صبح طلوع ہوئی تو خالد نے درے سے نکل کر دیکھا۔ بیس سوار غائب تھے ۔ اسے اپنی ناکامی کا احساس ہونے لگا۔ اس کے ارادے اور اس کے جنگی منصوبے خاک میں ملتے نظر آئے ۔ اس نے سوچا کہ خود عسفان تک چلا جائے لیکن پہچانے جانے کے ڈر سے رکا رہا ۔ اس نے دو تین آدمی اونچی پہاڑیوں پر بھیج دیے کہ وہ ہر طرف نظر رکھیں۔
دن آدھا گزر گیا تھا اسے کوئی اطلاع نہ ملی۔
مسلمانوں کے ہر اول کے بیس سوار بھی نظر نہ آئے ۔ اسے توقع تھی کہ وہ آئیں گے ۔ دوپہر کے لگ بھگ اس کا ایک سوار گھوڑا سرپٹ دوڑتا اس کے پاس آرکا۔
”میرے ساتھ چلو “…سوار نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا …”جو میں نے دیکھا ہے تم بھی دیکھو “
”کیا دیکھا ہے تم نے ؟“
”گرد“…سوار نے کہا …”خدا کی قسم ، وہ گرد کسی قافلے کی نہیں ہوسکتی۔
(جاری ہے)
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ مسلمانوں کا لشکر ہو ۔ “
خالد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور مکہ کی سمت پہاڑی علاقے سے نکل گیا ۔ اسے زمین سے گرد کے بادل اٹھتے دکھائی دیے۔
”خدا کی قسم !“…خالد نے کہا …”قبیلہ قریش میں کوئی ایسا نہیں جو محمد جیسا دانشمند ہو۔ وہ میری گھات سے نکل گیا ہے “
مسلمان رسول اللہ کی قیادت میں کراع الغمیم کی دوسری طرف سے مکہ کی طرف نکل گئے تھے ۔
رات کو ان کے بیس سوار بھی دور کے راستے سے ان کے پیچھے گئے اور ان سے جاملے تھے ۔ خالد نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگائی۔ وہ کراغ الغمیم کے اندر چلاتا اور گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا پھر رہا تھا ۔
”باہر آجاؤ …مدینہ والے مکہ کو چلے گئے ہیں…تمام سوار سامنے آؤ “
تھوڑی سی دیر میں اس کے تین سو گھوڑ سوار اس کے پاس آگئے ۔
”وہ ہمیں دھوکہ دے گئے ہیں“…خلد نے اپنے سواروں سے کہا …”تم نہیں مانو گے وہ گزر گئے ہیں۔
گزرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے …ہمیں اب زندگی اور موت کی دوڑ لگانی پڑے گی ۔ سست ہوجاؤ گے تو وہ مکہ کا محاصرہ کرلیں گے ۔ وہ بازی جیت جائیں گے ۔ “
آج مدینہ کے راستے پر جب مدینہ قریب رہ گیا تھا۔ خالد کو یاد آرہا تھا کہ اسے مکہ پر مسلمانوں کے قبضے کا ڈر تو تھا لیکن وہ رسول کریم کی اس چال پر عش عش کر اٹھا تھا۔ وہ خود فن حرب و ضرب اور عسکری چالوں کا ماہر اور دلدادہ تھا ۔
وہ سمجھ گیا کہ رسول اللہ نے اپنے ہراول کے بیس سوار دھوکہ دینے کے لیے بھیجے تھے ۔ سواروں نے اسے کامیابی سے دھوکہ دیا۔ اس کی توجہ کو گرفتار کیے رکھا اور مسلمان دوسری طرف سے نکل گئے ۔
”یہ جادو نہیں “خالد نے اپنے آپ سے کہا …”اگر اپنے قبیلے کی سرداری مجھے مل جائے تو جادو کے یہ کرتب میں بھی دکھا سکتا ہوں “
یہ صحیح تھا کہ اس کے باپ نے اسے ایسی عسکری تعلیم و تربیت دی تھی کہ وہ میدان جنگ کا جادوگر کہلاسکتا تھا مگر اس کے اوپر ایک سردار تھا ، ابو سفیان۔
وہ قبیلے کا سالار اعلیٰ تھا اس کے ماتحت خالد اپنی کوئی چال نہیں چل سکتا تھا ۔ اپنی اس مجبوری نے اس کے دل میں ابو سفیان کی نفرت پیدا کردی تھی ۔
###
اسے چند دن پہلے کا یہ واقعہ یاد آرہا تھا ۔ ایک ہزار چار سو مسلمان اس کی گھات کو دھوکہ دے کر مکہ کی طرف نکل گئے تھے ۔ اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ تین سو سواروں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کردے ۔
اسے احساس تھا کہ جو مسلمان قلیل تعداد میں کثیر تعداد کے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں انہیں تین سو سواروں سے شکست نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ کثیر تعداد میں ہیں۔
اسے مکہ ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تھا اور اسے یہ خفت بھی محسوس ہونے لگی تھی کہ اس کی گھات کی ناکامی پر ابو سفیان اسے طعنہ دے گا اور ہنسی اڑائے گا پھر اسے قریش کی شکست اور مکہ کے سقوط کا مجرم کہا جائے گا ۔
اس نے اپنے سواروں کو ایک راستہ سمجھا کر کہا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچنا ہے ۔ یہ دور کا راستہ تھا لیکن وہ مسلمانوں کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس کے تین سو سواروں نے گھوڑوں کو ایڑیں لگادیں۔ راستہ لمبا ہونے کی وجہ سے تین میل کا فاصلہ ڈیڑھ گنا ہوگیا تھا جسے خالد رفتار سے کم کرنے کے جتن کر رہا تھا ۔
عربی نسل کے اعلیٰ گھوڑے شام سے بہت پہلے مکہ پہنچ گئے ۔
وہاں مسلمانوں کی ابھی ہوا بھی نہیں پہنچی تھی۔ مکہ کے لوگ گھوڑوں کے شوروغل پر گھروں سے نکل آئے۔ ابو سفیان بھی باہر آگیا ۔
”کیا تمہاری گھات کامیاب رہی ؟“…ابوسفیان نے پوچھا ۔
”وہ گھات میں آئے ہی نہیں “…خالد نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے کہا …”کیا تم مکہ کے ارد گرد ایسی خندق کھدواسکتے ہو جیسی محمد نے مدینہ کے ارد گرد کھدوائی تھی ؟“
”وہ کہاں ہیں ؟“…ابوسفیان نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا …”کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ مجھے ان کی کچھ خبر دو “
”جتنی دیر میں تم خبر سنتے اور سوچتے ہو ، اتنی دیر میں وہ مکہ کو محاصرے میں لے لیں گے “…خالد نے کہا …”ہبل اور عزیٰ کی عظمت کی قسم، وہ پہاڑوں اور چٹانوں کو روندتے آرہے ہیں۔
اگر وہ کراع الغمیم میں سے کسی اور راستے سے گزرے ہیں تو وہ انسان نہیں۔ کوئی پیادہ وہاں سے اتنی تیزی سے نہیں گزر سکتا جتنی تیزی سے وہ گزر آئے ہیں “
”خالد!“…ابوسفیان نے کہا …”ذرا ٹھنڈے ہوکر سوچو، خدا کی قسم گھبراہٹ سے تمہاری آواز کانپ رہی ہے“
”ابو سفیان!“…خالد نے جل کر کہا …”تم میں صرف یہ خوبی ہے کہ تم میرے قبیلے کے سردار ہو ۔
میں تمہیں یہ بتارہا ہوں کہ ان کے لیے مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینا کوئی مشکل نہیں “…خالد نے دیکھا کہ اس کے دو ساتھی سالار ، عکرمہ اور صفوان قریب کھڑے تھے ۔ خالد نے ان سے کہا …”آج بھول جاؤ کہ تمہارا سردار کون ہے ۔ صرف یہ یاد رکھو کہ مکہ پر طوفان آرہا ہے اپنی آن کو بچاؤ۔ یہاں کھڑے ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھو۔ اپنے شہر کو بچاؤ ۔ اپنے دیوتاؤں کو بچاؤ۔“
###