Episode 56 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 56 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

۲۰ رمضان المبارک ۸ہجری(۱۱جنوری ۶۳۰عیسوی) کا دن تھا ۔ اسلامی لشکر کے تین حصے اپنے راستوں سے گزر کر مکہ میں داخل ہوگئے ۔کسی طرف سے ان پر ایک تیر بھی نہ آیا۔ شہر کا کوئی دفاع نہ تھا۔ قریش کی کوئی تلوار نیام سے نہ نکلی۔ لوگ گھروں میں بند رہے ۔ کسی کسی مکان کی چھت پر کوئی عورت یا بچے کھڑے نظر آتے تھے ۔ مسلمان چوکنے تھے ۔ شہر کا سکوت مشکوک اور ڈراؤنا تھا۔
ایسے لگتا تھا جیسے اس سکوت سے طوفان اٹھنے والا ۔ 
شہر سے کوئی طوفان نہ اٹھا۔ طوفان اٹھانے والے دو آدمی تھی ۔ ایک عکرمہ اور دوسرا صفوان ۔ دونوں شہر میں نہیں تھے ۔ کئی اور آدمی شہر میں نہیں تھے ۔ وہ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے تھے ۔ وہ رات کو باہر نکل گئے تھے۔ ان کے ساتھ تیر انداز بھی تھے۔ یہ ایک جیش تھا جو اس پہاڑی راستے کے قریب جاپہنچا تھا جو خالد کے دستے کی پیش قدمی کا راستہ تھا۔

(جاری ہے)

عکرمہ اور صفوان کو معلوم نہیں تھا کہ اس اسلامی دستے کے قائد خالد ہیں۔ عکرمہ اور صفوان کا ایک آدمی کہیں بلندی پر تھا ۔ اس نے خالد کو پہچان لیا اور اوپر سے دوڑتا نیچے گیا ۔ 
”اے صفوان!“…اس آدمی نے صفوان سے کہا …”کیا تو ہمیں اجازت دے گا کہ تیری بیوی کے بھائی کو ہم قتل کردیں…میری آنکھیں دھوکہ نہیں کھاسکتیں۔ میں نے خالد رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے “
”اپنے قبیلے کی عزت اور غیرت سے بڑھ کر مجھے کوئی اور عزیز نہیں “…صفوان نے کہا …”اگر خالد میری بہن کا خاوند ہوتا تو آج میں اپنی بہن کو بیوہ کردیتا “
”مت دیکھو کون کس کا بھائی، کس کا باپ اور کس کا خاوند ہے “…عکرمہ نے کہا …”خالد میرا بھی کچھ لگتا ہے لیکن آج وہ میرا دشمن ہے “
خالد رضی اللہ عنہ کا دستہ اور آگے آیا تو اس پر تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی ۔
خالد نے اپنے دستے کو روک لیا ۔ 
”اے اہل قریش !“خالد نے بڑی بلند آواز سے کہا …”ہمیں راستے دے دو گے تو محفوظ رہو گے ۔ ہمارے رسول کا حکم ہے کہ اس پر ہاتھ نہ اٹھانا جو تم پر ہاتھ نہیں اٹھاتا…کیا تمہیں اپنی جانیں عزیز نہیں…میں تمہیں صرف ایک موقع دوں گا“
تیروں کی ایک اور بوچھاڑ آئی ۔ 
”ہم تیرے رسول کے حکم کے پابند نہیں خالدرضی اللہ عنہ “…عکرمہ نے للکار کر کہا …”ہمت کرو اور آگے آؤ ہم ہیں تمہارے پرانے دوست…صفوان اور عکرمہ…تو مکہ میں زندہ داخل نہیں ہوسکے گا “
خالد نے تیروں کی دوسری بوچھاڑ سے معلوم کرلیا تھا کہ دشمن کہاں ہے ۔
خالد نے اپنے دستے کو روک کر پیچھے ہٹالیا اور اپنے کچھ آدمیوں کو پہاڑیوں کے اوپر سے آگے بڑھنے اور تیر اندازوں پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا۔ عکرمہ اور صفوان خالد کے ان آدمیوں کو نہ دیکھ سکے۔ 
تھوڑی سی دیر میں یہ آدمی دشمن کے سر پر جاپہنچے۔ وادی سے خالد نے ہلہ بول دیا جو اس قدر تیز اور شدید تھا کہ قریش کے پاؤں اکھڑ گئے۔ خالد نے اوپر سے بھی حملہ کرایا تھا اور نیچے سے بھی ۔
 
”کہاں ہو عکرمہ!“…خالد للکار رہے تھے …”کہاں ہو صفوان“
وہ دونوں کہیں بھی نہیں تھے ۔ وہ خالد کے ہلے کی تاب نہ لاسکے اور خالد رضی اللہ عنہ کو نظر آئے بغیر کہیں بھاگ گئے ۔ ان کا جیش بھی لاپتہ ہوگیا۔ پیچھے قریش کی بارہ لاشیں رہ گئیں۔ مختصر سی اس جھڑپ میں دو مسلمان…جیش بن اشعر اور کوز بن جابر فہری …شہید ہوئے 
###
اسلامی فوج کے تین حصے مکہ میں داخل ہوچکے تھے ۔
خالد رضی اللہ عنہ کا دستہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔ سب حیران تھے کہ اہل مکہ نے مزاحمت نہیں کی پھر خالد کے نہ آنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ۔ ایک قاصد کو دوڑایا گیا ۔ وہ خبر لایا کہ خالد دو مسلمانوں کی لاشیں لے کر آرہا ہے اور اس کے دستے نے قریش کے بارہ آدمی مار ڈالے ہیں۔ رسول کریم نے سنا تو آپ بہت برہم ہوئے۔ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ خالد جنگ و جدل کا دلدادہ ہے اس نے بغیر اشتعال کے لڑائی مول لے لی ہوگی ۔
 
خالد کے مکہ میں آنے کی اطلاع ملی تو رسول اللہ نے انہیں بلا کر پوچھا کہ اس حکم کے باوجود کہ لڑائی سے گریز کیا جائے انہوں نے قریش کے بارہ آدمیوں کو کیوں مار ڈالا ؟
خالد  نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان کے ساتھ قریش کے متعدد آدمی تھے جنہوں نے ان پر تیر برسائے۔ خالد نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے عکرمہ اور صفوان کو ایک موقع دیا تھا لیکن انہوں نے تیروں کی ایک اور بوچھاڑ پھینک دی۔
 
رسول خدا نے ابوسفیان سے پوچھا کہ عکرمہ اور صفوان کہاں ہیں۔ ابوسفیان نے بتایا کہ وہ مکہ کے دفاع میں لڑنے کے لیے چلے گئے تھے ۔ رسول خدا کو یقین ہوگیا کہ لڑائی خالد نے شروع نہیں کی تھی ۔ 
مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا ۔ 
رسول اکرم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے ہمراہ اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ تھے۔ 
رسول کریم کو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو گئے سات سال گزر چکے تھے ۔
آپ نے مکہ کے درودیوار کو دیکھا۔ وہاں کے لوگوں کو دیکھا۔ دروازوں اور چھتوں پر کھڑی عورتوں کو دیکھا ۔ بہت سے چہرے شناسا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرتے چلے گئے اور کعبہ میں داخل ہوئے سات مرتبہ بیت اللہ کا طواف کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اب مکہ میں کسی کو اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہے یا آپ پر پھبتی کسے۔
 
اہل قریش چہروں پر خوف وہراس کے تاثرات لیے اپنے انجام کے منتظر کھڑے تھے ۔ عربوں کے ہاں اپنی بے عزتی اور قتل کے انتقام کا رواج بڑا بھیانک تھا۔ رسول اللہ نے حکم دے دیا تھا کہ جو امن قائم رکھیں گے ان کے ساتھ پرامن سلوک کیا جائے گا ۔ اس کے باوجود قریش ڈرے سہمے ہوئے تھے ۔ 
”اہل قریش!“…حضور اکرم نے لوگوں کے سامنے رک کر پوچھا …”خود بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو “
لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔
وہ خیر اور بخشش کے طلب گار تھے ۔ 
”اپنے گھروں کو جاؤں “…حضور اکرم نے کہا …”ہم نے تمہیں بخش دیا “
رسول اللہ کی حیات مقدسہ کی عظیم گھڑی تو وہ تھی جب آپ نے کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کی طرف توجہ دی ۔ بتوں کی تعداد تین سو ساٹھ تھی ۔ ان میں ایک بت حضرت ابراہیم کا بھی تھا۔ اس بت کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ ان تیروں سے بت خانے کے پیشوا فال نکالا کرتے تھے ۔
 
حضور اکرم کے ہاتھ میں ایک موٹی اور مضبوط لاٹھی تھی ۔ آپ نے اس لاٹھی سے بت توڑنے شروع کردیے …آپ اپنے جدا امجد حضرت ابراہیم علیہ السام کی سنت کو زندہ کر رہے تھے …آپ بت توڑتے جاتے اور بلند آواز سے کہتے جاتے …”حق آیا، باطل چلا گیا …بیشک باطل کو چلے جانا تھا “…مورخ لکھتے ہیں کہ ایسے لگتا تھا جیسے یہ صدائیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لاٹھی کی ہر ضرب سے کعبہ کی دیواروں سے اٹھ رہی ہوں۔
کعبہ سے بتوں کے ٹکڑے اٹھا کر باہر پھینک دیے گئے اور کعبہ عالم اسلام کی عبادت گاہ بن گیا ۔ 
اس کے بعد آپ نے مکہ کے انتظامی امور کی طرف توجہ دی ۔ قریش اور دیگر قبائل کے لوگ قبول اسلام کے لیے آتے رہے۔ 
بت صرف کعبہ میں ہی نہیں تھے۔ مکہ کے گردونواح کی بستیوں میں مندر تھے ، وہاں بھی بت رکھے تھے سب سے اہم بت عزیٰ کا تھا جو چند میل دور نخلہ کے مندر میں رکھا گیا تھا۔
رسول اکرم نے عزیٰ کا بت توڑنے کا کام خالد کے سپرد کیا۔ خالد نے اپنے ساتھ تیس سوار لیے اور اس مہم پر روانہ ہوگئے ۔ دوسرے مندروں کے بت توڑنے کے لیے مختلف جیش روانہ کیے گئے تھے ۔ 
عزیٰ کا بت اکیلا نہیں تھا چونکہ یہ دیوی تھی اس لیے اس کے ساتھ چھوٹی دیویوں کے بت بھی تھے۔ خالد وہاں پہنچے تو مندر کا پروہت ان کے سامنے آگیا۔ اس نے التجا کی کہ ان کے بت نہ توڑے جائیں ۔
 
”مجھے عزیٰ کا بت دکھاؤ “…خالد نے نیام سے تلوار نکال کر پروہت سے پوچھا ۔ 
پروہت موت کے خوف سے مندر کے ایک بغلی دروازے میں داخل ہوگیا۔ خالد اس کے پیچھے گئے ۔ ایک کمرے سے گزر کر اگلے کمرے میں گئے تو وہاں ایک دیوی کا بڑا ہی خوبصورت بت چبوترے پر رکھا تھا ۔ پروہت نے بت کی طرف اشارہ کیا اور بت کے آگے فرش پر لیٹ گیا ۔ مندر کی داسیاں بھی آگئی۔
خالد نے تلوار سے اس حسین دیوی کا بت توڑ ڈالا اور اپنے سواروں سے کہا کہ بت کے ٹکڑے باہر بکھردیں۔ 
پروہٹ دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا اور داسیاں بین کر رہی تھیں۔ 
خالد نے دیویوں کے بت بھی توڑ ڈالے اور گرج کر پروہت سے کہا …”کیا ب بھی تم اسے دیوی مانتے ہو جو اپنے آپ کو ایک انسان سے نہیں بچاسکی ؟“
پروہت دھاڑیں مارتا رہا۔
خالد فاتحانہ انداز سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے سواروں کو واپسی کا حکم دیا۔ جب خالد اپنے تیس سواروں کے ساتھ مندر سے دور چلے گئے تو پروہت نے جو دھاڑیں مار رہا تھا، بڑی زور سے قہقہہ لگایا، پجارنیں جو بین کر رہی تھیں، وہ بھی ہنسنے لگیں۔ 
”عزیٰ کی توہین کوئی نہیں کرسکتا “…پروہت نے کہا …”خالد جو خود عزیٰ کا پجاری ہوا کرتا تھا ، بہت خوش ہوکے گیا ہے کہ اس نے عزیٰ کا بت توڑ ڈالا ہے …عزیٰ زندہ ہے ۔ زندہ رہے گی “
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط