خالد نے پیش قدمی سے پہلے اپنے دو آدمیوں…عکاشہ بن محصن اور ثابت بن اقرم انصاری…کولشکر سے آگے بھیج دیا کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت یا کوئی اور بات دیکھیں جو لشکر کی پیشقدمی کے کام آسکے تو پیچھے اطلاع دیں۔ دونوں چلے گئے اور خالد اپنے دستوں کے ساتھ آگے بڑھ گئے ۔ بہت دور جاکر ان دونوں میں سے کوئی بھی واپس آتا نہ دکھائی دیا۔
کچھ اور آگے گئے تو تین لاشیں پڑی ملیں جو خون میں نہائی ہوئی تھیں۔
دو لاشیں انہیں آدمیوں…عکاشہ اور ثابت کی تھیں جنہیں خالد نے آگے بھیجا تھا ، تیسری لاش کسی اجنبی کی تھی ۔ بعد میں جو انکشاف ہوا (طبری اور قاموس کے مطابق) کہ یہ دونوں آگے جارہے تھے۔ راستے میں انہیں ایک شخص حبال مل گیا ۔ ایک مورخ کامل ابن اثیر لکھتا ہے کہ حبال طلیحہ کا بھائی تھا لیکن طبری اور قاموس اسے طلیحہ کا بھتیجا لکھتے ہیں۔
(جاری ہے)
عکاشہ اور ثابت نے اسے للکار کر قتل کردیا۔
اس کی اطلاع طلیحہ کو مل گئی۔ وہ اپنے بھائی سلمہ کو ساتھ لے کر آگیا۔ عکاشہ اور ثابت ابھی اور آگے جارہے تھے۔ طلیحہ اور سلمہ نے گھات لگائی اور دونوں کو مقابلے کی مہلت دیے بغیر قتل کردیا۔
خالد رضی اللہ عنہ آگ بگولہ ہوگئے اور طلیحہ کی بستی پر جادھمکے۔ عینیہ طلیحہ کی فوج کی کمان کر رہا تھا اور طلیحہ ایک خیمے میں نبی بنا بیٹھا تھا ۔
عینیہ نے مسلمانوں کا قہر اور غضب دیکھا تو اپنے لشکر کو لڑتا چھوڑ کر طلیحہ کے پاس گیا وہ طلیحہ کو سچا نبی مانتا تھا ۔
”یا نبی “…عینیہ نے طلیحہ سے پوچھا …”مشکل کا وقت آن پڑا ہے جبریل کوئی وحی لائے ہیں ؟“
”ابھی نہیں “…طلیحہ نے کہا …”تم لڑائی جاری رکھو “
عینیہ دوڑتا گیا اور لڑائی میں شامل ہوگیا۔ مسلمانوں کا قہر اور بڑھ گیا تھا ۔
خالد کی چالیں جھوٹے نبی کے لشکر کے پاؤں اکھاڑ رہی تھیں۔ عینیہ ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا
”یا نبی!“…اس نے طلیحہ سے پوچھا …”کوئی وحی نازل ہوئی ؟“
”ابھی نہیں “…طلیحہ نے کہا …”تم لڑائی جاری رکھو “
”وحی کب نازل ہوگی ؟“…عینیہ نے جھنجھلا کر پوچھا…”تم کہا کرتے ہو کہ مشکل کے وقت وحی نازل ہوتی ہے “
”خدا تک میری دعا پہنچ گئی ہے “…طلیحہ نے کہا …”وحی کا انتظار ہے “
عینیہ اپنے لشکر میں چلا گیا مگر اب اس کا لشکر خالد کے گھیرے میں آگیا تھا۔
عینیہ گھبراہٹ کے عالم میں ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا اور اسے اپنے لشکر کی کیفیت بتا کر پوچھا کہ وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں۔
”ہاں“…طلیحہ نے جواب دیا …”وحی نازل ہوچکی ہے “
”کیا؟“
”یہ کہ “…طلیحہ نے جواب دیا …”مسلمان بھی جنگ لڑ رہے ہیں تم بھی جنگ لڑ رہے ہو ۔ تم اس وقت کو کبھی نہ بھول سکو گے “
عینیہ کو کچھ اور توقع تھی لیکن طلیحہ نے اسے مایوس کردیا۔
اسے یہ بھی پتہ چل گیا کہ طلیحہ جھوٹ بول رہا ہے ۔
”لاریب ایسے ہی ہوگا“…عینیہ نے غصے سے کہا …”وہ وقت جلدی آرہا ہے جسے تم ساری عمر نہیں بھول سکوگے “
عینیہ دوڑتا باہر گیا اور چلا چلا کر اپنے قبیلے سے کہنے لگا …”اے بنو فرازہ! ظلیحہ کذاب ہے جھوٹے نبی کے پیچھے جانیں مت گنواؤ، بھاگو، اپنی جانیں بچاؤ “
بنو فرازہ تو بھاگ اٹھے۔
طلیحہ کے اپنے قبیلے کے لڑنے والے لوگ طلیحہ کے خیمے کے ارد گرد جمع ہوگئے ۔ خالد تماشہ دیکھنے لگے ۔ طلیحہ کے خیمہ کے ساتھ ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تیار کھڑے تھے ۔ قبیلہ طلیحہ سے پوچھ رہا تھا کہ اب کیا حکم ہے طلیحہ کی بیوی جس کا نام نوار تھا ، اس کے ساتھ تھی ۔ طلیحہ گھوڑے پر سوار ہوگیا اور اس کی بیوی اونٹ پر چڑھ بیٹھی ۔
”لوگو!“…طلیحہ نے پنے قبیلے سے کہا …”میری طرح جس کے پاس بھاگنے کا انتظام ہے وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر بھاگ جائے “
اس طرح س کذاب کا فتنہ ختم ہوگیا۔
عمر کے دور خلافت میں طلیحہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہوگیا تھا ۔
###
خالد نے اور کئی قبیلوں کو مطیع کیا اور انہیں ارتداد کی کڑی سزا دی ۔ ان پر اپنی شرائط عائدکیں۔ اسلام سے جو منحرف ہوگئے تھے ۔ انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام کیا۔ طلیحہ کی نبوت کو بھی خالد نے ختم کردیا اور عینیہ جو یہودیوں سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن تھا ایسا بھاگا کہ اس نے عراق جادم لیا مگر اس کا زہرابھی پیچھے رہ گیا تھا۔
یہ زہر ایک عورت کی شکل میں تھا جو سلمےٰ کہلاتی تھی ۔ اس کا پورا نام ام زمل سلمیٰ بنت مالک تھا ۔
سلمیٰ بنو فرازہ کے سرداروں کے خاندان کی ایک مشہور عورت ام فرقہ کی بیٹی تھی۔ رسول کریم کی زندگی کا واقعہ ہے کہ زید بن حارثہ بنی فرازہ کے علاقے میں جانکلے۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کا جانی دشمن تھا۔ وادی القریٰ میں زید کا سامنا بنی فرازہ کے چند آدمیوں سے ہوگیا۔
زید کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے ۔ بنی فرازہ کے ان آدمیوں نے ان سب کو قتل کردیا اور زید کو گہرے زخم آئے۔ وہ گرتے پڑتے مدینہ پہنچ گئے ۔ جب ان کے زخم ٹھیک ہوگئے تو رسول اکرم نے انہیں باقاعدہ فوجی دستے دے کر بنی فرازہ پر حملے کے لیے بھیجا تھا ۔
مسلمانوں نے بنی فرازہ کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک اور کچھ کو قید کرلیا۔ جھڑپ بڑی خونریز تھی۔
ان قیدیوں میں ام فرقہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔ اس عورت کی شہرت یہ تھی کہ اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھی ۔ اسے مدینہ لاکر سزائے موت دے دی گئی ۔ اس کے ساتھ اس کی کمسن بیٹی ام زمل سلمیٰ بھی تھی۔ رسول کریم نے یہ لڑکی ام المومنین عائشہ صدیقہ کے حوالے کردی۔ اسے پیار سے رکھا گیا مگر وہ ہروقت اداس رہتی تھی ۔
عائشہ صدیقہ نے اس پر رحم کرتے ہوئے اسے آزاد کردیا۔
بجائے اس کے سلمیٰ مسلمانوں کی شکر گزار ہوتی کہ اسے لونڈی نہ رہنے دیا گیا اور آزاد کرکے اسے اس کی اونچی حیثیت میں واپس بھیج دیا گیا ہے اس نے اپنے دل میں اپنی ماں کے قتل کا انتقام رکھ لیا اور جنگی تربیت حاصل کرنے لگی ۔ وہ سرداروں کے خاندان کی لڑکی تھی اس میں قیادت کے جوہر بھی پیدا ہوگئے ۔
اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر تیار کیا اور مدینہ حملے کے لیے پر تولنے لگی مگر مسلمان ایک جنگی قوت بن چکے تھے اس لیے سلمیٰ مدینہ کے قریب آنے کی جرات نہ کرسکی ۔
اب طلیحہ اور عینیہ کو شکست ہوئی تو سلمیٰ میدان میں آگئی۔ اس کی ماں عینیہ کی چچا زاد بہن تھی ۔ جن قبیلوں نے خالد سے ٹکر لی تھی انہیں یہ لڑائی بہت مہنگی پڑی تھی ۔ جو بچ گئے تھے وہ ادھر ادھر بھاگ گئے تھے۔
####