دستوں کو روانہ کردیا گیا اور خالد نے مجاعہ کو اپنے پاس بٹھالیا۔
”ابن مرارہ!“…خالد نے کہا …”مجھے تجھ پر اعتماد ہے اور میں تجھے اس اعتماد کے قابل سمجھتا ہوں ۔۔ جا اور اپنے سرداروں سے کہہ کہ ہم صلح کے لیے تیار ہیں لیکن شرط ہوگی کہ تمہارے ہتھیار ہمارے سامنے زمین پر پڑے ہوئے ہوں گے “
”میں اسی شرط پر صلح کرانے کی کوشش کروں گا “…مجاعہ نے کہا …”لیکن ابن ولید!اپنی فوج کی حالت دیکھ لے“
”میں مزید خون خرابے سے ہاتھ روکنا چاہتا ہوں “…خالد نے کہا …”کیا تو نہیں چاہے گا کہ تمہارے اور ہمارے جو آدمی زندہ ہیں وہ زندہ ہی رہیں؟اپنے قبیلے میں جاکر دیکھ۔
آج کتنے ہزار عورتیں بیوہ اور کتنے ہزار بچے یتیم ہوچکے ہیں اور یہ بھی سوچ کہ بنو حنفیہ کی کتنی ہی عورتیں ہماری لونڈیاں بن جائیں گی “
اس وقت کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ خالد کی یہ بات سن کر مجاعہ کے ہونٹوں پرایسی مسکراہٹ آگئی جس میں تمسخر یا طنز کی جھلک تھی ۔
(جاری ہے)
وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔
”میں جاتا ہوں “…مجاعہ نے کہا …”ابن ولید! تیری خواہش پوری کرنے کی پوری کوشش کروں گا “
خالد اپنے خیمے کی طرف چل پڑے۔
وہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتے چلے جارہے تھے ۔ لیلیٰ نے خالد رضی اللہ عنہ کو دور سے دیکھا اور دوڑی آئی ۔
”کیا تم نے اسے چھوڑ دیا ہے ؟“…لیلیٰ نے خالد سے پوچھا ۔
خالد نے اسے بتایا کہ انہوں نے مجاعہ کو کس مقصد کے لیے چھوڑا ہے ۔
”ابن ولید!“…لیلیٰ نے کہا …”اتنے انسانوں کا خون کس کی گردن پر ہوگا ؟میں نے اتنی زیادہ لاشیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
“
”جب تک انسانوں میں انسانوں کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے کی ذہنیت موجود رہے گی انسانوں کا خون بہتا رہے گا “…خالد نے کہا …”میں نے بھی اتنی لاشیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ آنے والا زمانہ اس سے زیادہ لاشیں دیکھے گا حق اور باطل آپس میں ٹکراتے رہیں گے …میں اسی لیے صلح کی کوشش کر رہا ہوں کہ اور خون نہ بہے …اس سے آگے نہ جانا۔ تم جو دیکھو گی اسے تم برداشت نہیں کرسکو گی “
آسمان سے گدھ اترنے لگے تھے اور انہوں نے لاشوں کو نوچنا شروع کردیا تھا ۔
کچھ مسلمان لاشوں کے درمیان اپنے زخمی ساتھیوں کو تلاش کرتے پھر رہے تھے ۔ انہیں اٹھا اٹھا کر خیمہ گاہ کی طرف لارہے تھے۔ باقی سپاہ بنو حنفیہ کے چھپے ہوئے آدمیوں کو پکڑنے کے لیے چلی گئی تھی ۔
####
رات کو خالد رضی اللہ عنہ کو اطلاعیں ملنے لگیں کہ بنو حنفیہ کے آدمیوں کو لارہے ہیں بعض کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے ۔ خالد نے حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کو سردی اور بھوک سے بچایا جائے لیکن خیمہ گاہ لٹ چکی تھی ۔
خوراک کی قلت تھی ۔ خالد نے کہا خود بھوکے رہو، قیدی عورتوں اور بچوں کے پیٹ بھرو ۔
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسلمان مجاہدین لاشوں سے کھجوروں وغیرہ کی تھیلیاں کھول کر لے آئے ۔ ہر سپاہی اپنے ساتھ کھانے پینے کا کچھ سامان رکھتا تھا ۔ یہ عورتوں اور بچوں کو دیا گیا ۔
علی الصبح مجاعہ یمامہ سے واپس آیا اور خالد کے خیمے میں گیا ۔
”کیا خبر لائے ہو ابن مرارہ!“…خالد نے پوچھا ۔
”خبر بری نہیں “…مجاعہ نے جواب دیا …”لیکن تم اسے اچھا نہیں سمجھو گے …بنو حنفیہ تمہاری شرط پر صلح کرنے کو تیار نہیں وہ تمہاری غلامی قبول نہیں کریں گے “
”خدا کی قسم، میں انہیں اپنا غلام نہیں بنانا چاہتا “…خالد نے کہا …”ہم سب اللہ کے رسول کے غلام ہیں۔ میں انہیں اس سچے رسول کے عقیدے کا غلام بناؤں گا “
”وہ اس شرط کو بھی نہیں مانیں گے “…مجاعہ نے کہا …”او ر یہ بھی دیکھ کہ تیرے پاس رہ کیا گیا ہے ابن ولید! میں نے یمامہ کے اندر جاکر دیکھا ہے ۔
ایک لشکر ہے جو زرہ پہنے تیری اس چھوٹی سی فوج کو لہولہان کردینے کے لیے تیار ہے کبھی یہ حماقت نہ کربیٹھنا کہ یمامہ کو آکے محاصرے میں لے لے تو کچلا جائے گا ابن ولید! جوش کو چھوڑ اور ہوش کی بات کر۔ اپنی شرط کو نرم کر۔ میں نے بنو حنفیہ کو ٹھندا کر لیا ہے ۔ اس لشکر کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے “
خالد رضی اللہ عنہ گہری سوچ میں کھوگئے۔
مجاعہ نے انہیں کوئی نئی بات نہیں بتائی تھی ۔یہ تو خالد دیکھ ہی چکے تھے کہ ان کے پاس جو سپاہ رہ گئی ہے وہ لڑنے کے قابل نہیں رہی ۔ اس سپاہ کو آرام کی ضرورت تھی لیکن وہ رات بھر دشمن کے چھپے ہوئے آدمیوں کو تلاش اور گرفتار کرتی رہی تھی ۔ اب تو ان مجاہدین کے سر ڈول رہے تھے ۔
”ابن مرارہ!“…خالد نے گہری سوچ سے نکل کر کہا …”تجھے شاید معلوم نہ ہو اپنے ان سرداروں سے پوچھ لینا جو اس جنگ میں شریک تھے کہ ہمارے پاس بنو حنفیہ کا کتنا مال اور سازوسامان ہے اور کتنے باغ اور کتنے قیدی ہمارے قبضے میں ہیں۔
واپس جااور اپنے سرداروں سے کہہ کہ مسلمان آدھا مال غنیمت آدھے باغ اور آدھے قیدی واپس کردیں گے ۔ انہیں سمجھا کہ یمامہ اور اس کی آبادی کو تباہی میں نہ ڈالیں “
ابن مرارہ چلا گیا۔ اس دوران مزید قیدی لائے گئے ۔
مجاعہ شام سے کچھ پہلے واپس آیا اور اس نے بتایا کہ بنو حنفیہ کا کوئی سردار اس شرط کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ مجاعہ نے یہ بھی کہا کہ بنو حنفی اپنی شکست اور اپنے ہزاروں مقتولین کے خون کا انتقام لیں گے
”میری بات کان کھول کر سن ابن مرارہ!“…خالد نے جھنجھلا کر کہا …”اگر بنو حنفیہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے ڈر جائیں گے تو انہیں جاکر کہہ دے کہ مسلمان کٹ مریں گے تمہیں انتقام کی مہلت نہیں دیں گے “
”غصے میں نہ آ ولید کے بیٹے!“…مجاعہ نے مسکرا کر کہا …”ہمار اجو مال غنیمت، باغ اور قیدی تمہارے پاس ہیں ان کا چوتھائی حصہ اپنے پاس رکھ لیے باقی ہمیں دے دے اور آ صلح کرلیں۔
صلح نامہ تحریر ہوگا “
خالد ایک بار پھر سوچ میں کھوگئے ۔
”میں تجھے ایک بار پھر خبردار کرتا ہوں ولید کے بیٹے!“…مجاعہ نے کہا …”یہ میرا کمال ہے کہ میں نے بنو حنفیہ کو صلح پر راضی کرلیا ہے ۔ میں نے ان کی لعنت ملامت برداشت کی ہے ۔ انہوں نے مجھے غدار بھی کہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ تم مسلمانوں سے انعام لے کر ہمیں ان کا غلام بنانا چاہتے ہو وہ کہتے ہیں کہ ہماری تعداد اگر کم بھی ہوتی تو بھی ہم صلح نہ کرتے۔
ہمارے پاس نہ سازوسامان کی کمی ہے نہ خوراک کی ۔ ان چیزوں کی کمی ہے تو مسلمانوں کو ہوگی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی سخت سردی میں مسلمان کب تک محاصرے میں بیٹھے رہیں گے ۔ راتوں کی سردی کو وہ کھلے آسمان تلے برداشت نہیں کرسکیں گے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تیری اس چھوٹی سی فوج کے پاس خیمے بھی نہیں رہے …سوچ لے ابن ولید!اچھی طرح سوچ لے۔ اگر تجھے شک ہے تو ذرا آگے جاکر یمامہ کی دیواروں پر ایک نظر ڈال اور دیکھ کہ ایک دیوار تو قلعے کی ہے اور اس کے اوپر ایک دیوار انسانی جسموں کی ہے “
خالد بے شک اپنی کمزوریوں سے آگاہ تھے لیکن وہ دشمن کی ہر شرط ماننے کو تیار نہیں ہوسکتے تھے ۔
وہ اپنے خیمے سے باہر نکل گئے ۔ ان کے نائب سالار باہر کھڑے تھے ۔ سالاروں سے بے تابی سے خالد سے پوچھا کہ صلح کی بات کہاں تک پہنچی ہے ۔
”میرے ساتھ آؤ “…خالد نے ان سے کہا ۔ نائب سالار خالد کے ساتھ چل پڑے ۔ خالد انہیں بتاتے گئے کہ مجاعہ صلح نامے کی کیا شرط لایا ہے ۔ وہ چلتے گئے اور ایسی جگہ جار کے جہاں سے یمامہ شہر کی دیوار نظر آتی تھی ۔
انہوں نے دیکھا کہ دیوار پر آدمی ہی آدمی تھے ۔ مجاعہ نے ٹھیک کہا تھا کہ شہر کی دیوار کے اوپر انسانی جسموں کی دیوار کھڑی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ شہر میں بہت بڑا لشکر موجود ہے ۔
”میرا خیال ہے کہ ہم نے محاصرہ کیا تو ہم نقصان اٹھائیں گے “…خالد نے اپنے نائب سالاروں سے کہا …”دیوار پر جو مخلوق کھڑی ہے اس کے تیر ہمیں دیوار کے قریب نہیں جانے دیں گے ہمارے پاس مروانے کے لیے اتنے زیادہ آدمی نہیں “
”میں تو صلح کی رائے دوں گا “…ایک نائب سالار نے کہا ۔
”جس فتنے کو ہم ختم کرنا چاہتے تھے وہ ختم ہوچکا ہے “…ایک اور نائب سالار نے کہا …”اب ہم صلح کرلیں تو ہم پر کون انگلی اٹھاسکتا ہے ؟“
خالد واپس اپنے خیمے میں آئے اور مجاعہ کو بتایا کہ وہ صلح کے لیے تیار ہیں۔ اسی وقت صلح نامہ تحریر ہوا جس پر خالد نے خلافت کی طرف سے اور مجاعہ بن مرارہ نے بنو حنفیہ کی طرف سے دستخط کیے ۔ اس میں ایک شرط یہ تھی کہ مسلمان یمامہ کے کسی آدمی کو جنگی مجرم قرار دے کر قتل نہیں کریں گے ۔
مجاعہ واپس چلا گیا۔ اسی روز اس نے یمامہ کے دروازے کھول دیے اور خالد رضی اللہ عنہ کو شہر میں مدعو کیا ۔
###