مسلمان جب بنو قریظہ کی بستی کی قریب آئے تو عورتوں اور بچوں میں ہڑبونگ بپا ہوگئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ عورتیں اور بچے اپنے گھروں کو بھاگے جارہے تھے ۔ کوئی آدمی مقابلے کے لیے باہر نہ آیا جو مسلمان ٹیکریوں کی طرف سے محاصرے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے انہیں دو آدمی اور ایک عورت نظر آئی۔ تینوں بھاگے جارہے تھے آدمی جو بوڑھا تھا اور عورت اپنے ساتھی کو گھسیٹ رہے تھے۔
وہ پیچھے کو مڑ مڑ کر دیکھتا اور آگے نہیں چلتا تھا ۔
وہ لیث بن موشان، جرید اور یوحاوہ تھے۔ لیث نے جرید کے ذہن پر قبضہ کرکے اسے رسول کریم کے قتل پر آمادہ کرلیا تھا لیکن اب جرید اس کے لیے مصیبت بن گیا تھا ۔ وہ اس عمل کے زیر اثر تھا جسے آج ہپناٹزم کہا جاتا ہے یوحاوہ اپنی محبت کی خاطر اسے اپنے ساتھ لے جارہی تھی اسے یہی ایک خطرہ نظر آرہا تھا کہ جرید مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جائے گا اور لیث جرید کو اس لیے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش میں تھا کہ اسے کسی اور موقع پر رسول اللہ کے قتل کے لیے استعمال کرے گا لیکن جرید لیث کے عمل تنویم کے زیر اثر بار بار کہتا تھا …کہاں ہے وہ جو اپنے آپ کو خدا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے …وہ ہم میں سے ہے …وہ میرے ہاتھوں قتل ہوگا…مجھے چھوڑ دو …مجھے مدینہ جانے دو
ایک مسلمان نے ٹیکری پر کھڑے ہوکر انہیں للکارا اور رکنے کو کہا۔
(جاری ہے)
لیث اور یوحاوہ نے پیچھے دیکھا اور وہ جرید کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ جرید نے تلوار نکال لی ۔
”کہاں ہے محمد “…جرید نے تلوار لہرا کر ٹیکری کی طرف آتے ہوئے کہا …”وہ ہم میں سے ہے۔ میں اسے پہچانتا ہوں۔ میں اسے قتل کروں گا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے …یوحاوہ میری ہے“…وہ للکارتا آرہا تھا ”یوحاوہ ہبل اور عزیٰ سے زیادہ مقدس ہے ۔
سامنے لاؤ اپنے نبی کو “
کون مسلمان اپنے اللہ کے رسول کی اتنی توہین برداشت کرتا۔ جس مسلمان نے ان تینوں کو للکارا تھا اس نے کمان میں تیر ڈالا اور دوسرے لمحے یہ تیر جرید بن مسیب کی دائیں آنکھ میں اتر کر کھوپڑی کے دور اندر پہنچ چکا تھا۔ جرید کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس کا دوسرا ہاتھ دائیں آنکھ پر چلا گیا اور اس نے تیر کو پکڑ لیا۔
وہ رک گیا اس کا جسم ڈولا پھر اس کے گھٹنے زمین سے جالگے۔ اس کا وہ ہاتھ جس میں تلوار تھی ۔ اس طرح زمین سے لگا کہ تلوار کی نوک اوپر کو تھی ، جرید بڑی زور سے آگے کو گرا۔ تلوار کی نوک اس کی شہ رگ میں اترگئی وہ ذرا سا تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بے حس و حرکت ہوگیا ۔
###
سعد بن معاذ جو زخمی تھے، کعب بن اسد کے دروازے پر جارکے اور دستک دی ۔
کعب نے غلام کو بھیجنے کی بجائے خود دروازہ کھولا۔
”بنو قریظہ کے سردار!“…سعد بن معاذ نے کہا …”تیرے قبیلے کے بچے بچے نے دیکھا لیا ہے کہ تیری بستی ہمارے گھیرے میں ہے کیا تو کہہ سکتا ہے کہ تو نے وہ گناہ نہیں کیا جس کی سزا آج تیرے پورے قبیلے کو ملے گی ؟کیا تو نے سوچا نہیں تھا کہ بدعہدی کی سزا کیا ہے ؟“
”مجھے انکار نہیں ہے “…کعب بن اسد نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا …”لیکن میں نے وہ گناہ کیا نہیں جو ابوسفیان مجھ سے کرانا چاہتا تھا ۔
“
”اس لیے نہیں کیا کہ تو اس سے یرغمال میں اونچے خاندانوں کے آدمی مانگتا تھا “…سعد بن معاذ نے کہا…”اس سے پہلے تو نے اسے کہہ دیا تھا کہ تیرا قبیلہ مدینہ کے ان مکانوں پر شب خون مارے گا جن میں ہماری عورتیں اور ہمارے بچے تھے ۔ تو نے ایک مخبر بھی بھیجا تھا ۔ بدبخت انسان! تو نہ سوچ سکا کہ مسلمانوں کی صرف ایک عورت بیدار ہوئی تو وہ یہودیوں کی شیطانیت کو صرف ایک ڈنڈے سے کچل دے گی ۔
“
”میں جانتا ہوں تمہیں نعیم بن مسعود نے خبر دی ہے کہ میں نے تم سے بدعہدی کی ہے “…کعب بن اسد نے شکست خوردہ آواز میں کہا …”تم یہ جان لو کہ یہ خبر غلط نہیں۔ میں نے جو کچھ کیا وہ اپنے قبیلے کی سلامتی کے لیے کیا تھا “
”اب اپنے قبیلے کے لیے سزا خود ہی مقرر کردے “…سعد بن معاذ نے کہا …”تو جانتا ہے کہ معاہدہ توڑنے والے قبیلے کو کیا تاوان دینا پڑتا ہے ۔
اگر تو خود اپنی سزا کا فیصلہ نہیں کرتا تو بھی تجھے معلوم ہے کہ تیرے قبیلے کا انجام کیا ہوگا ۔ کیا تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام بھول گیا ہے ۔ مجھے اس زخم کی قسم جو میں نے خندق کی لڑائی میں کھایا ہے تیرے قبیلے کا انجام ان سے زیادہ برا ہوگا “
”ہاں سعد!“…کعب بن اسد نے کہا …”میں جانتا ہوں میرے قبیلے کا انجام کیا ہوگا ۔ ہمارے بچے اور ہماری عوتیں بھی ختم ہوجائیں گی میرا فیصلہ یہ ہے کہ معاہدے کے مطابق میرے قبیلے کے تمام مردوں کو قتل کردو اور ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں کو اپنے ساتھے لے جاؤ۔
وہ زندہ تو رہیں گے ۔ “
”صرف زندہ نہیں رہیں گے “…سعد بن معاذ نے کہا …”وہ خدا کے سچے نبی کے پیروکار بن کر باعزت زندگی بسر کریں گے …اپنے تمام آدمیوں کو باہر نکالو“
###
سعد بن معاذ واپس آگئے ۔
”یارسول اللہ!“…انہوں نے رسول کریم سے کہا …”بنو قریظہ نے اپنی سزا خود مقرر کی ہے ۔ ان میں جو آدمی لڑنے کے قابل ہیں۔
انہیں قتل کردیا جائے اور عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے “
سب نے دیکھا کہ بنو قریظہ کے لوگ قلعے سے باہر آرہے تھے ۔ محاصرے میں سے کسی کو بھاگ نکلنے کا موقع نہ ملا۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ فتنہ و فساد اور بدعہدی سے بھری پڑی تھی اسے خدا کی دھتکاری ہوئی قوم کہا گیا تھا۔ ان کے ساتھ جس نے بھی نرمی برتی اسے یہودیوں نے نقصان پہنچایا۔
چنانچہ بنو قریظہ کو بخش دینا بڑی خطرناک حماقت تھی۔ مسلمانوں نے اس قبیلے کے ایسے تمام آدمیو کو قتل کردیا جو لڑنے کے قابل تھے اور بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
دو مورخین نے لکھا ہے کہ رسول کریم نے بنو قریظہ پر فوج کشی کی تو یہودیوں نے بڑا سخت مقابلہ کیا۔ مسلمانوں نے پچیس روز بنو قریظہ کو محاصرے میں لیے رکھا۔
آخر یہودیوں نے رسول اکرم کو پیغام بھیجا کہ سعد بن معاذ کو ان کے پاس صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ چنانچہ سعد بن معاذ گئے اور یہ فیصلہ کر آئے کہ بنو قریظہ کے آدمیوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو مال غنیمت میں لے لیا جائے جن یہودیوں کو قتل کیا گیا ان کی تعداد چار سو تھی ۔
زیادہ تر مورخوں نے لکھا ہے کہ بنو قریظہ نے مقابلہ نہیں کیا اور اپنے کیے کی سزا پاے کے لیے قلعے سے نکل آئے۔
مدینہ میں یہودیوں کے قتل عام کے ساتھ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس سے پہلے مسلمانوں نے یہودیوں کے دو قبیلوں، بنو نضیر اور بنو قینقاع کو ایسی ہی بدعہدی اور فتنی پروازی پر ایسی ہی سزا دی تھی۔ ان قبیلوں کے بچے کھچے یہودی شام کو بھاگ گئے تھے ۔ شام میں ایرانیوں کی حکومت تھی ۔ ایک عیسائی بادشاہ ہرقل نے حملہ کرکے شام پر قبضہ کرلیا۔
یہودیوں نے اس کے ساتھ بھی بدعہدی کی ۔ ادھر مدینہ میں مسلمان بنو قریظہ کو قتل کر رہے تھے ۔ ادھر ہرقل بنو نضیر اور بنو قینقاع کا قتل عام کر رہا تھا ۔
ایک حدیث ہے جو حضرت عائشہ کے حوالے سے ہشام بن عروہ نے بیان کی ہے کہ سعد بن معاذ کے فیصلے کو رسول کریم نے قبول فرمایا اور بنو قریظہ کے یہودیوں کو قتل کردیا گیا تھا ۔ ہشام بن عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے والد بزرگوار نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ سعد بن معاذ کو سینے میں برچھی لگی تھی جب بنو قریظہ کو سزا دی جاچکی تو رسول اللہ کے حکم سے سعد بن معاذ کے لیے مسجد کے قریب ایک خیمہ لگا کر اس میں انہیں رکھا گیا تاکہ ان کے زخم کی دیکھ بھال آسانی سے ہوتی رہے ۔
سعد بن معاذ اس خیمے میں لیٹ گئے لیکن اٹھ بیٹھے اور انہوں نے خدا سے دعا مانگی کہ ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ہر اس قوم کے خلاف لڑیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی نہیں سمجھتی مگر لڑائی ختم ہوچکی ہے ۔ انہوں نے خدا سے التجا کی کہ مسلمانوں کو کوئی اور لڑائی لڑنی ہے تو مجھے اس میں شریک ہونے کے لیے زندگی عطا فرما۔ اگر یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے تو میرے زخم کو کھول دے کہ میں تیری راہ میں جان دے دوں۔
سعد بن معاذ کی یہ دعا تین چار آدمیوں نے سنی تھی لیکن انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی ۔ صبح کسی نے دیکھا کہ سعد بن معاذ کے خیمے سے خون بہہ بہہ کر باہر آرہا تھا۔ خیمے میں جاکر دیکھا ۔ سعد بن معاذ شہید ہوچکے تھے ۔ انہوں نے خدا سے شہادت مانگی تھی ۔ خدا نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ ان کے سینے کا زخم کھل گیا تھا۔
###