گھوڑا جو سرپٹ دوڑتا آرہا تھا لیلیٰ کے قریب آرکا اور سوار گھوڑے سے کود آیا …”وہ خالد تھے ۔ لیلیٰ انہیں اکیلا دیکھ کر گھبرائی۔ سالار کے اکیلے آنے کا مطلب یہی ہوسکتا تھا کہ اس کی سپاہ تتر بتر ہوگئی ہے “
”میدان جنگ کی کیا خبر ہے ؟“…لیلیٰ نے پوچھا…”آپ اکیلے کیوں آئے ہیں ؟“
”خدا کی قسم میں نے بنو حنفی کو کاٹ دیا ہے “…خالد نے جوشیلی آواز میں کہا …”مسلیمہ کذاب مارا گیا ہے …اور وہ قیدی کہاں ہے ؟“
لیلیٰ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سکون کی آہ بھر کر بولی …”مجاعہ کہتا ہے کہ بنو حنفیہ ناقابل تسخیر ہیں “
”میں پوچھتا ہوں وہ کہاں ہے ؟“…خالد نے ہانپتی ہوئی آواز میں پوچھا …”کیا وہ اسے چھڑا کر لے گئے ہیں “
”میں یہیں ہوں ولید کے بیٹے !“…خیمے کے اندر سے مجاعہ کی آواز آئی …”میں تیری اس بات کو سچ نہیں مانوں گا کہ مسلیمہ مارا گیا ہے “
”میرے ساتھ چل مجاعہ!“…خالد نے خیمے کے اندر جاکر کہا …”ہوسکتا ہے تیری بات سچ ہو۔
(جاری ہے)
میں مسلیمہ کو نہیں پہچانتا۔ تیرا قبیلہ یہ شور مچاتا بھاگ گیا ہے کہ مسلیمہ مارا گیا ہے ۔ میرے ساتھ آ اور لاشوں میں اس کی لاش دیکھ کر بتا کہ یہ ہے اس کی لاش “
”پھر کیا ہوگا ؟“…مجاعہ نے پوچھا …”مجھے آزاد کردوگے؟“
”خدا کی قسم !“…خالد نے کہا …”میں اس قبیلے کے ایک سردار کو آزاد نہیں کروں گا جو میرے دین کا دشمن ہے ۔ رسالت میں شرکت کا دعویٰ کرنے والے اور اس دعوے کو ماننے والوں کو میں کیسے بخش دوں …اللہ کے سوا تجھے کوئی نہیں بخش سکتا “
”او ولید کے بیٹے !“…مجاعہ بن مرارہ نے کہا …”میں نے اسے کب نبی مانا تھا وہ چرب زبانی اور شعبدہ بازیوں سے نبی بن گیا تھا اور تو نے دیکھ لیا ہے کہ کتنا بڑا لشکر اس کا مرید ہوگیا تھا اگر میں اسے نبی نہ مانتا تو وہ میرے سارے خاندان کو زندہ جلادیتا اور یہ وجہ بھی تھی کہ میں اپنے قبیلے سے اپنے آپ کو کاٹ نہیں سکتا تھا ۔
اگر تو میرے قتل کا حکم دے گا تو یہ ایک بے گناہ کا قتل ہوگا “
”اس نے مجھے اپنے ان لوگوں سے بچایا ہے جو ہماری خیمہ گاہ کو لوٹنے اور تباہ و برباد کرنے آئے تھے “…لیلیٰ نے خالد سے کہا …”اس نے انہیں کہا تھا کہ عورتوں کے پیچھے مت پڑو، پہلے آدمیوں کے پیچھے جاؤ …وہ چلے گئے ۔ اس نے انہیں یہ بھی نہ کہا کہ وہ اس کی بیڑیاں کھول دیں “
”تو نے اس عورت پر رحم کیوں کیا ہے مجاعہ؟“…خالد نے پوچھا ۔
ْ
”کیونکہ اس نے مجھے قید میں بھی وہی عزت دی ہے جو مجھے اپنے قبیلے میں ملا کرتی ہے “…مجاعہ نے کہا …”میں نے اسے اس سلوک کا صلہ دیا ہے جو اس نے میرے ساتھ کیا …کیا میں ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے آدمیوں سے کہتا کہ میری بیڑیاں کاٹ دیں ، پھر میں تیری اتنی حسین بیوی کو اپنی لونڈی بنالیتا؟“
”بے شک تو عزت کے لائق ہے مجاعہ!“…خالد نے کہا …”میں تیری بیڑیاں اپنے ہاتھوں کاٹتا ہوں ۔
پھر میرے ساتھ چلنا اور بتانا کہ مسلیمہ کی لاش کون سی ہے “
###
مجاعہ بن مرارہ خالد کے ساتھ خیمے سے نکلا تو اس کے پاؤں میں بیڑیاں نہیں تھیں۔ باہر خالد کے دو محافظ کھڑے تھے خالد اکیلے ادھر آئے تھے ان کے محافظ دستے کو پتہ چلا کہ سپہ سالار کسی اور طرف نکل گئے ہیں تو دو محافظ ان کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھر کر ان کے خیمے تک جاپہنچے۔
وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔
مجاعہ نے اپنی آنکھوں میدان جنگ کی حالت دیکھی۔ اسے اپنے قبیلے کی لاشوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔
”مجھے یقین نہیں آرہا “…مجاعہ نے کہا …”دیکھ کر بھی یقین نہیں آرہا …کیا اتنے تھوڑے مسلمان اتنے بڑے لشکر کو شکست دے سکتے ہیں ؟“
”یہ فتح انسانوں نے نہیں پائی “…خالد نے کہا …”یہ سچے عقیدے اور اللہ کے سچے رسول کی فتح ہے ۔
بنو حنفیہ باطل عقیدے کے لیے میدان میں اترے تھے ۔ ہماری تلواروں نے اس عقیدے کو کاٹ دیا اور اتنا بڑا لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ۔ “
وہ لاشوں اور تڑپتے زخمیوں میں سے گزرتے باغ تک چلے گئے۔ اندر گئے تو وہاں لاشوں پر لاشیں پڑی تھیں۔ مسلمان لاشوں کے ہتھیار اکٹھے کر رہے تھے ۔ بنو حنفیہ میں سے جو زندہ تھے ۔ وہ ادھر ادھر بھاگ گئے تھے ۔
خالد نے وحشی بن حرب کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس شخص کی لاش کہاں ہے جسے اس نے مسلیمہ سمجھ کر ہلاک کیا ہے ۔ وحشی خالد رضی اللہ عنہ کو وہاں لے گیا جہاں مسلیمہ کی لاش پڑی تھی ۔ اس نے لاش کی طرف اشارہ کیا ۔
”نہیں“…خالد نے کہا …”یہ ٹھگنا اور بدصورت آدمی مسلیمہ نہیں ہوسکتا اس کے چہرے پر کراہیت ہے “
”یہی ہے “…مجاعہ نے کہا …”یہ مسلیمہ کی لاش ہے “
”یہ اس شخص کی لاش ہے جس نے ہزاروں لوگوں کو گمراہ کیا تھا “…خالد نے کہا …”یہ شخص ایک فتنہ تھا ۔
“
”ابن ولید!“…مجاعہ نے خالد سے کہا…”فتح پر خوش نہ ہو۔ تیرے لیے اصل مقابلہ تو ابھی باقی ہے “
”کس کے ساتھ ؟“
”بنو حنفیہ کے ساتھ “…مجاعہ نے جواب دیا …”یہ تو وہ لشکر تھا جو میدان میں آکر لڑ رہا تھا ۔ یہ تو چھوٹا سا ایک حصہ تھا۔ اس سے بھی بڑا لشکر یمامہ میں قلعے کے اندر تیار کھڑا ہے ۔ اپنے جانی نقصان کو دیکھ اور سوچ کہ تیری یہ سپاہ جو بہت کم ہوگئی ہے اتنے بڑے تازہ دم لشکر کا مقابلہ کرسکے گی ؟تیرے سپاہی تھک کر چور ہوچکے ہیں “
خالد نے لاشوں سے اٹے ہوئے باغ میں نگاہ دوڑائی ۔
ان کا لشکر واقعی لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا ۔ جانی نقصان برداشت کے قابل نہیں تھا۔ زخمیوں کی تعداد بھی زیادہ تھی ۔ باقی لشکر کی جسمانی کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ اللہ کے سپاہی اتنے تھک گئے تھے کہ جہاں جگہ دیکھتے وہاں لیٹ جاتے اور سوجاتے تھے ۔ وہ اپنے سے تین گنا زیادہ لشکر سے لڑے تھے۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی۔
”اگر تو میری ایک تجویز مان لے تو میں قلعے میں جاکر صلح کی بات کرتا ہوں “…مجاعہ نے کہا …”میرا قبیلہ میری بات مان لے گا “
خالد بڑے قابل سپہ سالار تھے ۔
جنگی قیادت میں اپنی مثال آپ تھے ۔ رسول اللہ کے سچے عاشق تھے لیکن خود سر تھے اور زندہ دل بھی ۔ وہ دشمن کو صرف شکست دے کر اسے فتح نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی فتح کو اس وقت مکمل سمجھتے جب بھاگتے ہوئے دشمن کا تعاقب کرکے اس کی بستیوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے تھے ۔ انکا اصول تھا کہ دشمن کو سانپ سمجھو اور اس کا سر کچل کر بھی دیکھو کہ اس میں ذرا سی بھی حرکت باقی نہ رہ جائے ۔
خود سری کو خالد رضی اللہ عنہ خوبی سمجھتے تھے۔ ان میں ڈسپلن بڑا ہی سخت تھا۔ اس کے باوجود جہاں صورت حال پچیدہ ہوجاتی، خالد رضی اللہ عنہ اپنے نائب سالاروں سے مشورے اور تجاوز لیتے تھے۔ اب مجاعہ بن مرارہ نے صلح کی بات کی توخالد نے یہ جانتے ہوئے کہ دشمن پسپا ہوچکا ہے اس حقیت کو بھی سامنے رکھا کہ ان کے مجاہدین لڑنے کے قابل نہیں رہے ۔
خالد نے اپنے نائب سالاروں کو بلایا اور بتایا کہ بنو حنفیہ کا ایک سردار مجاعہ بن مرارہ صلح کی پیش کش کر رہا ہے ۔
”اصل فتنہ تو ختم ہوچکا ہے “…عبداللہ بن عمر نے کہا …”مسلیمہ کذاب کے مرجانے سے بنو حنفیہ کا دم ختم ٹوٹ چکا ہے ۔ میں تو یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ یمامہ کا محاصرہ فورا کرلیا جائے اور دشمن کو سستانے کی مہلت نہ دی جائے “
”صرف یمامہ نہیں “…عبدالرحمن بن ابی بکر نے کہا …”بنو حنفیہ میدان جنگ سے بھاگ کر ایسی جگہوں میں چھپ گئے ہیں جو چھوٹے چھوٹے قلعے ہیں۔
پہلے انہیں پکڑنا ضروری ہے ۔ اس کے بعد صلح کی بات ہوسکتی ہے “
”صلح کی شرائط ہماری ہوں گی “…عبداللہ بن عمر نے کہا ۔
”کیا تمہاری نظر اپنے لشکر کی جسمانی حالت پر بھی ہے ؟“…خالد نے کہا …”ابھی شہیدوں اور زخمیوں کی گنتی ہورہی ہے ۔ خدا کی قسم، کسی جنگ نے ہمارا اتنا خون نہیں پیا جتنا یہ جنگ پی گئی ہے اور شاید ہمیں اور بھی خون دینا پڑے گا …کیا تم بہتر سمجھو گے کہ دشمن کے جو آدمی ادھر ادھر چھپ گئے ہیں انہیں پکڑا جائے تاکہ یہ یمامہ کے قلعے میں جاکر ہمارے مقابلے میں نہ آسکیں “
”ہم یقینا اسی کو بہتر سمجھتے ہیں “…عبدالرحمن نے کہا …”اگر ہم انہیں پکڑلیں تو صلح کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟“
”مجاعہ نے بتایا ہے کہ ان کے جس لشکر سے ہم لڑچکے ہیں اس سے کچھ زیادہ لشکر یمامہ کے اندر موجود ہے“…خالد نے کہا…”تم میری اس رائے کو صحیح مانو گے کہ ہماری سپاہ لڑنے کے قابل نہیں۔
تم دیکھ رہے ہو کہ ہمارے مجاہدین تھکن سے بے حال ہوکر جہاں بیٹھتے ہیں وہاں سو جاتے ہیں۔ ہمارے لیے کمک بھی نہیں۔ اگر کمک منگوائی بھی جاے تو بہت دن لگ جائیں گے اتنے دنوں میں دشمن منظم ہوجائتے گا اور اس پر ہماری جو دہشت غالب آئی ہوئی ہے وہ اتر جائے گی “
”ابن ولید!“…عبداللہ نے کہا…”تم نے خود بھی تو کچھ سوچا ہوگا “
”ہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ“…خالد نے جواب دیا …”میں نے سوچا ہے کہ ادھر ادھر بکھرے ہوئے دشمن کو پکڑا جائے پھر یمامہ کا محاصرہ کرلیا جائے اور اس دوران مجاعہ یمامہ میں جاکر اپنے سرداروں کے ساتھ صلح کی بات کرے ۔
صلح کے لیے ہم یہ شرط ضرور رکھیں گے کہ بنو حنفیہ شکست تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دیں “
”یہی بہتر ہے “…عبدالرحمن نے کہا ۔
”پھر یہ کام ابھی شروع کردو “…خالد نے کہا …”دستوں کو مختلف سمتوں کو روانہ کردو اور انہیں کہو کہ بنو حنفیہ کا کوئی آدمی، عورت یا بچہ کہیں نظر آجائے اسے پکڑ کر لے آؤ “
###