ابوسفیان کو اتنا ہی پتہ چلا تھا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر شب خون کی طرز کا حملہ کیا ہے اور خزاعہ کے کچھ آدمی مارے گئے ہیں ۔ اسے یاد آیا کہ عکرمہ اور صفوان صبح سویرے گھوڑوں پر سوار کہیں سے آرہے تھے ۔ اس نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں تو انہوں نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ گھوڑ دوڑ کے لیے گئے تھے دوپہر کے وقت جب اسے پتہ چلا کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کیا ہے تو اس نے عکرمہ اور صفوان کو بلایا۔
”تم دونوں مجھے کس طرح یقین دلاسکتے ہو کہ غزاعہ کی بستی پر بنوبکر کے حملے میں تم شریک نہیں تھے؟“…ابوسفیان نے پوچھا ۔
”کیا تم بھول گئے ہو کہ بنوبکر ہمارے دوست ہیں ؟“…صفوان نے کہا …”اگر دوست مدد کے لیے پکاریں تو کیا تم دوستوں کو پیٹھ دکھاؤں گے ؟“
”میں کچھ بھی نہیں بھولا “…ابوسفیان نے کہا …”خدا کی قسم تم بھول گئے ہو کہ قبیلہ قریش کا سردار کون ہے …میں ہوں تمہارا سردار…میری اجازت کے بغیر تم کسی اور کا ساتھ نہیں دے سکتے “
”ابوسفیان!“…عکرمہ نے کہا …”میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں ۔
(جاری ہے)
تمہاری کمان میں لڑائیاں لڑی ہیں۔ تمہارا ہر حکم مانا ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم قبیلے کے وقار کو مجروح کرتے چلے جارہے ہو۔ تم نے اپنے دل پر مدینے والوں کا خوف طاری کرلیا ہے ۔ “
”اگر میں قبیلے کا سردار ہوں تو میں کسی کو ایسا جرم بخشوں گا نہیں جو تم نے کیا ہے “…ابوسفیان نے کہا ۔
”ابوسفیان!“…عکرمہ نے کہا …”وہ وقت تمہیں یاد ہوگا جب خالد مدینہ کو رخصت ہوا تھا۔
تم نے اسے بھی دھمکی دی تھی اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس عقیدے کا پیروکار ہوجائے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے اور میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھا کہ تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں بھی تمہارا ساتھ چھوڑنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہوجاؤں گا “
”کیا تم نہیں سمجھتے کہ باوقار لوگ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے ؟“…ابوسفیان نے کہا…”تم نے بنوبکر کا ساتھ دے کر اور مسلمانوں کے اتحادی قبیلے پر حملہ کرکے اپنے قبیلے کا وقار تباہ کردیا ہے ۔
اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محمد نے مکہ پر حملہ کردیا تو تم حملہ پسپا کردو گے تو تم خوش فہمی میں مبتلا ہو۔ کون سے میدان میں تم نے مسلمانوں کو شکست دی ہے ؟کتنا لشکر لے کر تم نے مدینہ کو محاصرے میں لیا تھا ؟“
”میں تم جیسے ضدی اور کوتاہ بیں میں آدمیوں کے پیچھے پورے قبیلے کو ذلیل و خوار نہیں کراؤں گا “…ابوسفیان نے کہا …”میں مسلمانوں کے ساتھ ابھی چھیڑ خانی نہیں کرسکتا۔
میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ایک دوست قبیلے نے مسلمانوں کے ایک دوست قبیلے پر حملہ کیا ہے اور اس مین قریش کے چند ایک آدمی شامل ہوگئے تھے تو اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گا کہ قبیلہ قریش حدیبیہ کے معاہدے پر قائم ہے “
وہ عکرمہ اور صفوان کو وہیں کھڑا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔
###
ابو سفیان اسی روز مدینہ کو رواہ ہوگیا۔ اہل مکہ حیران تھے کہ ابو سفیان اپنے دشمن کے پاس چلا گیا ہے ۔ اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں اس کی بیوی ہند جو بڑے موٹے جسم اور اونچے قد کی عورت تھی پھنکارتی پھر رہی تھی ۔
مدینہ پہنچ کر ابو سفیان نے جس دروازے پر دستک دی وہ اس کی اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا گھر تھا ۔ دروازہ کھلا۔
بیٹی نے اپنے باپ کو دیکھا تو بیٹی کے چہرے پر مسرت کی بجائے بے رخی کا تاثر آگیا۔ بیٹی اسلام قبول کرچکی تھی اور باپ اسلام کا دشمن تھا۔
”کیا باپ اپنی بیٹی کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا؟“…ابوسفیان نے ام حبیبہ سے پوچھا ۔
”اگر باپ وہ سچا مذہب قبول کرلے جو اس کی بیٹی نے قبول کیا ہے تو بیٹی باپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی“…ام حبیبہ نے کہا ۔
”بیٹی!“…ابوسفیان نے کہا …”میں پریشانی کے عالم میں آیا ہوں ۔ میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں “
”بیٹی کیا کرسکتی ہے ؟“…ام حبیبہ نے کہا …”آپ رسول خداکے پاس جائیں ۔ “
بیٹی کی اس بے رخی پر ابو سفیان سٹپٹا اٹھا۔ وہ رسول کریم کے گھر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اس نے وہ شناسا چہرے دیکھے جو کبھی اہل قریش کہلاتے اور اسے اپنا سردار مانتے تھے۔
اب اس سے بیگانے ہوگئے تھے۔ وہ اسے چپ چاپ دیکھ رہے تھے وہ ان کا دشمن تھا اس نے ان کے خلاف لڑائیاں لڑائی تھیں احد کی جنگ میں ابو سفیان کی بیوی ہند نے مسلمانوں کی لاشوں کے پیٹ چاک کیے اور ان کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا تھا ۔
ابو سفیان اہل مدینہ کی گھورتی ہوئی نظروں سے گزرتا رسول کریم کے ہاں جا پہنچا۔
اس نے ہاتھ بڑھایا۔ رسول کریم نے مصافحہ کیا لیکن آپ کی بے رخی نمایاں تھی۔ رسو ل کریم کو اطلا ع مل چکی تھی کہ بنوبکر نے اہل قریش کی مدد سے خزاعہ پر حملہ کا ہے ۔ آپ اہل قریش کو فریب کار سمجھ رہے تھے ۔ ایسے دشمن کا آپ کے پاس ایک ہی علاج تھا کہ فوج کشی کرو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ ہم کمزور ہیں۔
”اے محمد!“…ابوسفیان نے کہا ……”میں یہ غلط فہمی رفع کرنے آیا ہو کہ میں نے حدیبیہ کے صلح نامے کی خلاف ورزی نہیں کی۔
اگر بنوبکر کی مدد کو قبیلہ قریش کے چند آدمی میری اجازت کے بغیر چلے گئے تو یہ میرا قصور نہیں ۔ میں نے معاہدہ نہیں توڑا۔ اگر تم چاہتے ہو تو میں معاہدے کی تجدید کے لیے تیار ہوں “
مورخین ابن ہشام اور مغازی کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اکرم نے نہ اس کی طرف دیکھا نہ اس کے ساتھ کوئی بات کی ۔
رسول کریم کی خاموشی سے ابوسفیان پر خوف طاری ہوگیا ۔
وہ وہاں سے اٹھ آیا اور حضرت ابوبکر سے جاملا۔
”محمد میری کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں “…ابوسفیان نے ابوبکر سے کہا …”تم ہم میں سے ہو ابوبکر!خدا کی قسم، ہم گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا کرتے کہ اس کی بات بھی نہ سنیں۔ میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے آیا ہوں “
”اگر محمد نے جو اللہ کے رسول ہیں۔
تمہاری بات نہیں سنی تو ہم تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے“…ابوبکر نے کہا…”ہم اس مہمان کی بات سنا کرتے ہیں جو ہماری بات سنتا ہے ۔ ابوسفیان! کیا تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی ہے کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے ، کیا تم نے اللہ کے رسول کی یہ بات نہیں سنی تھی کہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں …سنی تھی تو تم رسول کے دشمن کیوں ہوگئے تھے ؟“
”کیا تم میری کوئی مدد نہیں کرو گے ابوبکر “…ابوسفیان نے التجا کی ۔
”نہیں“…ابوبکر نے کہا …”ہم اپنے رسول کے حکم کے پابند ہیں۔ “
ابوسفیان مایوسی کے عالم میں سرجھکائے ہوئے چلا گیا اور کسی سے حضرت عمر کا گھر پوچھ کر ان کے سامنے جابیٹھا۔
”اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو مدینہ میں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ہے “…عمر نے کہا …”خدا کی قسم، تم اسلام قبول کرنے والوں میں سے نہیں “
ابوسفیان نے عمر رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں آنے کا مقصد بتایا اور یہ بھی کہ رسول کریم نے اس کے ساتھ بات تک نہیں کی اور ابوبکر نے بھی اس کی مدد نہیں کی ۔
”میرے پاس اگر چیونیٹیوں جیسی کمزور فوج ہو تو بھی تمہارے خلاف لڑوں گا “…عمر نے کہا …”تم میرے نہیں، میرے رسول اور میرے مذہب کے دشمن ہو ۔ میرا رویہ وہی ہوگا جو اللہ کے رسول کا ہے “
ابوسفیان فاطمہ سے ملا، حضرت علی سے ملا لیکن کسی نے بھی اس کی بات نہ سنی۔ وہ مایوس اور نامراد مدینے سے نکلا۔ اس کے گھوڑے کی چال اب وہ نہیں تھی جو مدینہ کی طرف آتے وقت تھی۔
گھوڑے کا بھی جیسے سر جھکا ہوا تھا۔ وہ مکہ کو جارہا تھا۔
رسول خدا نے اس کے جانے کے بعد ان الفاظ میں حکم دیا کہ مکہ پر حملہ کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فوج تیار کی جائے آپ کے حکم میں خاص طور پر شامل تھا کہ جنگی تیاری اتنے بڑے پیمانے کی ہوکہ مکہ والوں کو فیصلہ کن شکست دے کر قریش کو ہمیشہ کے لیے تہہ و تیغ کرلیا جائے ۔ اس کے علاوہ حضور اکرم نے فرمایا کہ کوچ بہت تیز ہوگا اور اسے ایسا خفیہ رکھا جائے گا کہ مکہ والوں کو بے خبری میں دبوچ لیا جائے یا مکہ کے قریب اتنی تیزی سے پہنچا جائے کہ قریش کو مہلت نہ مل سکے کہ وہ اپنے اتحادی قبائل کو مدد کے لیے بلاسکیں۔
###