Episode 126 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 126 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

بکربن وائل کی بستیوں میں ایک طرف گریہ و زاری تھی اور دوسری طرف جوش و خروش اور جذبہ انتقام کی للکار۔ اس عیسائی قبیلے کے وہ ہزاروں آدمی جو للکارتے اور نعرے لگاتے ہوئے آتش پرست لشکر کے ساتھ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکالنے گئے تھے ۔ وہ میدان جنگ سے بھاگ کر اپنی بستیوں کو چلے گئے تھے ۔ یہ وہ تھے جو زندہ نکل گئے تھے۔ ان کے کئی ساتھی مارے گئے تھے ان میں بعض زخمی تھے جو اپنے آپ کو گھسیٹتے آرہے تھے مگر راستے میں مرگئے تھے ۔
 
یہ عیسائی جب سر جھکائے ہوئے اپنی بستیوں میں پہنچنے لگے تو گھر گھر سے عورتیں ، بچے اور بوڑھے نکل آئے۔ ان شکست خوردہ ٹولیوں میں عورتیں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈنے لگیں۔ بچے اپنے باپوں کو دیکھتے پھر رہے تھے ۔ انہیں پہلا صدمہ تو یہ ہوا کہ وہ پٹ کر لوٹے تھے پھر صدمہ انہیں ہوا جن کے عزیز واپس نہیں آئے تھے ۔

(جاری ہے)

بستیوں میں عورتوں کی آہ وفغاں سنائی دینے لگی ۔

وہ انچی آواز میں روتی تھیں۔ 
”پھر تم کیوں زندہ آگئے ہو ؟“…ایک عورت نے شکست کھاکر آنے والوں سے چلا چلا کر کہا …”تم ان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے وہیں کیوں نہیں رہے “
یہ آواز کئی عورتوں کی آواز بن گئی ۔ پھر عورتوں کی یہی للکار سنائی دینے لگی …”تم نے بکر بن وائل کا نام ڈبودیا ہے ۔ تم نے ان مسلمانوں سے شکست کھائی ہے جو اسی قبیلے کے ہیں …جاؤ اور شکست کا انتقام لو …مثنیٰ بن حارثہ کا سر کاٹ کر لاؤ جس نے ایک ہی قبیلے کو دو دھڑوں میں کاٹ دیا ہے “
مثنیٰ بن حارثہ اسی قبیلے کا ایک سردار تھا ۔
اس نے کچھ عرصہ پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کے زیر اثر اس قبیلے کے ہزاروں لوگ مسلمان ہوگئے تھے ۔ ان مسلمانوں سے کئی خالد کی فوج میں شامل ہوگئے تھے ۔ اس طرح ایک ہی قبیلے کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے ۔ 
طبریٰ اور ابن قطیبہ نے لکھا ہے کہ شکست خوردہ عیسائی اپنی عورتوں کے طعنوں اور ان کی للکار سے متاثر ہوکر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ۔
بیشتر مورخین نے لکھا ہے کہ عیسائیوں کو اس لیے بھی طیش آیا تھا کہ ان کے پنے قبیلے کے کئی ایسے افراد نے اسلام قبول کیا تھا جن کی کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن وہی افراد اسلامی فوج میں جاکر ایسی طاقت بن گئے تھے کہ فارس جیسی طاقتور شہنشانہ کو نہ صرف للکار رہے تھے بلکہ اسے تیسری شکست دے چکے تھے ۔ 
”اب ان لوگوں کو اپنے مذہب میں واپس لانا مشکل ہے ۔
“…بکر بن وائل کے ایک سردار عبدالاسود عجلی نے کہا …”ان کا ایک ہی علاج ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے “
عبدالاسود بنو عجلان کا سردار تھا ۔ یہ بھی بکر بن وائل کی شاخ تھی اس لیے وہ عجلی کہلاتا تھا ۔ مانا ہوا جنگجو عیسائی تھا۔ 
”کیا تم مسلمانوں کے قتل کو آسان سمجھتے ہو ؟“…ایک بوڑھے عیسائی نے کہا …”میدان جنگ میں تم انہیں پیٹھ دکھا آئے ہو “
”میں ایک مشورہ دیتا ہوں “…اس قبیلے کے ایک اور بڑے نے کہا …”ہمارے ساتھ جو مسلمان رہتے ہیں انہیں ختم کردیا جائے پہلے انہیں کہا جائے کہ یہ عیسائیت میں واپس آجائیں اگر انکار کریں تو انہیں خفیہ طریقوں سے قتل کردیا جائے ۔
”نہیں“…عبدالاسود نے کہا …”کیا تم بھول گئے ہو کہ ہمارے قبیلے کے ان مسلمانوں نے خفیہ کارروائیوں سے فارس کی شہنشاہی میں کیسی تباہی مچائی تھی۔ انہوں نے کتنی دلیری سے فارس کی فوجی چوکیوں پر حملے کیے تھے ۔ انہوں نے کسریٰ کی رعایا ہوکر کسریٰ کی فوج کے کئی کمانداروں کو قتل کردیا تھا۔ اگر تم نے یہاں کسی ایک مسلمان کو خفیہ طریقے سے قتل کیا تو مثنیٰ بن حارثہ کا گروہ خفیہ طریقوں سے تمہارے بچے بچے کو قتل کرجائے گا اور تمہارے گھروں کو آگ لگادے گا ان میں سے کوئی بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئیگا “
”پھر ہم انتقام کس طرح لیں گے ؟“…ایک نے پوچھا …”تمہارے لیے تو انتقام بہت ہی ضروری ہے کیونکہ تمہارے دو جوان بیٹے ولجہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں “
”شہنشاہِ فارس اور مسلمانوں کی اپنی جنگ ہے“ … عبدالاسود نے کہا … ”ہم اپنی جنگ لڑیں گے لیکن فارس کی فوج کی مدد کے بغیر شاید ہم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔
اگر تم لوگ مجھے اجازت دو تو میں مدائن جا کر شہنشاہِ فارس سے ملوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں مدد دے گا۔ اگر اس نے مدد نہ دی تو ہم اپنی فوج بنا کر لڑیں گے۔ تم ٹھیک کہتے ہو، مجھے مسلمانوں سے اپنے دو بیٹوں کے خون کا حساب چکانا ہے۔“
عیسائیوں کے سردار نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ جس قدر لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوسکیں وہ دریائے فرات کے کنارے الیس کے مقام پر اکٹھے ہوجائیں اور ان کا سردار اعلیٰ عبدالاسود عجلی ہوگا قبیلہ بکر بن وائل اور اس کے ذیلی قبیلوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے ۔
ان کے زخم تازہ تھے۔مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے گھروں میں ماتم ہورہا تھا ۔ ان حالات اور اس جذباتی کیفیت میں نوجوان بھی اور وہ بوڑھے بھی جو اپنے آپ کو لڑنے کے قابل سمجھتے تھے ۔ لڑنے کے لیے نکل آئے ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط