Episode 17 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 17 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

چلتے چلتے خالد کے گھوڑے نے اپنے آپ ہی رخ بدل لیا۔ خالد نے گھوڑے کو نہ روکا۔ وہ سمجھ گیا کہ گھوڑے نے پانی کی مشک پالی ہے ۔ کچھ دور جاکر گھوڑا نیچے اترنے لگا ۔ خالد کو یہ مقام یا د آگیا جنگ احد کے بعد واپسی پر قریش نے کچھ دیر یہاں قیام کیا تھا ۔ نیچے پانی کا خاصا ذخیرہ موجود تھا۔ گھوڑا بڑی تیزی سے گھاٹی اتر گیا اور پانی پر جارکا۔ خالد گھوڑے سے کوچ کر نیچے اترا اور دوزانوں ہوکر چلو بھر بھر کر اپنے چہرے پر پانی پھینکنے لگا ۔
ذرا سستانے کے لیے بھربھری سی ایک چٹان کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب احد کے معرکے کے بعد اہل قریش واپس آئے تھے ۔ انہوں نے مدینے سے کچھ دور آکر قیام کیا تھا۔ اس قیام کے دوران قریش کے سردار اس بحث میں الجھ گئے تھے کہ واپس مکہ پہنچا جائے یا مسلمانوں پر ایک اور حملہ کیا جائے ۔

(جاری ہے)

 

صفوان بن امیہ نے کہا تھا …”ہم شکست کھا کر نہیں آئے مگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کی حالت بہت بری ہے تو اپنی حالت دیکھو۔
ہماری حالت بھی اچھی نہیں۔ اب مسلمانوں کے ساتھ اتنی جلدی لڑنے کاخطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے قسمت ہمارا ساتھ نہ دے “
جب یہ بحث جاری تھی تو قریش کے کچھ آدمی دو مسافروں کو پکڑ کر سرداروں کے سامنے لے آئے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ دونوں آدمی جو اپنے آپ کو مسافر کہتے ہیں ہمارے خیموں کے ارد گرد گھوم پھر رہے تھے اور ہمارے چار پانچ آدمیوں سے انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جارہے ہو ، ان دونوں نے ابو سفیان اور دوسرے سرداروں کے سامنے بھی یہی بیان دیے کہ وہ مسافر ہیں اور کسی جگہ کا نام لے کر کہا کہ وہ ادھر جارہے ہیں۔
ابوسفیان کے حکم سے ان کے پھٹے پرانے کپڑے جو انہوں نے پہن رکھے تھے ۔ اتروائے گئے تو اندر سے خنجر اور تلواریں برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ ہتھیار کیوں چھپاکر رکھے ہیں۔ خالد کی نظر بہت تیز تھی ۔ اسے شک ہوا کہ یہ مسلمانوں کے جاسوس ہیں۔ ان دونوں کو قریش کی فوج کے سامنے کھڑا کردیا گیا اور پوچھا گیا کہ انہیں کوئی پہچانتا ہے ؟
دو تین آوازیں آئی کہ ہم انہیں پہچانتے ہیں ۔
یہ یثرب (مدینہ) کے رہنے والے ہیں ۔ 
”اس میں ایک کو میں اچھی طرح جانتا ہوں “…قریش کے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا …”اسے میں نے اپنے خلاف لڑتے ہوئے دیکھا تھا ۔ “
”تم اپنی زبان سے کہہ دو کہ تم محمد کے جاسوس ہو “…ابوسفیان نے ان دونوں سے کہا …اور جاؤ میں تمہاری جان بخشی کرتا ہوں ۔ 
دونوں میں سے ایک نے اعتراف کرلیا ۔ 
”جاؤ“…ابوسفیان نے کہا …”ہم نے تمہیں معاف کیا ۔
دونوں جو واقعی مسلمانوں کے بھیجے ہوئے جاسوس تھے اور قریش کے عزائم معلوم کرنے آئے تھے ۔ ہنسی خوشی اپنے اونٹوں کی طرف چل پڑے۔ ابوسفیان کے اشارے پر کئی ایک تیراندازوں نے کمانوں میں تیر ڈالے اور پیچھے سے ان دونوں مسلمانوں پر چلادیے۔ دونوں کئی کئی تیر اپنے جسموں میں لے کر گرے۔ پھر اٹھ نہ سکے۔ 
”کیا تم اس کا مطلب سمجھتے ہو ؟“ابوسفیان نے اپنے قریب کھڑے سرداروں سے کہا …”جاسوس بھیجنے کا مطلب ہے کہ مسلمان ہارے نہیں، وہ ابھی یا کچھ ہی عرصے بعد ہم پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
فوراً مکہ کو کوچ کرو اور اگلی جنگ کی تیاری کرو “
اگلے روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے آکر بتایا کہ اہل قریش نے جہاں پڑاؤ کیا تھا وہاں اپنے دونوں جاسوسوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور اہل قریش مکہ کو روانہ ہوگئے ہیں۔ 
خالد نے یہ پہلی جنگ لڑی تھی لیکن وہ سمجھتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ آج چار برس بعد وہ اس سوچ میں غرق تھا کہ مسلمانوں کی یہ طاقت عام انسانوں کی طاقت نہیں۔
کوئی راز ہے جسے وہ ابھی تک نہیں پاسکا۔ اسے اہل قریش کی کچھ خامیاں یاد آنے لگیں، کچھ باتیں اور کچھ اعمال اسے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ اسے یہودیوں کی دو بڑی خوبصورت عورتیں بھی یاد آئیں جو اہل قریش کے سرداروں میں گھل مل گئی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہودی اپنے نسوانی حسن کے جادو سے اہل قریش پر چھاجانے کی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ طریقہ اسے پسند نہ تھا لیکن ان میں سے ایک عورت ایک روز خالد سے ملی تو خالد نے محسوس کیا کہ یہ عورت جو کچھ کہہ رہی ہے اس میں عقل و دانش ہے ۔ اس عورت کے حسن و جوانی کا اپنا ایک اثر تھا لیکن طلسم جو اس کی زبان میں تھا اس کا اثر خالد نے بھی محسوس کیا تھا …کچھ دیر تک یہ عورت خالد کے خیالوں پر چھائی رہی ۔ اس کا گھوڑا ہنہنایا تو خالد جیسے خواب بیداری سے بیدار ہوگیا۔
وہ تیزی سے اٹھا۔ گھوڑے پر سوار ہوا ور پھر مدینے کے راستے پر ہولیا۔ 
ولید کا بیٹا خالد شہزادہ تھا ۔ عیش و عشرت کا بھی دلدادہ تھا لیکن فن حرب و ضرب کا جنون ایسا کہ عیش و عشرت کو اس جنون پر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا۔ مدینے کی طرف جاتے ہوئے اسے وہ حسین و جمیل یہودن یاد آئی جس کا نام یوحاوہ تھا ۔ اس نے اس یہودن کو ذہن سے نکال دیا لیکن یوحاوہ رنگ برنگی تتلی بن کر اس کے ذہن میں اڑتی رہی ۔
خالد اسے ذہن سے نکال نہ سکا۔ 
خالد کے ذہن میں اڑتی ہوئی اس تتلی کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ پھر تمام رنگ مل کر سرخ ہوگئے …خون جیسے سرخ …یہ ایک بھیانک یاد تھی خالد نے اسے ذہن سے اگل دینے کی بہت کوشش کی تھی لیکن تتلی جو زہریلی بھڑ بن گئی تھی اس کے ذہن سے نہ نکلی۔
یہ معرکہ احد کے تین چار ماہ بعد ایک واقعہ تھا ۔ ایک سازش تھی جس میں وہ شریک نہ تھا لیکن وہ قبیلہ قریش کا بڑا ہی اہم فرد تھا مسلمانوں کے خلاف کسی سازش میں شریک نہ ہونے کے باوجود وہ دعویٰ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اس میں شریک نہ تھا ۔
 
معرکہ احد میں زخمی ہونے والے بعض اہل قریش کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز خالد کو خبر ملی کہ مدینے سے چھ مسلمان تبلیغ اسلام کے لیے رجیع کی طرف جارہے تھے کہ عفان سے تھوڑی دور ایک غیر مسلم قبیلے نے انہیں روک لیا اور ان میں سے دو کو مکہ لایا گیا ہے اور انہیں نیلام کیا جارہا ہے ۔ 
خالد دوڑتا ہوا وہاں گیا۔ وہ مسلمان خبیب بن عدی اور زید بن الدثنہ تھے ۔
خالد دونوں کو جانتا پہچانتا تھا ۔ وہ اسی کے قبیلے کے افراد ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان میں حب رسول کا یہ عالم تھا کہ رسول خدا پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔ رسول خدا انہیں بہت عزیز رکھتے تھے ۔ خالد نے دیکھا کہ انہیں ایک چبوترے پر کھڑا کردیا گیا تھا اور ارد گرد اہل قریش کا ہجوم تھا۔ ایک غیر مسلم قبیلے کے چار افراد ان کے پاس کھڑے تھے دونوں کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے ۔
 
”یہ دونوں مسلمان ہیں “…ایک آدمی چبوترے پر کھڑا اعلان کر رہا تھا …”یہ دونوں احد میں تمہارے خلاف لڑے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں تمہارے عزیز اور خون کے رشتہ دار مارے گئے تھے ۔ “
ہے کوئی جو انتقام کی آگ بجھانا چاہتا ہے ؟انہیں خریدو، انہیں اپنے ہاتھوں قتل کرو اور خون کے بدلے خون بہاؤ…یہ آدمی سب سے اونچی بولی دینے والے کو ملیں گے …بولو“
”دو گھوڑے“…ایک آواز آئی ۔
 
”بولو…بڑھ کر بولو“
”دو گھوڑے ایک اونٹ“…ایک اور آواز آئی ۔ 
”گھوڑوں،اونٹوں کو چھوڑو۔ سونے میں بولی دو …سونا لاؤ …دشمن کے خون سے انتقام کی پیاس بجھاؤ “
وہ جوگ جن کے قریبی رشتہ دار احد کی لڑائی میں مارے گئے تھے بڑھ بڑھ کر بولی دے رہے تھے خبیب اور زید چپ چاپ کھڑے تھے ۔ ان کے چہروں پر خوف نہ تھا ۔ گھبراہٹ نہیں تھا ہلکی سی بے چینی بھی نہیں تھی۔
خالد ہجوم کو چیرتا ہوا آگے چلا گیا۔ 
”او قریش کے سردار کے جنگجو بیٹے!“…خبیب نے خالد کو دیکھ کر بڑی بلند آواز سے کہا …”تیرا قبیلہ ہم دونوں کا خون بہا کر اس مقدس آواز کو خاموش نہیں کرسکتا جو غار حرا سے اٹھی ہے ۔ لا اپنے قبیلے کا کوئی نامور لڑاکا اور میرے ہاتھ کھلوادے۔ پھر دیکھ کون کس کے خون سے پیاس بجھاتا ہے “
”میدان جنگ میں پیٹھ دکھانے والو!“…زید نے گرجدار آواز میں کہا …”تم نے شکست کا انتقام ہمارے بھائیوں کی لاشوں سے لیا ہے ۔
تمہاری عورتوں نے احد کے میدان میں ہماری لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کے ہار اپنے گلے میں لٹکائے ہیں “
آج…چار برس بعد …مدینے کی طرف جاتے ہوئے خالد کو خبیب اور زید کی للکار اور طعنے صاف سنائی دے رہے تھے ۔ وہ زید کے طعنے کو برداشت نہیں کرسکا تھا ۔ آج چار برس بعد اسے یہ طعنہ یا د آیا تھا تو بھی اس کے جسم نے جھرجھری لی ۔ اسے احد کے میدان کا وہ منظر یا د آگیا جب ابوسفیان کی بیوی ہند نے حمزہ کی لاش کا کلیجہ نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور چپا کر اگل دیا تھا ۔
اسی عورت نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ کر لائیں۔ ان عورتوں نے اس کے آگے کانوں اور ناکوں کا ڈھیر لگادیا تھا ۔ ہند نے ان کانوں اور ناکوں کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈال لیا تھا ۔ اور وہ پاگلوں کی طرح میدان جنگ میں ایک گیت گاتی اور ناچتی پھری تھی ۔ اس منظر کو اس کے خاوند ابو سفیان نے پسند نہیں کیا تھا ۔ خالد نے تو نفرت سے منہ پھیر لیا تھا ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط