ادھر عیسائیوں کا سردار عبدالاسود گھوڑے سے گرا ادھر دریائے فرات کی طرف سے بے شمار گھوڑوں کے دوڑنے کا شور سنائی دیا ۔ گھوڑے سرپٹ دوڑتے آرہے تھے ۔ اس پہلو پر عیسائیوں کا لشکر تھا۔ گھوڑ سواروں کے ہاتھ میں برچھیاں تھیں۔ گھوڑے عیسائیوں کے لشکر میں جاگھسے اور سواروں کی برچھیوں نے انہیں چھلنی کرنا شروع کردیا۔ عیسائیوں کی توجہ سامنے مسلمانوں کی طرف تھی وہ مقابلے کے لیے سنبھل نہ سکے ۔
”میں ہوں حارثہ کا بیٹا مثنیٰ“…اس شوروغوغا میں سے ایک للکار سنائی دے رہی تھی …”ہم بھی تم میں سے ہیں …میں ہوں مثنیٰ بن حارثہ “
یہ مثنیٰ کا سوار دستہ تھا جسے اس نے خالد رضی اللہ عنہ کو بتا کر لشکر سے الگ رکھا تھا ۔ وہ چھاپہ مار جنگ لڑنے کا ماہر تھا اور اس جنگ میں لڑائی کا یہ طریقہ بے حد ضروری تھا ۔
(جاری ہے)
وجہ یہ تھی کی یہ میدان جنگ بمشکل دو میل وسیع تھا اس کے دائیں اور بائیں دریا تھا ۔
خالد نے پہلے ہی کہہ دیا تھا اس میدان میں وہ اپنی مخصوس جنگی چالیں نہیں چل سکیں گے ۔ اپنے سالاروں سے انہوں نے کہا تھا کہ آمنے سامنے کی لڑائی میں وہ صرف اس صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ دشمن پر بہت تیز اور شدید حملہ کیا جائے بلکہ حملہ موج در موج ہو یعنی ایک دستہ دشمن سے ٹکر لے کر پیچھے ہٹے اور دوسرا دستہ حملہ کردے ۔ خالد نے اپنی فوج کو اسی قسم کے حملوں کی تربیت دے رکھی تھی اور اکثر اس کی مشق کراتے رہتے تھے ۔
خالد نے حملے کا حکم دے دیا انہوں نے پہلوؤں کے دستوں کو بھی اس حملے میں جھونک دیا ۔ حملے کی پہلی فوج کی قیادت خالد نے خود کی پہلوؤں کے سالاروں عاصم اور عدی نے بھی اپنے اپنے دستے کے ساتھ خود جاکر حملہ کیا۔ آتش پرستوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ وہ تازہ دم تھے مجاہدین تھکے ہوئے تھے لیکن مسلمانوں کو یہ فائدہ مل گیا کہ آتش پرست ابھی پوری طرح لڑنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔
یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ فارس کی فوج ذہنی طور پر بھی لڑنے کے لیے تیار نہیں تھی ۔ یہ فوج بھوکی تھی اوراسے وہ کھانا چھوڑنا پڑا تھا جو اس کے لیے خاص طور پر پکوایا تھا ۔
مسلمانوں کو اس پہلے حملے میں خون کی خاصی قربانی دینی پڑی ۔ آتش پرستوں نے تیار نہ ہوتے ہوئے بھی کئی مسلمانوں کو گھائل کردیا۔ خالد پیچھے ہٹے اور دوسرے دستوں کو آگے بڑھایا۔
آتش پرستوں کو تعداد کی افراط کا فائدہ حاصل تھا۔ ایک ایک مجاہد کا مقابلہ چار چار ، پانچ پانچ آتش پرستوں اور عیسائیوں سے تھا ۔ دشمن کو اس فائدہ سے محروم کرنے کے لیے مثنیٰ کا سوار دستہ سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے تھا۔ اس نے سواروں کو متعدد ٹولیوں میں تقسیم کردیا تھا ۔ یہ ٹولیاں باری باری گھوڑے سرپٹ دوڑاتی بگولوں کی طرح کبھی پہلو سے کبھی عقب سے آتیں اور کفار کے کئی آدمیوں کو برچھیوں سے کاٹتی گزر جاتیں اس طرح دشمن کی توجہ اپنے عقب پر بھی چلی گئی ۔
لیکن مثنیٰ کے سوار رک کر نہیں لڑتے تھے۔ ان سواروں نے دشمن کی ترتیب درہم برہم کیے رکھی ۔ مثنیٰ کی کارروائی سے خالد نے پورا فائدہ اٹھایا۔
”بنو بکر!“…میدان جنگ میں ایک اعلان سنائی دینے لگا …”اور زرتشت کے پجاریو! جم کر لڑو ۔ مدائن سے بہمن جاذویہ کا لشکر آرہا ہے “
یہ اعلان بار بار سنائی دیتا تھا ۔ خالد رضی اللہ عنہ کو یہ اعلان کچھ پریشان کر رہا تھا ۔
انہوں نے پہلوؤں کے سالاروں کو پیغام بھیجے کہ ہر طرف دھیان رکھیں۔ خالد نے اپنے محفوظہ کے دستوں کو بھی خبردار کردیا کہ عقب سے حملے کا خطرہ ہے ۔
تقریباً تمام مورخین نے لکھا ہے کہ بہمن جاذویہ مدائن سے کوئی لشکر نہیں لارہا تھا۔ کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ وہ جابان کی مدد کے لیے کیوں نہیں پہنچ سکا تھا۔ ایک مورخ یاقوت نے لکھا ہے کہ بہمن جاذویہ اپنے لشکر میں شامل ہونے کے لیے واپس آرہا تھا راستے میں اس لڑائی سے بھاگے ہوئے کچھ سپاہی مل گئے جنہوں نے اسے الیس کی جنگ کا حال سنایا۔
جاذویہ آگے جانے کی بجائے وہیں رک گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ شکست اس کے کھاتے میں نہ لکھی جائے ۔ بہر حال اس اعلان نے کہ مدائن سے جاذویہ فوج لارہا ہے مسلمانوں میں نئی روح پھونک ڈالی۔ خالد نے اعلان کیا کہ مدائن کے لشکر کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس لشکر کا صفایا کردو۔ لیکن آتش پرست اور عیسائی چٹانوں کی طرح ڈٹے ہوئے تھے ۔
خالد دعا تو کرتے ہی تھے لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ خالد گھوڑے سے اترے ، زمین پر گھٹنے ٹیکے اور ہاتھ بلند کرکے دعا کی …”خدائے ذوالجلال!ہمت عطا فرما کہ ہم اس لشکر کو نیچا دکھاسکیں۔
میں عہد کرتا ہوں کہ میں تیرے دین کے دشمنوں کے خون کا دریا بہادوں گا“
اب کے خالد نے نئے جوش و خروش سے حملے کروائے ۔ پہلوؤں کے دونوں سالاروں نے دشمن کو نیم دائرے میں لے لیا ۔ عقب سے مثنیٰ کے سواروں نے اپنی چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں۔ دو تین گھنٹے بعد صاف نظر آنے لگا کہ دشمن کے قدم اکھڑ رہے ہیں چونکہ دشمن کی تعداد زیادہ تھی اس لیے اس کے مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔
یہ حالت دیکھ کر آتش پرستوں اور عیسائیوں کے وہ لوگ جو پہلی تین جنگوں سے زندہ بھاگ نکلے تھے حوصلہ ہار بیٹھے اور جانیں بچانے کے لیے میدان جنگ سے کھسکنے لگے ۔ پھر لشکر کے دوسرے لوگ بھی پیچھے ہٹنے لگے ۔ یہ صورت دیکھ کر مسلمانوں نے اپنے حملوں میں مزید شدت پیدا کردی ۔ پھر اچانک یوں ہوا کہ کفار نے بھاگنا شروع کردیا۔
###
”تعاقب کرو “…خالد نے اپنے تمام لشکر میں قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑادیے اور بلند آواز میں اعلان بھی کرایا …انہیں بھاگنے مت دو ۔
انہیں قتل بھی نہ کرو ۔ زندہ پکڑ لاؤ
اس اعلان کا کفار پر ایک اثر یہ ہوا کہ انہوں نے بھاگنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے شروع کردیے ۔ بعض نے خوفزدہ ہوکر بھاگ اٹھنا بہتر سمجھا۔ مثنیٰ کے سواروں نے انہیں گھیر گھیر کر پیچھے لانا شروع کردیا۔ جنگ ختم ہوچکی تھی ۔ میدان جنگ لاشوں اور تڑپتے اور بے ہوش زخمیوں سے اٹا پڑا تھا ۔ ایک طرف وہ کھانا محفوظ پڑا تھا جو دشمن کے لشکر کے لیے تیار کیا گیا تھا خالد کے حکم سے مجاہدین کھانے پر بیٹھ گئے جو سوار بھاگنے والوں کو پکڑ پکڑ کر لارہے تھے وہ بھی باری باری کھانا کھانے لگے ۔
خالد نے مجاہدین سے کہا …”اللہ نے یہ کھانا تمہارے لیے تیار کرایا تھا ۔ اطمینان سے کھاؤ “
مسلمان مختلف کھانے دیکھ دیکھ کر حیران ہورہے تھے ۔ انہوں نے ایسے کھانے پہلے کبھی دیکھے ہی نہیں تھے ۔ وہ جو کی روٹی، اونٹی کا دودھ اور کھجوریں کھانے والے لوگ تھے ۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ دشمن کے جن آدمیوں کو زندہ پکڑ کر لایا جارہا تھا انہیں خالد کے حکم سے خسیف کے کنارے لیجاتے اور ان کے سر اس طرح کاٹ دیے جاتے کہ سر دریا میں گرتے تھے ۔
ان کے دھڑ اس طرح کنارے پر پھینکے جاتے کہ ان کا خون دریا میں جاتا تھا ۔ اس طرح قتل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں کے حساب سے تھی ۔
غیر مسلم مورخوں اور مبصروں نے خالد کے اس حکم کو ظالمانہ فعل کہا ہے لیکن خالد کہتے تھے کہ انہوں نے خدا سے عہد کیا تھا وہ کفار کے خون کا دریا بہادیں گے ۔ دریا کے اوپر بند بندھا ہوا تھا جس نے دریا کا پانی روکا ہوا تھا اس لیے خون دریا میں جمتا جارہا تھا کسی نے خالد رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ خون کا دریا صرف اس صورت میں بہے گا کہ بند کھول دیا جائے چنانچہ بند کھول دیا گیا ۔
جب اتنا زیادہ خون پانی میں ملا تو پانی سرخ ہوگیا اور خون کا دریا بہنے لگا ۔ اسی لیے تاریخ میں اس دریا کو دریائے خون لکھا گیا ہے ۔
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ خالد نے بچ نکلنے والوں اور ہتھیار ڈالنے والوں کا قتل عام اس لیے کرایا تھا کہ یہ سپاہی ایک جنگ سے بھاگ کر اگلی جنگ میں پھر سامنے آجاتے تھے ۔ اس کا علاج خالد نے یہ سوچا کہ دشمن کے کسی ایک بھی سپاہی کو زندہ نہ رہنے دیا جائے ۔ کہتے ہیں تین دن تک آتش پرستوں اور عیسائیوں کاقتل کیا جاتا رہا ۔ اس طرح قتل ہونے والوں کی تعداد ملا کر دریائے خون کی جنگ میں جو آتش پرست اور عیسائی مارے گئے ۔ ان کی تعداد ستر ہزار تھی۔
###