Episode 69 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 69 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

اسلام اب اس دور میں داخل ہوچکا تھا جب عرب کے ارد گرد کے ممالک اور ان سے بھی دور کے ممالک میں اسلام کے دشمن پیدا ہوگئے تھے ۔ اسلام جس تیزی سے پھیل رہا تھا اس سے عالم کفر پر لرزہ طاری ہوگیا تھا ۔ مسلمان ایک عظیم جنگی طاقت بن گئے تھے لیکن اسلام کا فروغ اس جنگی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اسلام میں ایسی کشش تھی کہ جو کوئی بھی اللہ کا یہ پیغام سنتا تھا وہ اسلام قبول کرلیتا تھا ۔
 
مسلمانوں نے اپنے جاسوس دور دور تک پھیلارکھے تھے ۔ ۶۳۰ء میں جاسوسوں نے مدینہ آکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ رومی شام میں فوج کا بہت بڑا اجتماع کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے اپنی فوج کے کچھ دستے اردن بھیج دیے ہیں۔

(جاری ہے)

 

اکتوبر ۶۳۰ء بڑا ہی گرم مہینہ تھا جھلسادینے والی لو ہر وقت چلتی تھی اور دن کے وقت دھوپ میں ذرا سی دیر ٹھہرنا بھی محال تھا۔
اس موسم میں رسول کریم نے حکم دیا کہ پیشتر اس کے کہ رومی ہم پر یلغار کریں ہم ان کے کوچ سے پہلے ہی ان کا راستہ روک لیں۔ 
رسول کریم نے اس حکم پر مدینے کے اسلام دشمن عناصر حرکت میں آگئے۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام قبول تو کرلیا تھا لیکن وہ اندر سے کافر تھے ۔ ان منافقین نے درپردہ ان مسلمانوں کو جو جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے تھے ورغلانا اور ڈرانا شروع کردیا کہ اس موسم میں انہوں نے کوچ کیا تو گرمی کی شدت اور پانی کی قلت سے وہ راستے میں ہی مرجائیں گے ۔
ان مخالفانہ سرگرمیوں میں یہودی پیش پیش تھے ۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے رسول اکرم کے حکم پر لبیک کہا ۔ رسول خدا نے تیاریوں میں زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ اکتوبر کے آخر میں جو فوج رسول خدا کی قیادت میں کوچ کے لیے تیار ہوئی اس کی تعداد تیس ہزار تھی جس میں دس ہزار سوار شامل تھے ۔ مجاہدین کے اس لشکر میں مدینہ کے علاوہ مکہ کے اور ان قبائل کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا تھا ۔
مجاہدین کا مقابلہ اس زمانے کے مشہور جنگجو باز نطینی شہنشاہ ہرقل کے ساتھ تھا ۔ 
مجاہدین اسلام کا یہ عظیم لشکر اکتوبر ۶۳۰ ء کے آخری ہفتے میں رسول کریم کی قیادت میں شام کی طرف کوچ کرگیا۔ تمازت آفتاب کا یہ عالم جیسے زمین شعلے اگل رہی تھی۔ ریت اتنی گرم کہ گھوڑوں اور اونٹوں کے پاؤں جلتے تھے ۔ اس سال قحط کی کیفیت بھی پیدا ہوگئی تھی اس لیے مجاہدین کے پاس خوراک کی کمی تھی ۔
مجاہدین اس جھلسادینے والی گرمی میں پانی نہیں پیتے تھے کہ معلوم نہیں آگے کتنی دور جاکر پانی ملے ۔ تھوری ہی دور جاکر مجاہدین کے ہونٹ خشک ہوگئے اور ان کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے لیکن ان کی زبان پر اللہ کا نام تھا اور وہ ایسے عزم سے سرشار تھے جس کا اجر خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا ۔ ایک لگن تھی، ایک جذبہ تھا کہ مجاہدین زمین و آسمان کے اگلے ہوئے شعلوں کا منہ چڑاتے چلے جارہے تھے ۔
 
تقریباً چودہ روز بعد یہ لشکر شام کی سرحد کے ساتھ قبول کے مقام پر پہنچ گیا ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اچھے اور خوشگوار موسم میں مدینہ سے تبوک کا سفر چودہ دنوں کا تھا جسے اس وقت کے مسافروں کی زبان میں چودہ منزل کہا جاتا تھا ۔ بعض مورخین نے چودہ منزل کو چودہ دن کہا ہے تبوک میں ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ رومیوں کے جو دستے اردن میں آئے تھے وہ اس وقت دمشق میں ہیں۔
 
###
رسول کریم نے لشکر کو تبوک میں خیمہ زن ہونے کا حکم دیا اور تمام سالاروں کوصلاح مشورے کے لیے طلب کیا۔ سب کو یہی توقع تھی کہ تبوک سے کوچ کا حکم ملے گا اور دمشق میں یادمشق سے کچھ ادھر رومیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہوگا ۔ رسول کریم نے اپنے اصول کے مطابق سب سے مشورے طلب کیے۔ ہر سالار نے یہ ذہن میں رکھ کر کہ رومیوں سے جنگ ہوگی ، مشورے دیے لیکن رسول کریم نے یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ تبوک سے آگے کوچ نہیں ہوگا ۔
 
مورخین لکھتے ہیں کہ رسولخدا کے اس فیصلے میں کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا بہت بڑی جنگی دانش تھی ۔ آپ نے مدینہ میں ہی کہہ دیا تھا کہ رومیوں کا راستہ روکا جائے گا ۔ آپ مستقر سے اتنی دور اتنی شدید گرمی میں نہیں لڑنا چاہتے تھے۔ اس کی بجائے آپ ہرقل کو اشتعال دلارہے تھے کہ وہ اپنے مستقر سے دور تبوک میں آکر لڑے۔ مجاہدین لڑنے کے لیے گئے تھے ان کے دلوں میں کوئی وہم اور کوئی خوف نہیں تھا لیکن جنگ میں ایک خاص قسم کی عقل و دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔
رسول کریم نے عقل و دانش کو استعمال کیا اور مدینے کی طرف رومیوں کا راستہ روکنے کا یہ اہتمام کیا کہ اس علاقے میں جو قبائل رومیوں کے زیر اثر تھے انہیں اپنے اثر میں لانے کی مہمات تیار کیں۔ ان میں چار مقامات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جہاں ان مہمات کو بھیجا جانا تھا ۔ ان میں ایک تو عقبہ تھا جو اس دور میں ایلہ کہلاتا تھا ۔ دوسرا مقام مقننہ، تیسرا ذرج اور چوتھا جربہ تھا۔
 
رسول کریم نے ان تمام قبائل کے ساتھ جنگ کرنے کی بجائے دوستی کے معاہدے کی شرائط بھیجیں جن میں ایک یہ تھی کہ ان قبائل کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے انہیں ان کے مرضی کے خلاف جنگ میں نہیں لے جایا جائے گا دوسری شرط یہ تھی کہ ان پر کوئی بھی حملہ کرے گا تو مسلمان ان کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھیں گے ۔ اس کے بدلے میں اسلامی حکومت ان سے جزیہ وصول کرے گی ۔
 
سب سے پہلے ایلہ کے فرمانروا یوحنا نے خود آکر رسول کریم کی دوستی کی پیش کش قبول کی اور جزیہ کی باقاعدہ ادائیگی کی شرط بھی قبول کرلی۔ اس کے فوراً بعد دو اور طاقتور قبیلوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرلیا اور جزیہ کی شرط بھی مان لی ۔ 
الجوف ایک مقام ہے جو اس دور میں دومتہ الجندل کہلاتا تھا ۔ یہ بڑے ہی خوفناک صحرا میں واقع تھا اس زمانے کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس مقام کے ارد گرد ایسے ریتلے ٹیلے اور نشیب تھے کہ انہیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔
دومتہ الجندل کا حکمران اکیدر بن مالک تھا چونکہ اس کی بادشاہی انتہائی دشوار گزار علاقے میں تھی اس لیے وہ اپنے علاقے کو ناقابل تسخیر سمجھتا تھا ۔ رسول کریم نے جو وفد اکیدر بن مالک کے پاس بھیجا تھا وہ یہ جواب لے کر آئے کہ اکیدر نے نہ دوستی قبول کی ہے نہ وہ جزیہ دینے پر آمادہ ہوا ہے ۔ بلکہ اس نے اعلانیہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اور وہ اسلام کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا 
رسول کریم نے خالد بن ولید کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ چار سو گھوڑ سوار اپنے ساتھ لیں اور اکیدر بن مالک کو زندہ پکڑ لائیں۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط