اسلام اب اس دور میں داخل ہوچکا تھا جب عرب کے ارد گرد کے ممالک اور ان سے بھی دور کے ممالک میں اسلام کے دشمن پیدا ہوگئے تھے ۔ اسلام جس تیزی سے پھیل رہا تھا اس سے عالم کفر پر لرزہ طاری ہوگیا تھا ۔ مسلمان ایک عظیم جنگی طاقت بن گئے تھے لیکن اسلام کا فروغ اس جنگی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اسلام میں ایسی کشش تھی کہ جو کوئی بھی اللہ کا یہ پیغام سنتا تھا وہ اسلام قبول کرلیتا تھا ۔
مسلمانوں نے اپنے جاسوس دور دور تک پھیلارکھے تھے ۔ ۶۳۰ء میں جاسوسوں نے مدینہ آکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ رومی شام میں فوج کا بہت بڑا اجتماع کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے اپنی فوج کے کچھ دستے اردن بھیج دیے ہیں۔
(جاری ہے)
اکتوبر ۶۳۰ء بڑا ہی گرم مہینہ تھا جھلسادینے والی لو ہر وقت چلتی تھی اور دن کے وقت دھوپ میں ذرا سی دیر ٹھہرنا بھی محال تھا۔
اس موسم میں رسول کریم نے حکم دیا کہ پیشتر اس کے کہ رومی ہم پر یلغار کریں ہم ان کے کوچ سے پہلے ہی ان کا راستہ روک لیں۔
رسول کریم نے اس حکم پر مدینے کے اسلام دشمن عناصر حرکت میں آگئے۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام قبول تو کرلیا تھا لیکن وہ اندر سے کافر تھے ۔ ان منافقین نے درپردہ ان مسلمانوں کو جو جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے تھے ورغلانا اور ڈرانا شروع کردیا کہ اس موسم میں انہوں نے کوچ کیا تو گرمی کی شدت اور پانی کی قلت سے وہ راستے میں ہی مرجائیں گے ۔
ان مخالفانہ سرگرمیوں میں یہودی پیش پیش تھے ۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے رسول اکرم کے حکم پر لبیک کہا ۔ رسول خدا نے تیاریوں میں زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ اکتوبر کے آخر میں جو فوج رسول خدا کی قیادت میں کوچ کے لیے تیار ہوئی اس کی تعداد تیس ہزار تھی جس میں دس ہزار سوار شامل تھے ۔ مجاہدین کے اس لشکر میں مدینہ کے علاوہ مکہ کے اور ان قبائل کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا تھا ۔
مجاہدین کا مقابلہ اس زمانے کے مشہور جنگجو باز نطینی شہنشاہ ہرقل کے ساتھ تھا ۔
مجاہدین اسلام کا یہ عظیم لشکر اکتوبر ۶۳۰ ء کے آخری ہفتے میں رسول کریم کی قیادت میں شام کی طرف کوچ کرگیا۔ تمازت آفتاب کا یہ عالم جیسے زمین شعلے اگل رہی تھی۔ ریت اتنی گرم کہ گھوڑوں اور اونٹوں کے پاؤں جلتے تھے ۔ اس سال قحط کی کیفیت بھی پیدا ہوگئی تھی اس لیے مجاہدین کے پاس خوراک کی کمی تھی ۔
مجاہدین اس جھلسادینے والی گرمی میں پانی نہیں پیتے تھے کہ معلوم نہیں آگے کتنی دور جاکر پانی ملے ۔ تھوری ہی دور جاکر مجاہدین کے ہونٹ خشک ہوگئے اور ان کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے لیکن ان کی زبان پر اللہ کا نام تھا اور وہ ایسے عزم سے سرشار تھے جس کا اجر خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا ۔ ایک لگن تھی، ایک جذبہ تھا کہ مجاہدین زمین و آسمان کے اگلے ہوئے شعلوں کا منہ چڑاتے چلے جارہے تھے ۔
تقریباً چودہ روز بعد یہ لشکر شام کی سرحد کے ساتھ قبول کے مقام پر پہنچ گیا ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اچھے اور خوشگوار موسم میں مدینہ سے تبوک کا سفر چودہ دنوں کا تھا جسے اس وقت کے مسافروں کی زبان میں چودہ منزل کہا جاتا تھا ۔ بعض مورخین نے چودہ منزل کو چودہ دن کہا ہے تبوک میں ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ رومیوں کے جو دستے اردن میں آئے تھے وہ اس وقت دمشق میں ہیں۔
###
رسول کریم نے لشکر کو تبوک میں خیمہ زن ہونے کا حکم دیا اور تمام سالاروں کوصلاح مشورے کے لیے طلب کیا۔ سب کو یہی توقع تھی کہ تبوک سے کوچ کا حکم ملے گا اور دمشق میں یادمشق سے کچھ ادھر رومیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہوگا ۔ رسول کریم نے اپنے اصول کے مطابق سب سے مشورے طلب کیے۔ ہر سالار نے یہ ذہن میں رکھ کر کہ رومیوں سے جنگ ہوگی ، مشورے دیے لیکن رسول کریم نے یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ تبوک سے آگے کوچ نہیں ہوگا ۔
مورخین لکھتے ہیں کہ رسولخدا کے اس فیصلے میں کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا بہت بڑی جنگی دانش تھی ۔ آپ نے مدینہ میں ہی کہہ دیا تھا کہ رومیوں کا راستہ روکا جائے گا ۔ آپ مستقر سے اتنی دور اتنی شدید گرمی میں نہیں لڑنا چاہتے تھے۔ اس کی بجائے آپ ہرقل کو اشتعال دلارہے تھے کہ وہ اپنے مستقر سے دور تبوک میں آکر لڑے۔ مجاہدین لڑنے کے لیے گئے تھے ان کے دلوں میں کوئی وہم اور کوئی خوف نہیں تھا لیکن جنگ میں ایک خاص قسم کی عقل و دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔
رسول کریم نے عقل و دانش کو استعمال کیا اور مدینے کی طرف رومیوں کا راستہ روکنے کا یہ اہتمام کیا کہ اس علاقے میں جو قبائل رومیوں کے زیر اثر تھے انہیں اپنے اثر میں لانے کی مہمات تیار کیں۔ ان میں چار مقامات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جہاں ان مہمات کو بھیجا جانا تھا ۔ ان میں ایک تو عقبہ تھا جو اس دور میں ایلہ کہلاتا تھا ۔ دوسرا مقام مقننہ، تیسرا ذرج اور چوتھا جربہ تھا۔
رسول کریم نے ان تمام قبائل کے ساتھ جنگ کرنے کی بجائے دوستی کے معاہدے کی شرائط بھیجیں جن میں ایک یہ تھی کہ ان قبائل کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے انہیں ان کے مرضی کے خلاف جنگ میں نہیں لے جایا جائے گا دوسری شرط یہ تھی کہ ان پر کوئی بھی حملہ کرے گا تو مسلمان ان کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھیں گے ۔ اس کے بدلے میں اسلامی حکومت ان سے جزیہ وصول کرے گی ۔
سب سے پہلے ایلہ کے فرمانروا یوحنا نے خود آکر رسول کریم کی دوستی کی پیش کش قبول کی اور جزیہ کی باقاعدہ ادائیگی کی شرط بھی قبول کرلی۔ اس کے فوراً بعد دو اور طاقتور قبیلوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرلیا اور جزیہ کی شرط بھی مان لی ۔
الجوف ایک مقام ہے جو اس دور میں دومتہ الجندل کہلاتا تھا ۔ یہ بڑے ہی خوفناک صحرا میں واقع تھا اس زمانے کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس مقام کے ارد گرد ایسے ریتلے ٹیلے اور نشیب تھے کہ انہیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔
دومتہ الجندل کا حکمران اکیدر بن مالک تھا چونکہ اس کی بادشاہی انتہائی دشوار گزار علاقے میں تھی اس لیے وہ اپنے علاقے کو ناقابل تسخیر سمجھتا تھا ۔ رسول کریم نے جو وفد اکیدر بن مالک کے پاس بھیجا تھا وہ یہ جواب لے کر آئے کہ اکیدر نے نہ دوستی قبول کی ہے نہ وہ جزیہ دینے پر آمادہ ہوا ہے ۔ بلکہ اس نے اعلانیہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اور وہ اسلام کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا
رسول کریم نے خالد بن ولید کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ چار سو گھوڑ سوار اپنے ساتھ لیں اور اکیدر بن مالک کو زندہ پکڑ لائیں۔
###