ایک بستی میں لڑنے والے عیسائی جمع ہورہے تھے ۔ بستی میں مشعلیں گھوم پھر رہی تھیں اور شور تھا دو آدمی جو اس بستی والوں کے لیے اجنبی تھے بستی میں داخل ہوئے اور لوگوں میں شامل ہوگئے ۔
”ہم ایک للکار سن کر آئے ہیں “…ان میں سے ایک نے کہا…”ہم روزگار کی تلاش میں بڑی دور سے آئے ہیں “اور شاید مدائن تک چلے جائیں ۔ یہ کیا ہورہا ہے ؟
”تم ہو کون ؟“…کسی نے ان سے پوچھا …”مذہب کیا ہے تمہارا؟“
دونوں نے اپنی اپنی شہادت کی انگلیاں باری باری اپنے دونوں کندھوں سے لگائیں پھر اپنے سینے پر انگلیاں اوپر نیچے کرکے صلیب کا نشان بنایا اور دونوں نے بیک زبان کہا کہ وہ عیسائی ہیں ۔
”پھر تم مدائن جاکر کیا کرو گے “…انہیں ایک بوڑھے نے کہا …”تم تنومند ہو ۔
(جاری ہے)
تمہارے جسموں میں طاقت ہے ۔ کیا تم اپنے آپ کو کنواری مریم کی آبرو پر قربان ہونے کے قابل نہیں سمجھتے ؟کیا تمہارے لیے تمہارا پیٹ مقدس ہے “
”نہیں“…ان میں سے ایک نے کہا…”ہمیں کچھ بتاؤ اور تم میں جو سب سے زیادہ سیانا ہے ہمیں اس سے ملاؤ ہم کچھ بتانا چاہتے ہیں “
###
وہاں فارس کی فوج کا ایک پرانا کماندار موجود تھا۔
ان دونوں کو اس کے پاس لے گئے ۔
”سنا ہے تم کچھ بتانا چاہتے ہو “…کماندار نے کہا
”ہاں!“…ایک نے کہا …”ہم اپنا راستہ چھوڑ کر ادھر آئے ہیں ۔ سنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک فوج تیار ہورہی ہے “
”ہاں ہورہی ہے “…کماندار نے کہا…”کیا تم اس فوج میں شامل ہونے آئے ہو ؟“
”عیسائی ہو کر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس فوج میں شامل نہیں ہوں گے “…ان میں سے ایک نے کہا …”ہم کاظمہ سے تھوڑی دور کی ایک بستی کے رہنے والے عرب ہیں۔
ہم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ اب آگے نہیں جائیں گے تمہارے ساتھ رہیں گے ۔ ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن سامنے وہ بہت تھوڑی تعداد کو لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری فوج ان سے شکست کھاجاتی ہے “
”اسے زمین پر لکیریں ڈال کر سمجھاؤ “…اس کے دوسرے ساتھی نے اسے کہا پھر ایرانی کماندار سے کہا …”ہمیں معمولی آدمی نہ سمجھنا ۔
ہم تمہیں اچھی طرح سمجھادیں گے کہ مسلمانوں کے لڑنے کا طریقہ کیا ہے اور وہ اس وقت کہاں ہیں ۔ اور تم لوگ انہیں کہاں لاکر لڑاؤ تو انہیں شکست دے سکتے ہو ہم جو کچھ بتائیں یہ اپنے سالار کو بتادینا “
ایک مشعل لاکر اس کا ڈنڈہ زمین میں گاڑ دیا گیا ۔ یہ دونوں آدمی زمین پر بیٹھ کر انگلیوں سے لکیریں ڈالنے لگے۔ انہوں نے جنگی اصطلاحوں میں ایسا نقشہ پیش کیا کہ کماندار بہت متاثر ہوا ۔
”اگر ہمیں پتہ چل جائے کہ مدائن کی فوج کس طرف سے آرہی ہے تو ہم تمہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں“…ان میں سے ایک نہ کہا …”اور کچھ خطروں سے بھی خبردار کرسکتے ہو “
”دو فوجیں مسلمانوں کو کچلنے کے لیے آرہی ہیں “…کماندار نے کہا …”مسلمان ان کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گے“
”بشرطیکہ دونوں فوجیں مختلف سمتوں سے آتیں“…ایک اجنبی عیسائی نے کہا ۔
”وہ مختلف سمتوں سے آرہی ہیں “…کماندار نے کہا …”ایک فوج مدائن سے ہمارے بڑے ہی دلیر اور قابل سالار اندرزرغر کی زیر کمان آرہی ہے اور دوسری فوج ایسے ہی ایک اور نامور سالار بہمن جاذویہ لارہا ہے ۔ دونوں دلجہ کے مقام پر اکٹھی ہوں گے ۔ اس کے ساتھ بکر بن وائل کا پورا قبیلہ ہوگا ۔ چند چھوٹے چھوٹے قبیلوں نے بھی اپنے آدمی دیے ہیں۔ “
”تو پھر تمہارے سالاروں کو جنگی چالیں چلنے کی ضرورت نہیں “…دوسرے نے کہا …”تمہاری فوج تو سیلاب کی مانند ہے مسلمان تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے …کیا تم ہم دونوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟ہم نے تم میں خاص قسم کی ذہانیت دیکھی ہے ۔
تم سالار نہیں تو نائب سالاری کے عہدے کے قابل ضرور ہو۔ “
”تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو “…کماندار نے کہا ۔
”ہم اپنے گھوڑے لے آئیں “…دونوں میں سے ایک نے کہا …”ہم تمہیں صبح یہیں ملیں گے “
”صبح کوچ ہورہا ہے “…کماندار نے کہا…”ان تمام لوگوں کو جو لڑنے کے لیے جارہے ہیں ایک جگہ جمع کیا جارہا ہے ۔ تم ان کیساتھ آجانا میں تمہیں مل جاؤں گا “
دونوں بستی سے نکل گئے۔
انہوں نے اپنے گھوڑے بستی سے کچھ دور ایک درخت کے ساتھ باندھ دیے اور بستی میں پیدل گئے تھے ۔ بستی سے نکلتے ہی وہ دوڑ پڑے اور اپنے گھوڑوں پر جاسوار ہوئے ۔
”کیا ہم صبح تک پہنچ سکیں گے بن آصف؟“…ایک نے دوسرے سے پوچھا ۔
”خدا کی قسم ہمیں پہنچنا پڑے گا ، خواہ اڑ کر پہنچیں“…بن آصف نے کہا …”یہ خبرا بن ولید رضی اللہ عنہ تک بروقت نہ پہنچی تو ہماری شکست لازمی ہے ۔
گھوڑے تھکے نہیں ہوئے ۔ اللہ کا نام لو اور ایڑ لگاؤ “
دونوں نے ایڑ لگائی اور گھوڑے دوڑ پڑے ۔
”اشعر!“…بن آصف نے بلند آواز سے اپنے ساتھی سے کہا …”یہ تو طوفان ہے ۔ اب آتش پرستوں کو شکست دینا آسان نہیں ہوگا ۔ صرف بکر بن وائل کی تعداد دیکھ لو۔ کئی ہزار ہوگی “
”میں نے اپنے سالار ابن ولید رضی اللہ عنہ کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تھا “…اشعر نے کہا ۔
”کیا تم اس کی پریشانی کو نہیں سمجھے اشعر !“…بن آصف نے کہا …”ہم اتنے طاقتور دشمن کے پیٹ میں آگئے ہیں “
”اللہ ہمارے ساتھ ہے “…اشعر نے کہا …”آتش پرست اس زمین کے لیے لڑ رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہے اور ہم اللہ کی راہ میں لڑ رہے ہیں جس کی یہ زمین ہے “
یہ دونوں گھوڑ سوار خالد کے اس جاسوسی نظام کے بڑے ذہین آدمی تھے جو خالد نے فارس کی سرحد کے اندر آکر قائم کیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ وہ مدینہ سے بہت دور اجنبی زمین پر آگئے ہیں جہاں اللہ کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ خالد نے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ہر طرف اپنے جاسوس بھیج دیے تھے۔
###