عبادت گاہ میں وہ کاہن جس نے کہا تھا کہ ثقیف اور ہوازن مسلمانوں کو مکہ میں بے خبری میں جالیں گے ۔ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔ اسے جگانے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا ۔ وہ عبادت گاہ کے کسی اندرونی حصے میں سویا ہوا تھا۔ عبادت گاہ کے مجاور کسی بیرونی کمرے میں سوئے ہوئے تھے ۔ انہیں کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ یہ ان کے فرائض میں شامل تھا کہ کاہن کے کمرے تک کسی کو نہ پہنچے دیں ۔
دو تین مجاور اٹھے کر باہر آگئے ۔ ایک کے ہاتھ میں مشعل تھی ۔
”مالک بن عوف!“…ایک مجاور نے مالک کے راستے میں آکر کہا …”کیا قبیلے کا سردار نہیں جانتا کہ اس سے آگے کوئی نہیں جاسکتا…ہم سے بات کر مالک بن عوف“
”اور کیا تم نہیں جانتے کہ ایک سردار کا راستہ روکنے کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے ؟“…مالک بن عوف نے تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا …”میں کاہن کے پاس جارہا ہوں “
”کاہن کے قہر کو سمجھ مالک!“…ایک اور مجاور نے کہا …”کاہن جو اس وقت تمہیں سویا ہوا نظر آئے گا وہ لات کے حضور گیا ہوا ہے ۔
(جاری ہے)
اس حالت میں اس کے پاس جاؤ گے تو …“
مالک بن عوف ایسی ذہنی کیفیت میں تھا جس نے اس کے دل سے کاہن کا تقدس اور خوف نکال دیا تھا۔ ایک تو وہ بہت بری شکست کھاکر آیا تھا ۔ دوسرے اس کی اس بیوی نے اسے دھتکار دیا تھا جسے وہ دل و جان سے چاہتا تھا۔ اس نے مجاور کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مشعل کے ڈنڈے پر ہاتھ مارا اور اس کے ہاتھ سے مشعل چھین کر کاہن کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔
مجاور اس کے پیچھے دوڑے لیکن وہ کاہن کے کمرے میں داخل ہوگیا۔
کاہن مجاوروں کے شور سے جاگ اٹھا تھا ۔ اپنے کمرے میں مشعل کی روشنی دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا مالک بن عوف نے مشعل دیوار میں اس جگہ لگادی جو اسی مقصد کے لیے دیوار میں بنائی گئی تھی ۔
”مقدس کاہن“…مالک بن عوف نے کہا…”میں پوچھنے آیا ہوں کہ …“
”کہ تمہاری شکست کا سبب کیا ہوا “…کاہن نے اس کی بات پوری کرتے ہوئے کہا …”کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ ایک حام کی قربانی دو ؟“
”اور مقدس کاہن “…مالک بن عوف نے کہا …”تم نے یہ بھی کہا تھا کہ حام نہ ملے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں۔
تم نے کہا تھا کہ حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرنا…تم نے کہا تھا کہ مسلمان لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے “
”کیا تو اپنے دیوتا سے باز پرس کرنے آیا ہے کہ دشمن نے تمہیں شکست کیوں دی ہےَ؟“…کاہن نے پوچھا …”میں نے کہا تھا کہ پیٹھ نہ دکھانا…کیا تیرے لشکر نے پیٹھ نہیں دکھائی…تیرے لشکر میں تو اتنی سی بھی غیرت نہیں تھی کہ اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کی حفاظت کرتا “
”میں پوچھتا ہوں تم نے کیا کیا ؟“…مالک بن عوف نے پوچھا …”اگر سب کچھ ہمیں ہی کرنا تھا تو تم نے کیا کمال دکھایا؟تم نے کیوں کہا تھا کہ مسلمانوں کو اس قت پتہ چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی ؟کیا تم نے ہمیں دھوکہ نہیں دیا ؟کیا یہ درست نہیں کہ محمد سچا ہے جس نے تمہاری فال کو جھٹلادیا ہے ؟اگر تم کاہن نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کردیتا…اب طائف پر بہت بڑا خطرہ آرہا ہے ۔
کیا تم اپنے دیوتا کی بستی کو بچاسکتے ہو ؟کیا تم مسلمانوں پر قہر نازل کرسکتے ہو ۔ “
”پہلی بات یہ سن لے عوف کے بیٹے !“…کاہن نے کہا …”کاہن کو دنیا کی کوئی طاقت قتل نہیں کرسکتی۔ کاہن کی جب عمر ختم ہوتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہوجاتا ہے تم مجھ پر تلوار اٹھا کر دیکھو لو …اور دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان طائف تک پہنچ سکتے ہیں۔
یہاں سے زندہ واپس نہیں جاسکتے “
###
جس وقت مالک بن عوف کاہن کے کمرے میں داخل ہوا تھا اس وقت کسی انسان کی شکل کا ایک سایہ عبادت گاہ کی عقبی دار پر رینگ رہا تھا ۔ وہ جو کوئی بھی تھا۔ وہ اپنی جان کا خطرہ مول لے رہا تھا۔ یہ مالک بن عوف ہی تھا جو سرداری کے رعب میں رات کے وقت کاہن کے کمرے تک پہنچ گیا تھا۔ یہ عبادت گاہ صدیوں پرانی تھی ۔
عقبی دیوار میں چھوٹا سا شگاف تھا ۔ وہ انسان جس کا سایہ دیوار پر رنگ رہا تھا۔ اس شگاف میں داخل ہوگیا آگے اونچی گھاس اور جھاڑیاں تھیں۔ وہ انسان گھاس اور جھاڑیوں میں سے یوں گزرنے لگا کہ اس کے قدموں کی آہٹ یا ہلکی سی سرسراہٹ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔
وہ گھاس اور جھاڑیوں میں گزر کر اس چبوترے پر جاچڑھا جس پر عبادت گاہ کی عمارت کھڑی تھی۔
اس طرف کے دروازے کے کواڑ دیمک خوردہ تھے۔ وہ انسان کھائے ہوئے ان کواڑوں میں سے گزر کر عبادت گاہ میں داخل ہوگیا۔ آگے تاریک غلام گردش تھی ۔
اس گپ اندھیرے میں وہ یوں چلاجارہا تھا جیسے پہلے بھی یہاں کبھی آیا ہو ۔ وہ غلام گرش کی بھول بھلیوں میں سے گزرتا کاہن کے کمرے کے قریب پہنچ گیا ۔ اسے کاہن کی اور کسی اور کی باتیں سنائی دیں۔ وہ مالک بن عوف تھا جو کاہن کے ساتھ باتیں کر رہا تھا ۔
یہ انسان رک گیا۔ اسے کاہن کے کمرے سے آتی ہوئی مشعل کی روشنی نظر آرہی تھی ۔
مالک بن عوف کاہن سے اتنا مرعوب ہوا کہ وہ سر جھکائے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ یہ انسان جو قریب ہی کہیں چھپ گیا تھا۔ آگے بڑھا۔ کاہن دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں کیونکہ اس کے سامنے ایک جواں سال لڑکی کھڑی تھی ۔ اس لڑکی کو وہ پہچانتا تھا یہ وہی یہودی لڑکی تھی جسے ایک ضعیف العمر یہودی کاہن کے پاس تحفے کے طور پر لایا تھا اور اس لڑکی کے ساتھ اس نے سونے کے دو ٹکڑے کاہن کی نذر کیے تھے ۔
یہ کاہن کا انعام یا معاوضہ تھا۔ کاہن نے اسے یقین دلایا تھا کہ ثقیف اور ہوازن کے قبیلے مسلمانوں کو مکہ میں ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے ۔ اس نے اس بوڑھے یہودی سے کہا تھا کہ دیوتا لات کا اشارہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔
بوڑھا یہودی اس یہودی لڑکی کو کاہن کے پاس ایک رات کے لیے چھوڑ کر گیا تھا۔ طائف میں وہ اس خوشخبری کا منتظر بیٹھا تھا کہ ثقیف ، ہوازن اور ان کے دوست قبیلوں نے اسلام کو مسلمانوں کیے خون میں ڈبودیا ہے لیکن ہوا یہ کہ مالک بن عوف سرجھکائے ہوئے طائف میں داخل ہوا۔
پھر اس کے لشکری قدم گھسیٹتے ہوئے دو چار کی ٹولیوں میں طائف میں آنے لگے۔ بوڑھے یہودی کی کمر عمر نے پہلے ہی دوہری کر رکھی تھی ۔ مالک بن عوف کو شکست خوردگی کی حالت میں واپس آتے دیکھ کر اس کی کمر جیسے ٹوٹ ہی گئی ہو۔ اس کی کمر پر آخری تنکا اس یہودی لڑکی نے رکھ دیا جسے وہ انعام کے طور پر کاہن کے حوالے کر آیا تھا ۔