Episode 6 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 6 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

خالد اٹھا ۔ دری جھاڑ کر لپیٹی اور گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ کر سوار ہوا اور مدینہ کی سمت چل پڑا۔ اس نے ذہن کو یادوں سے خالی کردینا چاہا لیکن اس کا ذہن مدینہ پہنچ جاتا جہاں رسول اللہ تھے اور جو تبلیغ اسلام کا مرکز بن گیا تھا ۔ آپ کا خیال آتے ہی اس کا ذہن پیچھے چلا جاتا اور اسے وہ منظر دکھاتا جن کے خالق آنحضرتﷺ تھے۔ اس کے ذہن میں ہُند کے الفاظ یاد آئے جو اس نے اپنے خاوند ابو سفیان سے کہے تھے ۔
 
”میں اپنے باپ اور چچا کو بھول سکتی ہوں “…ہُند نے کہا تھا …”کیا میں اپنے لخت جگر حنظلہ کو بھی بھول جاؤں؟ماں اپنے بیٹے کو کیسے بھول سکتی ہے ؟اللہ کی قسم، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے کا خون معاف نہیں کروں گی ۔ یہ لڑائی محمد نے کرائی ہے میں حمزہ اور علی کو نہیں بخشوں گی ۔

(جاری ہے)

وہ میرے باپ، میرے چچا اور میرے بیٹے کے قاتل ہیں “

”میرے خون کو صرف میرے بیٹے کا قتل گر مارہا ہے “…ابو سفیان نے کہا تھا …”مجھ پر اپنے بیٹے کے خون کا انتقام فرض ہوگیا ہے ۔
میں سب سے پہلے یہ کام کروں گا کہ محمد کے خلاف زبردست فوج تیار کرکے اُسے آئندہ لڑنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا “
مشہور مورخ اور وقائع نگار واقدی لکھتا ہے کہ اگلے ہی روز ابو سفیان نے تمام سردار وں کو بلایا ان میں زیادہ تعداد ان سرداروں کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی عزیز اس جنگ میں مارا گیا تھا ۔
سب انتقام کا ارادہ لے کر اکٹھے ہوئے ۔
”کیا مجھے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت ہے ؟“…ابو سفیان نے کہا …”میرا اپنا بیٹا مارا گیا ہے ۔ اگر میں انتقام نہیں لیتا تو مجھے جینے کا کوئی حق نہیں “
سب ایک ہی بار بولنے لگے۔ وہ اس پر متفق تھے کہ مسلمانوں سے بدر کی شکست کا انتقام لیا جائے ۔ 
”لیکن آپ میں سے اب کوئی بھی اپنے گھر میں نہ بیٹھا رہے “…خالد نے کہا …”بدر میں ہم صرف اس لیے ذلت میں گرے کہ سردار گھروں میں بیٹھے رہے اور ان لوگوں کولڑنے کے لیے بھیج دیا جو قریش کی عظمت کو نہیں سمجھتے تھے “
”کیا میرے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا ؟“…خالد کے چچا زاد بھائی عکرمہ نے جو ابوجہل کا بیٹا تھا ، برہم ہوتے ہوئے کہا …”کیا صفوان بن امیہ کے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا ؟…تم کہاں تھے الولید کے بیٹے ؟“
”ہم یہاں ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے “…ابو سفیان نے کہا…”خالد! تمہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھے جس سے کوئی اپنی بے عزتی محسوس کرے “
”ہم میں سے کوئی بھی عزت والا نہیں رہا “…خالد نے کہا …”ہم سب اس وقت تک بے عزت رہیں گے جب تک ہم محمد اور اس کے چیلوں کو ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کردیتے۔
مجھے اپنے گھوڑے کے سموں کی قسم، میرے خون کی گرمی نے میری آنکھیں جلادی ہیں ۔ ان آنکھوں کو مسلمانوں کا خون ٹھنڈا کرسکتا ہے …میں پھر کہوں گا کہ اب سردار آگے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ میں میدان جنگ میں کہاں ہوں گا لیکن جنگ میں ہمارا جو سردار ہوگا میں اس کے حکم کا پابند رہوں گا اور اگر میں سمجھوں گا کہ سردار نے مجھے ایسا حکم دیا ہے جو ہمیں نقصان دے گا تو میں ایسا حکم نہیں مانوں گا “
سب نے متفقہ طور پر ابو سفیان کو اپنا سردار مقرر کیا۔
 
اس سے کچھ روز پہلے اہل مکہ کا ایک قافلہ فلسطین سے مکہ واپس آیا تھا ۔ یہ تجارتی قافلہ تھا ۔ مکہ کے باشندوں، خصوصاً قریش کے ہر خاندان نے اس تجارت میں حصہ ڈالا تھا۔ اس قافلے میں کم و بیش ایک ہزار اونٹ تھے اور جو مال گیا تھا اس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی۔ قافلے کا سردار ابو سفیان تھا جس نے پچاس ہزار دینار منافع کمایا تھا ۔ 
قافلے کی واپسی کا راستہ مدینے کے قریب سے گزرتا تھا ۔
مسلمانوں کو پتہ چل گیا۔ انہوں نے پورے قافلے کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مقام پر قافلے کو گھیرے میں لے لیا لیکن وہ زمین ایسی تھی کہ ابو سفیان نے ایک ایک آدمی ااور ایک ایک اونٹ کو زمین کے اونچے نیچے خدوخال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرے سے نکال دیا تھا ۔ 
۔۔۔۔۔۔
خالد کا گھوڑا خراماں خراماں مدینہ کی طرف چلا جارہا تھا مگر خالد کا ذہن پیچھے کو سفر کر رہا تھا۔
اسے اس وقت کا جب قریش انتقام کی سکیم بنانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، ایک ایک لفظ جو کسی نے کہا تھا ، سنائی دے رہا تھا ۔ 
”اگر تم نے اپنی سرداری مجھے دی ہے تو میرے ہر فیصلے کی پابندی تم پر لازم ہے “…ابو سفیان نے کہا …”میرا پہلا فیصلہ یہ ہے کہ میں نے ابھی پچاس ہزار دینار منافع سب میں تقسیم نہیں کیا وہ میں تقسیم نہیں کروں گا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں استعمال ہوگا “
”مجھے اور میرے خاندان کو یہ فیصلہ منظور ہے “…سب سے پہلے خالد نے کہا 
پھر”منظور ہے …ایسا ہی کر…منظور ہے “کی آوازیں اٹھیں۔
 
”میرا دوسرا حکم یہ ہے “…ابو سفیان نے کہا …”کہ جنگ بدر میں ہمارے جو آدمی مارے گئے ہیں ان کے لواحقین آہ و زاری کر رہے ہیں میں نے مردوں کو دھاڑیں مارتے اور عورتوں کو بین کرتے سنا ہے ۔ اللہ کی قسم، جب آنسو بہہ جاتے ہیں تو انتقام کی آگ سرد ہوجاتی ہے آج سے بدر کے مقتولین پر کوئی نہیں روئے گا …اور میرا تیسرا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں نے بدر کی لڑائی میں ہمارے جن آدمیوں کو قید کیا ہے ۔
ان کی رہائی کے لیے کوشش نہیں کی جائے گی ۔ تم جانتے ہو کہ مسلمانوں نے قیدیوں کی رہائی کے لیے ان کے درجے مقرر کردیئے ہیں اور ان کا فدیہ ایک ہزار سے چار ہزار درہم مقرر کیا ہے ۔ ہم مسلمانوں کو ایک درہم بھی نہیں دیں گے ۔ یہ رقم ہمارے ہی خلاف استعمال ہوگی “
خالد کو گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے اور مدینہ کی طرف جاتے ہوئے جب وہ لمحے یاد آرہے تھے تو اس کی مٹھیاں بند ہوگئیں۔
غصے کی لہر اس کے سارے وجود میں پھر گئی۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب بھی اس کے اندر غصہ بیدار ہوگیا۔ اسے غصہ اس بات پر آیا تھا کہ اجلاس میں طے ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کے پاس مکہ کا کوئی آدمی اپنے قیدی کو چھڑانے مدینہ نہیں جائے گا لیکن ایک آدمی چوری چھپے مدینہ چلا گیا اور فدیہ ادا کرکے اپنے باپ کو رہا کرالایا۔ اس کے بعد قریش کا کوئی نہ کوئی آدمی چوری چھپے مدینہ چلا جاتا اور اپنے عزیز رشتہ دار کو رہا کرالاتا۔
ابو سفیان نے اپنا حکم واپس لے لیا ۔ 
خالد کا اپنا ایک بھائی جس کا نام ولید تھا مسلمانوں کے پاس جنگی قیدی تھا ۔ اگر اس وقت تک قریش اپنے بہت سے قیدی رہا نہ کرالائے ہوتے تو خالد اپنے بھائی کی رہائی کے لیے کبھی نہ جاتا۔ اسے اپنے بھائیوں نے مجبور کیا تھا کہ ولید کی رہائی کے لیے جائے۔ خالد کو یاد آرہا تھا کہ وہ اپنے وقارکو ٹھیس پہنچانے پر آمادہ نہیں ہورہا تھا لیکن اسے ایک خیال آیا تھا۔
خیال یہ تھا کہ رسول کریم بھی اسی کے قبیلے کے تھے اور آپ کے پیروکار یعنی جو مسلمان ہوگئے تھے وہ بھی قریش اور اہل مکہ سے تھے ۔ وہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے ۔ وہ اتنے جری اور دلیر تو نہیں تھے کہ تین سو تیرہ کی تعداد میں ایک ہزار کو شکست دے سکتے۔ اب ان میں کیسی قوت آگئی ہے کہ وہ ہمیں نیچا دکھا کر ہمارے آدمیوں کی قیمتیں مقرر کر رہے ہیں؟
”انہیں ایک نظر دیکھوں گا “…خالد نے سوچا تھا …”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غور سے دیکھوں گا “
اور وہ اپنے بھائی ہشام کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا تھا۔
اس نے اپنے ساتھ چار ہزار درہم باندھ لیے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ بنو مخزوم کے سردار الولید کے بیٹے کا فدیہ چار ہزار درہم سے کم نہیں ہوگا ۔ 
ایسے ہی ہوا۔ اس نے مسلمانوں کے ہاں جاکر اپنے بھائی کا نام لیا تو ایک مسلمان نے ، جو قیدیوں کی رہائی اور فدیہ کی وصولی پر مامور تھا ۔ کہا کہ چار ہزار درہم ادا کرو۔ 
”ہم فدیہ میں کچھ رعایت چاہتے ہیں “…خالد کے بھائی ہشام نے اس مسلمان سے کہا …”تم لوگ آخر ہم میں سے ہو، کچھ پرانے رشتوں کا خیال کرو “
”اب ہم تم میں سے نہیں ہیں“…مسلمان نے کہا…”ہم اللہ کے رسول کے حکم کے پابند ہیں۔
”کیا ہم تمہارے رسول سے بات کرسکتے ہیں؟“…ہشام نے پوچھا ۔ 
”ہشام!“…خالد نے گرج کر کہا …”میں اپنے بھائی کو اپنے وقار پرقربان کرچکا تھا مگر تم مجھے ساتھ لے آئے۔ یہ جتنا مانگتے ہیں اتنا ہی دے دو ۔ میں محمد کے سامنے جاکر رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا “
اس نے درہموں سے بھری ہوئی تھیلیاں مسلمان کے آگے پھینک کر کہا۔ گن لو اور ہمارا بھائی ہمارے حوالے کردو۔
 
رقم گنی جاچکی تو ولید کو خالد اور ہشام کے حوالے کردیا گیا۔ تینوں بھائی اسی وقت مکہ کو روانہ ہوگئے ۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ولید سے پوچھا کہ ان کی شکست کا باعث کیا تھا ۔ انہیں توقع تھی کہ ولید جو ایک جنگجو خاندان کا جوان تھا۔ انہیں جنگی فہم و فراست اور حرب و ضرب کے طورطریقوں کے مطابق مسلمانوں کی جنگی چالوں کی خوبیاں اور اپنی خامیاں بتائے گا مگر ولید کا انداز ایسا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس پر کوئی پراسرار اثر ہو ۔
 
”ولید کچھ تو بتاؤ “…خالد نے اس سے پوچھا …”ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے ۔ قریش کے تمام سردار اگلی جنگ میں شامل ہورہے ہیں۔ ہم ارد گرد کے قبائل کو بھی ساتھ ملارہے ہیں اور وہ مکہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں “
”سارے عرب کو اکٹھا کرلو خالد!“…ولید نے کہا …”تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکوں گے ۔ میں نہیں بتاسکتا کہ محمد کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا ان کا نیا عقیدہ سچا یا کیا بات ہے کہ میں نے ان کا قیدی ہوتے ہوئے بھی انہیں ناپسند نہیں کیا “
”پھر تم اپنے قبیلے کے غدار ہو “…ہشام نے کہا …”غدار ہو یا تم پر ان کا جادو اثر کرگیا ہے۔
وہ یہودی پیشوا ٹھیک کہتا تھا کہ محمد کے پاس کوئی نیا عقیدہ اور نیا مذہب نہیں۔اس کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے “
”جادو ہی تھا ورنہ بدر میں قریش شکست کھانے والے نہیں تھے “…خالد نے کہا ۔ 
ولید جیسے ان کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور وہ مڑ مڑ کر مدینے کی طرف دیکھتا تھا ۔ مدینے سے کچھ دور ذی الحلیفہ نام کی ایک جگہ ہوا کرتی تھی ۔
تینوں بھائی وہاں پہنچے تو رات گہری ہوچکی تھی ۔ رات گزارنے کے لیے وہ وہیں رک گئے ۔ 
صبح آنکھ کھلی تو ولید غائب تھا۔ اس کا گھوڑا بھی نہیں تھا ۔ خالد اور ہشام سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ ولید واپس مدینے چلا گیا ہے ۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ اس پر کوئی اثر تھا ۔ یہ اثر مسلمانوں کا ہی ہوسکتا تھا۔ دونوں بھائی مکہ آگئے۔ چند دنوں بعد انہیں مدینہ سے ولید کا زبانی پیغام ملا کہ اس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا رسول تسلیم کرلیا ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔
 
مورخین لکھتے ہیں کہ ولید بن الولید رسول اکرم کے منطور نظر رہے اور انہوں نے مذہب میں بھی اور کفار کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی نام پیدا کیا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط