خالد بن ولید نے اکیدر کو پکڑے رکھا اور کچھ دور جاکر گھوڑا روکا۔ اکیدر سے کہا کہ اس کے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ۔ انہوں نے اسے گھوڑے سے اتارا خود بھی اترے۔
”کیا تم اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے ؟“…خالد نے پوچھا۔
”ہاں میں اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتا تھا “…اکیدر بن مالک نے کہا …”لیکن تو نے مجھے اپنا نام نہیں بتایا۔
“
”خالد رضی اللہ عنہ“… خالد نے جواب دیا …”خالد بن ولید“
”ہاں!“…اکیدر نے کہا …”میں نے یہ نام سنا ہے …یہاں تک خالد ہی پہنچ سکتا تھا ۔ “
”نہیں اکیدر “…خالد نے کہا …”یہاں تک ہر وہ انسان پہنچ سکتا ہے جس کے دل میں اللہ کا نام ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتا ہے “
”میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا ؟“…اکیدر نے پوچھا ۔
(جاری ہے)
”تیرے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوگا جو تو نے ہمارے رسول کے ایلچی کے ساتھ کیا تھا ۔ “…خالد نے کہا …”ہم سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ابن مالک! اگر ہم رومی ہوتے اور ہرقل کے بھیجے ہوئے ہوتے تو ہم کہتے کہ اپنا خزانہ اور اپنے شہر کی بہت ہی خوبصورت لڑکیاں اور شراب کے مٹکے ہمارے حوالے کردے ۔ پہلے ہم عیش و عشرت کرتے پھر ہرقل کے حکم کی تعمیل کرتے “
”ہاں!“…اکیدر نے کہا …”رومی ہوتے تو ایسے ہی کرتے اور وہ ایسا کر رہے ہیں۔
وہ کون سا تحفہ ہے جو میں ہرقل کو نہیں بھیجتا۔ ولید کے بیٹے! مجھ پر لازم ہے کہ رومیوں کو خوش رکھوں“
”کہاں ہیں رومی ؟“…خالد نے کہا …”کیا تو انہیں مدد کے لیے بلاسکتا ہے ؟ہم تیری مدد کو آئیں گے ۔ میں تجھے قیدی بنا کر نہیں، معزز مہمان بناکر اللہ کے رسول کے پاس لے جارہا ہوں تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا جبر نہیں ہوگا ہم دشمنی کا نہیں دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں ہمارے رسول کے سامنے جاکر تجھے تاسف ہوگا کہ جس کا تو دشمن رہا ہے وہ تو دوستی کے قابل ہے“
اکیدر بن مالک کی جیسے زبان گنگ ہوگئی ۔
اس نے کچھ بھی نہ کہا۔ اس کا گھوڑا وہیں کہیں آوارہ پھر رہا تھا ۔ خالد نے اپنے سواروں سے کہا کہ اکیدر کے گھوڑے کو پکڑ لائیں۔ سوار گھوڑے کو پکڑ لائے ۔ خالد نے اکیدر کو گھوڑے پر سوار کیا اور تبوک کو واپسی کا حکم دے دیا ۔
تبوک پہنچ کر خالد نے اکیدر بن مالک کو رسول خدا کے حضور پیش کیا۔ آپ نے اس کے آگے اپنی شرطیں رکھیں لیکن ایسی شرط کا اشارہ تک نہ کیا کہ وہ اسلام قبول کرلے ۔
اس کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کیا گیا ۔ اس پر کوئی خوف طاری نہ کیا گیا ۔ اسے یہی ایک شرط بہت اچھی لگی کہ مسلمان اس کی حفاظت کریں گے اس نے جزیہ دینے کی شرط مان لی اور دوستی کا معاہدہ کرلیا۔
”بے شک صرف مسلمان ہیں جو میری مدد کو پہنچ سکتے ہیں “…معاہدہ کرکے اس نے کہا تھا ۔
جب اکیدر بن مالک نے بھی دوستی کا معاہدہ کرکے مسلمانوں کا جزیہ دینا قبول کرلیا تو کئی اور چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سردار تبوک میں رسول کریم کے پاس آگئے اور اطاعت قبول کرلی ۔
اس طرح دور دور تک کے علاقے مسلمانوں کے زیر اثر آگئے اور تمام قبائلی مسلمانوں کے اتحادی بن گئے ۔ ان میں متعدد قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔
اب رومیوں سے جنگ کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ ان کی پیش قدمی کا راستہ رک گیا تھا ۔ بلکہ ہرقل کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینے کو آگے بڑھا تو راستے کے تمام قبائل اسے اپنے علاقے میں ہی ختم کردیں گے ۔
رسول اکرم نے مجاہدین کے لشکر کو مدینہ کی واپسی کا حکم دے دیا ۔
یہ لشکر دسمبر ۶۳۰ء میں مدینہ پہنچ گیا ۔
###
اسلام عقیدے کے لحاظ سے اور عسکری لحاظ سے بھی ایک ایسی طاقت بن چکا تھا کہ رسول کریم کے بھیجے ہوئے ایلچی کہیں بھی چلے جاتے، انہیں شاہی مہمان سمجھا جاتا اور ان کا پیغام احترام سے سنا جاتا تھا۔ رسول کریم نے دور دراز کے قبیلوں اور چھوٹی بڑی حکومتوں کو قبول اسلام کے دعوت نامے بھیجنے شروع کردیے ۔
ان میں بعض سردار سرکش ، خود سر اور کم فہم تھے۔ ان کی طرف رسول کریم کا پیغام اس قسم کا ہوتا تھا کہ قبول اسلام کی بجائے اگر وہ پنی جنگی طاقت آزمانا چاہتے ہیں تو آزمالیں اور یہ سوچ لیں کہ شکست کی صورت میں انہیں مسلمانوں کا مکمل طور پر مطیع ہونا پڑے گا اور ان کی کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی ۔
رسول کریم نے ایسی ایک مہم خالد بن ولید کی زیر کمان یمن کے شمال میں بخران بھیجی۔
وہاں قبیلہ بنو حارثہ بن کعب آباد تھا ۔ ان لوگوں نے رسول کریم کے پیغام کا مذا ق اڑایا تھا ۔ خالد رضی اللہ عنہ مجاہدین کے ایک سوار دستے کو جس کی تعداد چار سو تھے ساتھ لے کر جولائی ۶۳۱ء میں یمن کو روانہ ہوئے ۔
مشہور مورخ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے خالد سے کہا کہ انہیں حملے کے لیے نہیں بھیجا جارہا بلکہ وہ پیغام لے کر جارہے ہیں چونکہ بنو حارثہ سرکش ذہنیت کی وجہ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اس لیے خالد انہیں تین بار کہیں کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
اگر وہ سرکشی سے باز نہ آئیں اور خونریزی کو پسند کریں تو انہیں خونریزی کے لیے للکارا جائے ۔
خالد جس جارحانہ انداز سے وہاں پہنچے اور جس انداز سے انہوں نے بنو حارثہ بن کعب کو قبول اسلام کی دعوت دی، اس نے مطلوبہ اثر دکھایا۔ اس قبیلے نے بلا حیل و حجت اسلام قبول کرلیا۔ خالد واپس آنے کی بجائے وہیں رکے رہے اور انہیں اسلام کے اصول او رارکان سمجھاتے رہے ۔
خالد جنہیں تاریخ نے فن حرب و ضرب کا ماہر اور صف اول کا سالار تسلیم کیا ہے بخران میں چھ مہینے مبلغ اور معلم بنے رہے ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اسلام ان لوگوں کے دلوں میں اترگیا ہے تو خالد جنوری ۶۳۲ء میں واپس آگئے۔ ان کے ساتھ بنو حارثہ کے چند ایک سرکردہ افراد تھے جنہوں نے رسول کریم کے دست مبارک پر بیعت کی ۔ رسول خدا نے ان میں سے ایک کو امیر مقرر کیا ۔
####