قریش نے جب رسول اکرم کے فدائین کی شجاعت کا یہ عالم دیکھا تو کچھ پیچھے ہٹ کر ان پر تیروں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی برسانے لگے ۔ اس کے ساتھ ہی قریش کے چند ایک گھوڑ سوار سرپٹ گھوڑے دوڑاتے آپ پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن آپ کے ساتھیوں کے تیر ان کے جسموں میں اتر کر انہیں واپس چلے جانے پر مجبور کردیتے تھے ۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے قریش نے چاروں طرف سے تیروں اور پتھرو ں کا مینہ برسادیا۔
خالد کو عکرمہ نے بتایا تھا کہ ابو دجانہ رسول اکرم کے آگے جاکھڑے ہوئے۔ ان کی پیٹھ دشمن کی طرف تھی۔ ابو دجانہ بیک وقت دو کام کر رہے تھے ۔ ایک یہ کہ وہ اپنے تیر سعد بن ابی وقاص کو دیتے جارہے تھے اور سعد بڑی تیزی سے تیر چلارہے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ابودجانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
(جاری ہے)
تیروں اور پتھروں کی بارش میں کوئی نہ دیکھ سکا کہ ابودجانہ رضی اللہ عنہ کس حال میں ہیں۔ جب ابودجانہ رضی اللہ عنہ گرپڑے تو اس وقت دیکھا کہ ان کی پیٹھ میں اتنے تیر اترگئے تھے کہ ان کی پیٹھ خارپشت کی پیٹھ لگتی تھی ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لیے آپ کے کئی ساتھیوں نے جان دے دی لیکن عکرمہ اور اس کے گھوڑ سواروں اور پیادوں پر اتنی دہشت طاری ہوچکی تھی کہ وہ پیچھے ہٹ گئے۔
قریش تھک بھی گئے تھے۔ رسول کریم نے اپنے ساتھیوں کا جائزہ لیا۔ ہر طرف خون ہی خون تھا لیکن زخمیوں کو اٹھانے اور مرہم پٹی کرنے کا موقع نہ تھا ۔ دشمن ایک اور ہلہ بولنے کے لیے پیچھے ہٹا تھا ۔
”مجھے قریش کے ایک اور آدمی کا انتظار ہے “…رسول اکرم نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔
”کون ہے وہ یارسول اللہ !“…آپ کے ایک صحابی نے پوچھا …”کیا وہ ہماری مدد کو آرہا ہے ؟“
”نہیں“…آپ نے فرمایا …”وہ مجھے قتل کرنے آئے گا ۔
اسے اب تک آجانا چاہیے تھا ۔ “
”لیکن وہ ہے کون ؟“
”ابی بن خلف“آپ نے فرمایا ۔
ابی بن خلف رسول اکرم کے کٹر مخالفین میں سے تھا ۔ وہ مدینے کا رہنے والا تھا ۔ اسے جب پتہ چلا کہ رسول اللہ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ایک روز وہ آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کا مذاق اڑایا ۔ آپ نے تحمل اور بردباری سے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔
”کیا تم مجھے اتنا کمزور سمجھتے ہو کہ میں تمہارے اس بے بنیاد عقیدے کو قبول کرلوں گا“…ابی بن خلف نے گستاخانہ لہجے میں کہا تھا …”میری بات غور سے سن لے محمد!کسی روز میرا گھوڑا دیکھ لینا۔ اسے میں اس وقت کے لیے موٹا تازہ کر رہا ہوں جب تم قریش کو پھر کبھی جنگ کے لیے للکارو گے ۔ اب بدر کے خواب دیکھنے چھوڑ دو۔ میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور تم مجھے میدان جنگ میں اپنے سامنے دیکھو گے اور میں اپنے دیوتاؤں کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا “
”اُبی!“رسول خد ا نے مسکرا کر کہا تھا …”زندگی اور موت اس اللہ کے اختیار میں ہے جس نے مجھے نبوت عطا فرمائی ہے اور مجھے گمراہ لوگوں کو سیدھے راستے پر لانے کا فرض سونپا ہے ۔
ایسی بات منہ سے نہ نکالو جسے میرے اللہ کے سوا کوئی بھی پورا نہ کرسکے۔ یوں بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے آؤ اور تم میرے ہاتھوں قتل ہوجاؤ“
اُبی بن خلف رسول اللہ کی اس بات پر طنزیہ ہنسی ہنس پڑا اور ہنستا ہوا چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب احد کے معرکے میں رسول خدا کو ابی بن خلف یاد آگیا ۔ جوں ہی آپ نے اس کا نام لیا تو دور سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا ایا۔
سب نے ادھر دیکھا ۔
”میرے عزیز ساتھیو!,“…رسول اکرم نے اپنے ساتھیوں سے کہا …”مجھے کچھ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ سوار جو ہماری طرف بڑھتا آرہا ہے ابی ہی ہوگا ۔ اگر وہ ابی ہی ہوا تو اسے روکنا نہیں اسے میرے سامنے اور میرے قریب آنے دینا “
مورخین واقدی، مغازی اور ابن ہشام نے لکھا ہے کہ وہ سوار ابی بن خلف ہی تھا۔ اس نے للکار کر کہا …”سنبھل جا محمد ! ابی آگیا ہے ۔
یہ دیکھ میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں جو تمہیں دکھایا تھا ۔ “
”یا رسول اللہ !“…رسول اللہ کے ساتھیوں میں سے تین چار نے آگے ہوکر کہا …”ہمیں اجازت دیں کہ اسے آپ کے قریب آنے تک ختم کردیں“
”نہیں“…رسول اکرم نے کہا …”اسے آنے دو ، میرے قریب آنے دو …اسے راستہ دے دو“
رسول کریم کے سر پر زنجیروں والی خود تھی۔ اس کی زنجیریں آپ کے چہرے کے آگے اور دائیں بائیں لٹک رہی تھیں۔
آپ کے ہاتھ میں برچھی تھی اور تلوار نیام میں تھی ۔ ابی کا گھوڑا قریب آگیا تھا ۔
”آگے آجا ابی!“…رسول خدا نے للکار کر کہا …”میرے سوا تیرے ساتھ کوئی نہیں لڑے گا “
ابی بن خلف نے اپنا گھوڑا قریب آکر روکا اور طنزیہ قہقہہ لگایا۔ اسے شاید پورا یقین تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردے گا۔ اس کی تلوار بھی نیام میں تھی۔
آپ اس کے قریب چلے گئے ۔ وہ بڑے طاقت ور گھوڑے پر تھا اور آپ زمین پر ۔ اس نے ابھی تلوار نکالی ہی تھی کہ آپ نے آگے بڑھ کر اور اچھل کر اس پر برچھی کا وار کیا۔ وہ وار بچانے کے لیے ایک طرف جھک گیا لیکن وار خالی نہ گیا۔ آپ کی برچھی کی انی اس کے دائیں کندھے پر ہنسلی کی ہڈی سے نیچے لگی۔ وہ گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی پسلی ٹوٹ گئی ۔
مورخ لکھتے ہیں کہ رسول خدا کا وار اتنا کاری نہ تھا کہ ابی جیسا قوی ہیکل آدمی اٹھ نہ سکتا۔
رسول خدا اس پر دوسرا وار کرنے کو دوڑے۔ وہ گھوڑے کے دوسری طرف گرا تھا۔ اس پر شاید دہشت طاری ہوگئی تھی یا آپ کا وار اس کے لیے غیر متوقع تھا ۔ وہ اٹھا اور اپنا گھوڑا وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ وہ چلاتا جارہا تھا …”محمد نے مجھے قتل کردیا ہے …اے اہل قریش، محمد نے مجھے قتل کرڈالا ہے “
قریش کے کچھ آدمیوں نے اس کے زخم دیکھے تو اسے تسلی دی کہ اسے کسی نے قتل نہیں کیا۔
زخم بالکل معمولی ہیں لیکن اس پر نہ جانے کیسی کیفیت طاری ہوگئی تھی کہ اس کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے …”میں زندہ نہیں رہوں گا ، محمد نے کہا تھا کہ میں اس کے ہاتھوں قتل ہوجاؤں گا“
مورخ ابن ہشام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ابی نے یہ الفاظ بھی کہے تھے …”اگر محمد مجھ پر صرف تھوک دیتا تو بھی میں زندہ نہ رہ سکتا “…جب احد کا معرکہ ختم ہوگیا تو ابی قریش کے ساتھ مکہ کو روانہ ہوا۔ راستے میں انہوں نے پڑاؤ کیا تو ابی مرگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔