خدام کچھ اور کہنے ہی لگا تھا کہ باغ میں کام کرتے ہوئے لوگوں میں ہڑبونگ سی مچ گئی ۔ تین چار آدمیوں نے خدام کو پکارا۔ زہرہ اٹھی اور وہیں سے پودوں میں غائب ہوگئی خدام نے اٹھ کر دیکھا۔ کچھ دور پرے ایرانی کماندار شمر اپنے گھوڑے پر سوار آرہا تھا ۔ اس نے دور سے ہی کہا تھا کہ خدام کو اس کے پاس بھیجا جائے ۔ خدام آہستہ آہستہ چلتا شمر کی طرف گیا ۔
”تیز چلو!“…شمر نے گھوڑا روک کر دور سے کہا ۔
خدام نے اپنی چال نہ بدلی۔ شمر نے ایک بار پھر گرج کر اسے تیز چلنے کو کہا۔ خدام اپنی ہی رفتار چلتا رہا۔ شمر گھوڑے سے کود کر اترا اور کولہوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ باغ میں کام کرتے ہوئے مسلمان دم بخود دیکھتے رہے۔ انہیں معلوم تھا کہ شمر خدام کی ہڈی پسلی ایک کردے گا لیکن خدام جب اس کے سامنے جارکا تو شمر نے ہاتھ بھی نہ اٹھایا۔
(جاری ہے)
”دیکھ کمینے انسان!“…شمر نے خدام سے حقارت کے لہجے میں کہا …”میں تمہارے باپ اور تمہاری جوانی پر رحم کرتا ہوں۔ آج کے بعد میں تمہیں اس لڑکی کے ساتھ نہ دیکھوں“
”اگر تم نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟“…خدام نے پوچھا۔
”پھر میں تمہارے منہ پر ایک دو تھپڑ نہیں ماروں گا “…شمر نے کہا…”تمہیں درخت کے ساتھ الٹا لٹکادوں گا۔
جاؤ میری نظروں سے دور ہوجاؤ “
شمر گھوڑے پر سوار ہوا اور چلا گیا ۔ خدام وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا ۔
”خدام!“…اسے کسی نے بلایا اور کہا …”ادھر آجاؤ“…پھر اسے تین چار آدمیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ …”آجاؤ خدام، آجاؤ “
وہ پیچھے مڑا اور لوگوں کے پاس جارکا۔ سب اسے پوچھنے لگے کہ شمر نے کیا کہا تھا ۔ خدام نے انہیں بتایا۔
سب جانتے تھے کہ خدام کا جرم کیا ہے ۔ اگر یہ مسلمان آزاد ہوتے ان کی اپنی حکومت ہوتی اور یہ معاشرہ ان کا اپنا ہوتا تو وہ خدام کو برا بھلا کہتے کہ وہ کسی کی نوجوان بیٹی کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھا لیکن وہاں صورت مختلف تھی ۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ خدام برے چال چلن کا نوجوان نہیں ۔ اس مظلومیت میں بھی مسلمان متحد تھے لیکن باغ میں کام کرنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ آتش پرست ادھر کیا لینے آیا تھا ۔
”اسے ادھر لایا گیا تھا “…ایک نے کہا …”اور لانے والا کوئی ہم میں سے ہی تھا “
”معلوم کرو وہ کون ہوسکتا ہے “…ایک بوڑھے نے کہا …”یہاں سوال ایک لڑکی اور لڑکے کا نہیں۔ یہ ظالم اور مظلوم کا معاملہ ہے ۔ یہ ہماری آزادی اور خودداری کا معاملہ ہے ۔ آج اگر اس شخص نے اس ذرا سی بات پر مخبری کی ہے تو کل وہ بہت بڑی غداری کرسکتا ہے “
سب پر خاموشی طاری ہوگئی ۔
ایک ادھیڑ عمر عورت نے جو ان آدمیوں کے پیچھے کھڑی تھی بول پڑی ۔
”میں بتاتی ہوں وہ کون ہے “…اس عورت نے کہا اور ان آدمیوں میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی کی طرف دیکھنے لگی۔ عورت نے ہاتھ لمبا کرکے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا …”ابو نصر! تم وہاں اس ٹیکری کے پیچھے کھڑے کیا کر رہے تھے“
ابونصر کے ہونٹ ہلے لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا۔
اسی سے سب سمجھ گئے کہ یہ شخص آتش پرستوں کا مخبر ہے ۔ اس نے آخر اس الزام کو تسلیم نہ کیا۔
”میں تمہیں دیکھ رہی تھی “…اس عورت نے کہا …”تم ٹیکری کے پیچھے غائب ہوگئے اور وہاں سے شمر نکلا “
”دیکھ ابونصر!“…ایک بوڑھے نے کہا …”ہمیں کوئی ڈر نہیں کہ اب تم شمر کو یہ بھی جاکر بتاؤ گے کہ ہم نے تمہیں مخبر اور غدار کہا ہے یہ سوچ لو کہ آتش پرست تمہیں گلے نہیں لگائیں گے وہ کہتے ہوں گے تم ان کے غلام ہو اور اپنی قوم کے خلاف مخبری اور غداری تمہارا فرض ہے “
ابونصر نے سرجھکالیا۔
اس پر طعنوں اور گالیوں کے تیر برسنے لگے جس کے منہ میں جو آیا اس نے کہا آخر ابونصر نے سر اٹھایا۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے دھلا ہوا تھا اور آنسو بہے چلے جارہے تھے ندامت کے یہ آنسو دیکھ کر سب خاموش ہوگئے ۔
”تمہیں آخر کتنا انعام ملتا ہوگا؟“…ان کے ایک بزرگ نے کہا ۔
”کچھ بھی نہیں “…ابونصر نے سسکی لینے کے انداز میں کہا …”میں نے یہ پہلی مخبری کی ہے اگر تم لوگ مجھے موت کی سزا دینا چاہو تو مجھے قبول ہے “
”ہم پوچھتے ہیں ، کیوں؟“…ایک نے کہا …”آخر تم نے یہ حرکت کیوں کی ؟“
”میری مجبوری“…ابونصر نے جواب دیا …”پرسوں کی بات ہے اس کماندار نے مجھے راستے میں روک کر کہا تھا کہ میں زہرہ کے گھر پر نظر رکھوں اس کا مطلب یہ تھا کہ میں دیکھتا رہوں کہ زہرہ گھر سے بھاگ نہ جائے اور اسے کسی جوان آدمی کے ساتھ الگ تھلگ کھڑا دیکھوں تو اسے اطلاع دوں…میں نے اسے کہا کہ میں اس لڑکی پر نظر رکھوں گا ، لیکن میری دو بیٹیوں پر کون نظر رکھے گا میں نے کہا کہ شاہی فوج کے کماندار اور سپاہی ہماری بیٹیوں کو بری نظر سے دیکھتے ہیں…“
”شمر میری بات سمجھ گیا۔
اس نے کہا کہ تمہاری بیٹیوں کو کوئی شاہی فوجی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا ۔ اس نے میرے ساتھ پکا وعدہ کیا کہ وہ میری بیٹیوں کی حفاظت کا پکا انتظام کردے گا …یہ میرے لیے بہت بڑا انعام تھا “
”خدا کی قسم !“…بوڑھے نے کہا…”تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں مسلمان کہا جائے ۔ تم نے اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کیلئے اپنے بھائی کی بیٹی کی عزت کا خیال نہ کیا “
”تجھ پر خدا کی لعنت ہو ابونصر!“…ایک اور بولا …”تو جانتا ہے کہ ان آتش پرستوں کے وعدے کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔
ان میں تمہیں ایک بھی نہیں ملے گا جو کسی مسلمان سے وفا کرے گا“
”اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کے لیے ہم خود موجود ہیں۔“…ایک اور نے کہا …”تمہاری بیٹیاں ہماری بیٹیاں ہیں “
”میں اسے معاف کرتا ہوں “…زہرہ کے باپ سعود نے کہا ۔
”اور میں بھی اسے معاف کرتا ہوں “…خدام بولا …”خدا کی قسم! میں شمر سے انتقام لوں گا“
”جوش میں مت آلڑکے“…بزرگ عرب نے کہا …”کچھ کرنا ہے تو کرکے دکھا اور یہ بھی یاد رکھ کہ جوش میں آکر مت بول۔
دماغ کو ٹھنڈا کرکے سوچ “
دوسری صبح جب یہ مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کے لیے گئے تو ان میں خدام نہیں تھا۔ ہر کسی نے خدام کے باپ سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے باپ پریشان تھا اسے صبح پتہ چلا تھا کہ خدام غائب ہے
”زرتشت کے یہ پجاری میرے بیٹے کو کھاگئے ہیں “…خدام کے باپ نے روتے ہوئے کہا …”اسے انہوں نے کسی طرح دھوکے سے بلایا ہوگا اور قتل کرکے لاش دریا میں بہادی ہوگی “
سب کا یہی خیال تھا۔
صرف زہرہ تھی جسے امید تھی کہ خدام خود کہیں چلا گیا ہوگا۔ اس نے زہرہ کو بتایا تھا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے غائب ہوجائے گا ۔ زہرہ نے یہ بات کسی کو نہ بتائی بلکہ اس نے بھی یہی کہا کہ خدام کو ایرانیوں نے غائب کردیا ہے ۔ زہرہ نے اپنی سہیلیوں سے کہا کہ وہ دو تین روز ہی خدام کا انتظار کرے گی ۔ وہ نہ آیا تو وہ دریا میں ڈوب مرے گی ۔
###