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جانتے۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو عقل خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے وہ ہم میں سے کسی کو نہیں دی …میں اس کی ضمانت چاہتا ہوں “
”کہو، تمہیں کیسی ضمانت چاہیے؟“…عکرمہ نے پوچھا ۔ 
”قبیلہ قریش اور غطفان کے چند ایک سرکردہ افراد ہمارے پاس بھیج دو“…کعب بن اسد نے کہا …”میں کوئی نئی بات نہیں کر رہا عکرمہ! یہ تمہارا دستور ہے ۔
اس رواج اور شرط سے تم واقف ہو ۔ میں نے ضمانت کے طور رپر یرغمال میں لینے والے آدمیوں کی تعداد نہیں بتائی، یہ تعداد تم خود مقرر کرلو۔ تم جانتے ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کروگے تو تمہارے ان سرکردہ افراد کو ہم قتل کردیں گے “
”انہیں تم قتل نہیں کروگے“…عکرمہ نے بھڑکی ہوئی آواز میں کہا …”تم انہیں مسلمانوں کے حوالے کردو گے “
”کیا کہہ رہے ہو عکرمہ؟“…کعب بن اسد نے حیرت اور پریشانی کے لہجے میں پوچھا۔
…”کیا تم مجھے اتنا خلیل سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یہ دھوکہ دوں گا کہ تمہارے قبیلوں کے سرداروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کراؤں گا؟مجھ پر اعتبار کرو “
”یہودی پر اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے سانپ پر اعتبار کرلیا ہو “…عکرمہ نے غصے کے عالم میں کہا …”اگر تم اپنے آپ کو اتنا ہی قابل اعتماد سمجھتے ہو تو کل مدینہ میں ان چھوٹے قلعوں پر حملے شروع کردو جہاں مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے “
”کل؟“…کعب نے کہا …”کل ہفتے کا دن ہے ہفتے کا دن یہودیوں کا ایک مقدس دن ہے جسے ہم سبت کہتے ہیں۔
اس روز عبادت کے سوا ہم اور کوئی کام نہیں کرتے۔ کوئی یہودی سبت کے دن کوئی کام یا کاروبار کرے یا کسی پر حملہ کرے تو خدائے یہود اسے انسان سے خنزیر یا بندر کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے “
عکرمہ دیکھ چکا تھا کہ کعب بن اسد کی نیت ٹھیک نہیں۔ وہ شراب پیتا چلا جارہا تھا عکرمہ نے شراب پینے سے انکار کردیا تھا ۔ اس نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ وہ فیصلہ کرکے وہی واپس آئے گا ۔
 
”تم کل حملہ کرویا ایک دن بعد کرو ہم تمہاری نیت کو عملی صورت میں دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ تمہیں یرغمال میں اپنے آدمی دیئے جائیں یا نہ دیے جائیں “…عکرمہ نے کہا …”اس سے پہلے ہم تمہیں ایک آدمی بھی نہیں دیں گے “
”میں کہہ چکا ہوں کہ یرغمال کے بغیر ہم کچھ نہیں کریں گے “…کعب بن اسد نے کہا …”جوں ہی تمہارے آدمی ہمارے پاس پہنچ جائیں گے ہم تمہاری منشا کے مطابق مدینہ کے اندر کھلبلی مچادیں گے ۔
تم دیکھنا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں کس طرح چھرا گھونپتے ہیں “
عکرمہ اٹھ کھڑا ہو ا اور غصے میں بولا …”تم بدطینت ہو ۔ تمہاری نیت صاف ہوتی تو تم کہتے کہ مجھے کسی ضمانت کی ضرورت نہیں،آؤ مل کر مسلمانوں کو مدینہ کے اندر ہمیشہ کے لیے ختم کردیں“
”مجھے اگر حکم ہی ماننا ہے تو میں محمد کا حکم کیوں نہ ما ن لوں “…کعب بن اسد نے عکرمہ کا غصہ دیکھتے ہوئے کہا …”ہم مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں ہمیں جو تحفظ ان سے مل سکتا ہے وہ تم نہیں دے سکو گے “
مورخ ابن ہشام اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ نعیم بن مسعود کا چھوڑا ہوا تیر نشانے پر لگا عکرمہ غصے کے عالم میں کعب بن اسد کے گھر سے نکل آیا۔
یہودیوں اور اہل قریش کا معاہدہ جو اگر برقرار رہتا تو مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جاتی۔ کعب کے گھر کے اندر ہی ٹوٹ گیا۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط