Episode 108 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 108 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

”فوری طور پر کاظمہ کی طرف کوچ کرو “…خالد نے حکم دیا …”اور کوچ بہت تیز ہو “
ہرمز حفیرہ کے علاقے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا ۔ وہ کاظمہ سے اپنی فوج کو یہاں لایا تھا کیونکہ خالد کا لشکر حفیرہ کی طرف آگیا تھا۔ اب یہ لشکر پھر کاظمہ کی طرف جارہا تھا ۔ دونوں فوجوں کے چند ایک گھوڑ سوار ایک دوسرے کی خیمہ گاہ کو دیکھتے رہتے تھے ۔ ہرمز کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر کاظمہ کی طرف کوچ کرگیا ہے تو ہرمز نے اپنی فوج کو کاظمہ کی طرف کوچ کا حکم دے دیا ۔
 
ہرمز کو ابلہ کا بہت فکر تھا ۔ یہ ایرانیوں کی بادشاہی کا بہت اہم شہر تھا ۔ یہ تجارتی مرکز تھا ۔ ہندوستان کو تاجروں کے قافلے یہیں سے جایا کرتے تھے اور ہندوستان خصوصاً سندھ کا مال اسی مقام پر آیا کرتا تھا ۔

(جاری ہے)

یہ ایرانیوں کا فوجی مرکز بھی تھا۔ اس علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کو دبائے رکھنے کے لیے ابلہ میں فوج رکھی گئی تھی ۔ ہرمز کی کوشش یہ تھی کہ خالد رضی اللہ عنہ کا لشکر ابلہ تک نہ پہنچ سکے ۔

ہرمز کو ابلہ پہلے سے زیادہ خطرے میں نظر آنے لگا کیونکہ مسلمان ابلہ کے جنوب میں کاظمہ کی طرف جارہے تھے ۔ 
مسلمانوں کے لیے کوچ اتنا مشکل نہ تھا جتنا ایرانیوں کے لیے دشوار تھا ۔ مسلمانوں کے پاس اونٹ اور گھوڑے خاصے زیادہ تھا۔ سپاہی ہلکے پھلکے تھے ۔ وہ آسانی سی تیز چل سکتے تھے ۔ ان کے مقابلے میں ایرانی سپاہی زرہ اور ہتھیاروں سے لدے ہوئے تھے اس لیے وہ تیز نہیں چل سکتے تھے ۔
ایک دو دن ہی پہلے وہ کاظمہ سے حفیرہ آئے تھے ۔ اس کوچ کی تھکن ابھی باقی تھی کہ انہیں ایک بار پھر کوچ کرنا پڑا اور وہ بھی بہت تیزی سے مسلمانوں سے پہلے کاظمہ کے علاقے میں پہنچ جائیں ۔ اس کوچ نے راستے میں ہی انہیں تھکادیا ۔ 
ہرمز کی فوج جب کاظمہ میں مسلمانوں کے بالمقابل پہنچی تو نڈھال ہوچکی تھی مسلمان سپاہی صحرائی لڑائیوں اور صحرا میں نقل و حرکت کے عادی تھے ۔
خالد نے ہرمز کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ اپنے لشکر کو آرام نہیں کرنے دے گا ، لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ خود قلب میں رہے ۔ دائیں اور بائیں پہلوؤں کی کمان عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کے پاس تھیں۔ عاصم بن عمرو قعقاع بن عمرو کے بھائی تھے اور عدی بن حاتم قبیلے طے کے سردار تھے جو دراز قد، مضبوط جسم والے بڑے بہادر جنگجو تھے ۔ 
خالد رضی اللہ عنہ کو اپنی فوج کو لڑائی کی ترتیب میں کرتے دیکھ کر ہرمز نے بھی اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔
قلب میں وہ خود رہا اور دونوں پہلوؤں کی کمان شاہی خاندان کے دو افراد قباذ اور انوشجان کو دی ۔ ہرمز دیکھ رہا تھا کہ اس کی فوج پسینے میں نہارہی ہے اور سپایوں کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی لیکن مسلمان جنگی ترتیب میںآ چکے تھے ۔ ہرمز نے اپنی فوج کی ترتیب ایسی رکھی کہ کاظمہ شہر اس کی فوج کے پیچھے آگیا۔ ان کے سامنے ریگستانی میدان تھا اور ایک طرف بے آب و گیاٹیلہ نما پہاڑیوں کا سلسلہ تھا ۔
 
خالد نے اپنی فوج کو اس طرح آگے بڑھایا کہ یہ پہاڑی سلسلہ ان کی پشت کی طرف ہوگیا ۔ 
###
اپریل ۶۳۲ء کے پہلے ہفتے کا ایک دن تھا جب مسلمان پہلی بار آتش پرست ایرانیوں کے مقابلے آئے ۔ 
”اگر خالد بن ولید مارا جائے تو یہ معرکہ بغیر لڑے ختم ہوسکتا ہے “…ہرمز کے ایک سالار نے اسے کہا …”مسلمان جو اتنی دور سے آئے ہیں ، اپنے سالار کی موت کے بعد ہمارے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکیں گے “
”فوج سے کہو زنجیریں باندھ لیں “…ہرمز نے کہا…”میں ان کے سالار کا بندوبست کرتا ہوں ۔
سب سے پہلے یہی مرے گا “…اس نے سالار کو بھیج کر اپنے محافظوں کو بلایا اور انہیں کچھ بتایا ۔ 
زنجیریں باندھ لینے کا مطلب یہ تھا کہ ایرانی فوج کے سپاہی اپنے آپ کو اس طرح زنجیروں سے باندھ لیتے تھے کہ پانچ سے دس سپاہی ایک لمبی زنجیر میں بندھ جاتے تھے ان کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ وہ آسانی سے لڑسکتے تھے ۔ زنجیریں باندھ کر لڑنے سے ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کوئی سپاہی بھاگ نہیں سکتا تھا ۔
دوسرا فائدہ یہ کہ ان کے دشمن کے گھوڑ سوار جب ان پر ہلہ بولتے تھے تو سپاہی زنجیریں سیدھی کردیتے تھے ۔ زنجیریں گھوڑوں کی ٹانگوں کے آگے آجاتیں اور گھوڑے گرپڑتے تھے ، لیکن زنجیروں کا بہت بڑا نقصان یہ تھا کہ ایک زنجیر میں بندھے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک یا دو زخمی یا ہلاک ہوجاتے تو باقی بے بس ہوجاتے اور دشمن کا آسان شکار بنتے تھے ۔ 
اس جنگ کو جو ہرمز اور خالد کے درمیان لڑی گئی ۔
جنگ سلاسل یعنی زنجیروں کی جنگ کہتے ہیں مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ایرانی اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ رہے ہیں تو وہ حیران ہونے لگے۔ کسی نے بلند آواز سے کہا …”وہ دیکھو فارسی اپنے آپ کو ہمارے لیے باندھ رہے ہیں “
”فتح ہماری ہے“…خالد نے بلند آواز سے کہا …”اللہ نے ان کے دماغوں پر مہر لگادی ہے “
خالد نے جو کچھ سوچ کر کاظمہ سے حفیر اور حفیر سے کاظمہ کو کوچ کیا گیا تھا۔
وہ فائدہ انہیں نظر آگیا تھا ۔ ہرمز کی فوج جو زرہ اور ہتھیاروں سے لدی ہوء تھی ۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی تھک گئی تھی ۔ خالد نے ایرانیوں کو آرام کی مہلت بھی نہیں دی تھی۔ اب ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ لیا تھا ۔ خالد نے سوچ لیا کہ وہ کیا چال چلیں گے اور ایرانیوں کو کس طرح لڑائیں گے ۔ 
ہرمز نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دونوں فوجوں کے درمیان ایسی جگہ آکر رک گیا جہاں زمین کٹی پھٹی اور کہیں ٹیلے تھے ۔ اس کے محافظ اس سے کچھ دور آکر رک گئے ۔ 
####

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط