Episode 20 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 20 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

پھر خالد کو وہ بھیانک منظر یاد آیا جب باہر میدان میں لکڑی کے دو کھمبوں کے ساتھ خبیب اور زید رضی اللہ عنہما بندھے کھڑے تھے، تماشائیوں کا چیختا چلاتا ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا۔ ادھر سے ابو سفیان اور ہند گھوڑوں پر سوار ہجوم میں داخل ہوئے، ہجوم کے نعرے اور انتقامی طعنے پہلے سے زیادہ بلند ہوگئے اگر اس ہجوم میں کوئی خاموش تھا تو صرف خالد تھا ۔
 
ابو سفیان گھوڑے پر سوار دونوں قیدیوں کے قریب چلا گیا ۔ دونوں نے اسے کہا کہ وہ زندگی کی آخری نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ ابو سفیان نے انہیں اجازت دے دی ۔ 
خالد اب مدینے کی طرف جارہا تھا ۔ اسے جب وہ منظر یاد آیا کہ دونوں قیدیوں کے ہاتھ کھول دیے گئے اور وہ قبلہ رو ہوکر نما ز پڑھنے لگے۔ خالد پر اس وقت جو اثر ہوا تھا وہ اب چار برس بعد اس کی ذات سے ابھر آیا۔

(جاری ہے)

گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے خالد کا سر جھک گیا ۔ 
خبیب بن عدی اور زید بن الدثنہ رضی اللہ عنہما ہجوم کی چیخ و پکار سے لاتعلق، اپنی موت سے بے پروا خدا کے حضور رکوع و سجود میں محو تھے ۔ انہوں نے نہایت اطمینان سے نماز پڑی۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ کوئی نہیں بتاسکا تاریخ بھی خاموش ہے کہ انہوں نے خدا سے کیا دعا مانگی انہوں نے خدا سے نہیں کہا ہوگا کہ دشمن انہیں آزاد کردے۔
 
وہ اٹھے اور خود ہی لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ پیٹھیں لگاکر کر کھڑے ہوگئے ۔ 
”او بدقسمت انسانو!“…ابوسفیان نے بڑی بلند آواز سے خبیب اور زید  سے کہا …”تمہاری قسمت اور تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں ہے ۔ اپنی زبانوں سے کہہ دو کہ ہم اسلام کو ترک کرتے ہیں اور اب ہم اہل قریش میں سے ہیں اور ۳۶۰بتوں کو برحق مانتے ہیں …یہ اعلان کرو اور اپنی زندگیاں مجھ سے واپس لے لو ۔
اگر نہیں تو موت کو گلے لگاؤ ۔ یہ بھی سوچ لو کہ تمہاری موت سہل نہیں ہوگی “
”اے باطل کے پچاری ابو سفیان!“…زید کی آواز گرجی…”ہم لعنت بھیجتے ہیں پتھر کے ان بتوں پر جو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی کو بھی نہیں اڑاسکتے۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں عزیٰ اور ہبل پر جو تمہیں اگلے جہاں دوزخ کی آگ میں پھینکیں گے ہم پجاری ہیں اس ایک اللہ کے جو رحمان اور رحیم ہے اور ہم عاشق ہیں محمد کے جو اللہ کے رسول ہیں “
”میرا راستہ وہی ہے جو زید نے تمہیں دکھادیا ہے “…خبیب نے بلند آواز سے کہا …”اے اہل مکہ! سچا وہی ہے جس کے نام پر ہم قربان ہورہے ہیں ہمیں نئی زندگی ملے گی جو اس زندگی سے بہت زیادہ حسین اور مقدس ہوگی “
”باندھ دو انہیں کھمبوں کے ساتھ “…ابوسفیان نے حکم دیا …”یہ موت کا ذائقہ چکھنے کے مشتاق ہیں “
دونوں کے ہاتھ پیچھے کرکے کھمبوں کے ساتھ جکڑ دیے گئے ۔
ابوسفیان نے گھوڑا موڑا اور ہجوم کی طرف آیا ۔ 
”عزیٰ اور ہبل کی قسم!“…ابوسفیان نے بلند آواز میں ہجوم سے کہا …”میں نے اپنے قبیلے میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جو اپنے سردار پر اس محبت اور ایثار سے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جس طرح محمد کے پیروکار اس کے نام پر فدا ہوتے ہیں “
ہند اپنے گھوڑے پر سوار کچھ دور کھڑی تھی ۔
اس کے قریب اس کے چند ایک غلام کھڑے تھے ۔ ایک غلام نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے جوش کا یہ مظاہرہ کیا کہ برچھی تان کر دونوں قیدیوں کی طرف کسی کے حکم کے بغیر بڑا تیز دوڑا اور کھمبے سے بندھے زید کے سینے پر برچھی کا اتنا زور دار وار کیا کہ برچھی کی انی زید کی پیٹھ سے باہر نکل گئی ۔ زید  بن الدثنہ فوراً شہید ہوگئے ۔ 
اس غلام نے سینہ تان کر ہجوم کی طرف خراج تحسین کی توقع پر دیکھا لیکن ہجوم کچھ اور ہی قسم کا شور بلند کرنے لگا۔
تماشائی کہتے تھے کہ یہ کوئی تماشا نہیں ہوا۔ یہ مسلمان اتنی سہل موت کے قابل نہیں۔ ہمیں کوئی تماشہ دکھاؤ۔ 
”قتل کردو اس غلام کو جس نے ایک مسلمان پر اتنا رحم کیا ہے کہ اسے اتنی جلدی مارڈالا ہے “ہند نے دبنگ آواز میں کہا ۔ 
کئی آدمی تلواریں اور برچھیاں لہراتے اس غلام کی طرف دوڑے لیکن بہت سے آدمی دوڑ کر ان آدمیوں اور غلام کے درمیان آگئے ۔
 
”خبردار! پیچھے کھڑے رہو “ایک آدمی نے جو گھوڑے پر سوار تھا للکار کر کہا …”عربی خون اتنا بزدل نہیں کہ دو آدمیوں کو باندھ کر مارنے کے لیے قریش کا پورا قبیلہ اکٹھا ہوگیا ہے خدا کی قسم ابو سفیان کی جگہ میں ہوتا تو ان دونوں آدمیوں کو آزاد کردیتا ۔ یہ ہمارا خون ہے اور یہ ہمارے مہمان ہیں ہم ان سے میدان جنگ میں لڑیں گے ۔ “
”یہ ٹھیک کہتا ہے “…ہجوم میں سے کئی آوازیں سنائی دیں۔
…”دشمن کو باندھ کر مارنا عرب کی روایات کے خلاف ہے“
تماشائیوں کے ہجوم میں سے بے شمار آوازیں ایسی سنائی دے رہی تھیں جو کہتی تھیں کہ ہم تماشادیکھیں گے ہم دشمن کو اس طرح ماریں گے کہ وہ مر مر کے جئیے۔ 
تھوڑی دیر بعد تماشائیوں کا ہجوم دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک گروہ خبیب کے قتل کے خلاف تھا۔ اسے وہ عرب کی روایتی بہادری کے منافی سمجھتا تھا اور دوسرا گروہ خبیب کو تڑپا تڑپاکر مارنے کے نعرے لگارہا تھا۔
خالد نے جب اہل مکہ کو اور دور دور سے آئے ہوئے تماشائیوں کو اسطرح ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا تو دہ دوڑتا ہوا ابو سفیان تک گیا۔ 
”دیکھ لیا ابو سفیان!“…خالد نے کہا …”دیکھ لیا یہاں میرے کتنے حامی ہیں ۔ ایک کو ماردیا ہے دوسرے کو چھوڑ دو ، ورنہ اہل قریش آپس میں ٹکرا جائیں گے “
ہند نے خالد کو ابو سفیان کے پاس کھڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ خالد بھی خبیب کی رہائی کا حامی ہے ۔
ہند نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ان دونوں کے پاس جاپہنچی۔ 
”خالد! “…ہند نے سخت بپھری ہوئی آوا ز میں کہا …”میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو ۔ کیا تم ابو سفیان کو اپنا سردار نہیں مانتے َاگر نہیں تو یہاں سے چلے جاؤ میں نے جو سوچا ہے وہ ہوکر رہے گا “
”خالد!“…ابوسفیان نے کہا …”اگر تم سمجھتے ہو کہ میرا حکم اور میرے ارادے صحیح نہیں تو بھی مجھے ان پر عمل کرنے دو۔
اگر میں نے اپنا حکم واپس لے لیا تو یہ میری کمزوری ہوگی۔ پھر لوگ میرے ہر حکم پر یہ توقع رکھیں گے کہ میں اپنا حکم واپس لے لوں“
خالد کو آج مدینے کے راستے میں یاد آرہا تھا اور اسے افسوس ہورہا تھا کہ اس نے ابو سفیان کا حکم مان لیا تھا۔ خالد کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی نظم و نسق اور اپنے سردار کی اطاعت تھے۔ اس نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر صرف اس لیے ابو سفیان کا حکم مان لیا تھا کہ اہل قریش میں حکم عدولی کی روایت قائم نہ ہو۔
 
”اے اہل مکہ !“…ابو سفیان نے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تماشائیوں سے بلند آواز میں کہا …
”اگر آج یہاں دو مسلمانوں کے قتل پر ہم یوں بٹ گئے تو ہم میدان جنگ میں بھی کسی نہ کسی مسئلے پر پھٹ جائیں گے اور فتح تمہارے دشمن کی ہوگی “اگر اپنے سردار کی اطاعت سے یوں انحراف کروگے تو تمہارا انجام بہت برا ہوگا۔“
ہجوم کا شورکچھ کم ہوگیا لیکن خالد نے دیکھا کہ اہل مکہ کے کئی ایک سردار چہروں پر نفرت کے آثار لیے واپس گھروں کو جارہے تھے ۔
انہیں دیکھ کر بہت سے لوگ بھی جو تماشہ دیکھنے آئے تھے واپس چلے گئے ۔ خالد وہاں نہیں رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ دونوں گروہ آپس میں ٹکرا جائیں گے ۔ اس کے اپنے قبیلے کے زیادہ تر لوگ تماشائیوں میں موجود تھے ۔ وہ کم از کم اپنے قبیلے کو اپنے قابو میں رکھ سکتا تھا ۔ 
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط