پھر خالد کو وہ بھیانک منظر یاد آیا جب باہر میدان میں لکڑی کے دو کھمبوں کے ساتھ خبیب اور زید رضی اللہ عنہما بندھے کھڑے تھے، تماشائیوں کا چیختا چلاتا ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا۔ ادھر سے ابو سفیان اور ہند گھوڑوں پر سوار ہجوم میں داخل ہوئے، ہجوم کے نعرے اور انتقامی طعنے پہلے سے زیادہ بلند ہوگئے اگر اس ہجوم میں کوئی خاموش تھا تو صرف خالد تھا ۔
ابو سفیان گھوڑے پر سوار دونوں قیدیوں کے قریب چلا گیا ۔ دونوں نے اسے کہا کہ وہ زندگی کی آخری نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ ابو سفیان نے انہیں اجازت دے دی ۔
خالد اب مدینے کی طرف جارہا تھا ۔ اسے جب وہ منظر یاد آیا کہ دونوں قیدیوں کے ہاتھ کھول دیے گئے اور وہ قبلہ رو ہوکر نما ز پڑھنے لگے۔ خالد پر اس وقت جو اثر ہوا تھا وہ اب چار برس بعد اس کی ذات سے ابھر آیا۔
(جاری ہے)
گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے خالد کا سر جھک گیا ۔
خبیب بن عدی اور زید بن الدثنہ رضی اللہ عنہما ہجوم کی چیخ و پکار سے لاتعلق، اپنی موت سے بے پروا خدا کے حضور رکوع و سجود میں محو تھے ۔ انہوں نے نہایت اطمینان سے نماز پڑی۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ کوئی نہیں بتاسکا تاریخ بھی خاموش ہے کہ انہوں نے خدا سے کیا دعا مانگی انہوں نے خدا سے نہیں کہا ہوگا کہ دشمن انہیں آزاد کردے۔
وہ اٹھے اور خود ہی لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ پیٹھیں لگاکر کر کھڑے ہوگئے ۔
”او بدقسمت انسانو!“…ابوسفیان نے بڑی بلند آواز سے خبیب اور زید سے کہا …”تمہاری قسمت اور تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں ہے ۔ اپنی زبانوں سے کہہ دو کہ ہم اسلام کو ترک کرتے ہیں اور اب ہم اہل قریش میں سے ہیں اور ۳۶۰بتوں کو برحق مانتے ہیں …یہ اعلان کرو اور اپنی زندگیاں مجھ سے واپس لے لو ۔
اگر نہیں تو موت کو گلے لگاؤ ۔ یہ بھی سوچ لو کہ تمہاری موت سہل نہیں ہوگی “
”اے باطل کے پچاری ابو سفیان!“…زید کی آواز گرجی…”ہم لعنت بھیجتے ہیں پتھر کے ان بتوں پر جو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی کو بھی نہیں اڑاسکتے۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں عزیٰ اور ہبل پر جو تمہیں اگلے جہاں دوزخ کی آگ میں پھینکیں گے ہم پجاری ہیں اس ایک اللہ کے جو رحمان اور رحیم ہے اور ہم عاشق ہیں محمد کے جو اللہ کے رسول ہیں “
”میرا راستہ وہی ہے جو زید نے تمہیں دکھادیا ہے “…خبیب نے بلند آواز سے کہا …”اے اہل مکہ! سچا وہی ہے جس کے نام پر ہم قربان ہورہے ہیں ہمیں نئی زندگی ملے گی جو اس زندگی سے بہت زیادہ حسین اور مقدس ہوگی “
”باندھ دو انہیں کھمبوں کے ساتھ “…ابوسفیان نے حکم دیا …”یہ موت کا ذائقہ چکھنے کے مشتاق ہیں “
دونوں کے ہاتھ پیچھے کرکے کھمبوں کے ساتھ جکڑ دیے گئے ۔
ابوسفیان نے گھوڑا موڑا اور ہجوم کی طرف آیا ۔
”عزیٰ اور ہبل کی قسم!“…ابوسفیان نے بلند آواز میں ہجوم سے کہا …”میں نے اپنے قبیلے میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جو اپنے سردار پر اس محبت اور ایثار سے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جس طرح محمد کے پیروکار اس کے نام پر فدا ہوتے ہیں “
ہند اپنے گھوڑے پر سوار کچھ دور کھڑی تھی ۔
اس کے قریب اس کے چند ایک غلام کھڑے تھے ۔ ایک غلام نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے جوش کا یہ مظاہرہ کیا کہ برچھی تان کر دونوں قیدیوں کی طرف کسی کے حکم کے بغیر بڑا تیز دوڑا اور کھمبے سے بندھے زید کے سینے پر برچھی کا اتنا زور دار وار کیا کہ برچھی کی انی زید کی پیٹھ سے باہر نکل گئی ۔ زید بن الدثنہ فوراً شہید ہوگئے ۔
اس غلام نے سینہ تان کر ہجوم کی طرف خراج تحسین کی توقع پر دیکھا لیکن ہجوم کچھ اور ہی قسم کا شور بلند کرنے لگا۔
تماشائی کہتے تھے کہ یہ کوئی تماشا نہیں ہوا۔ یہ مسلمان اتنی سہل موت کے قابل نہیں۔ ہمیں کوئی تماشہ دکھاؤ۔
”قتل کردو اس غلام کو جس نے ایک مسلمان پر اتنا رحم کیا ہے کہ اسے اتنی جلدی مارڈالا ہے “ہند نے دبنگ آواز میں کہا ۔
کئی آدمی تلواریں اور برچھیاں لہراتے اس غلام کی طرف دوڑے لیکن بہت سے آدمی دوڑ کر ان آدمیوں اور غلام کے درمیان آگئے ۔
”خبردار! پیچھے کھڑے رہو “ایک آدمی نے جو گھوڑے پر سوار تھا للکار کر کہا …”عربی خون اتنا بزدل نہیں کہ دو آدمیوں کو باندھ کر مارنے کے لیے قریش کا پورا قبیلہ اکٹھا ہوگیا ہے خدا کی قسم ابو سفیان کی جگہ میں ہوتا تو ان دونوں آدمیوں کو آزاد کردیتا ۔ یہ ہمارا خون ہے اور یہ ہمارے مہمان ہیں ہم ان سے میدان جنگ میں لڑیں گے ۔ “
”یہ ٹھیک کہتا ہے “…ہجوم میں سے کئی آوازیں سنائی دیں۔
…”دشمن کو باندھ کر مارنا عرب کی روایات کے خلاف ہے“
تماشائیوں کے ہجوم میں سے بے شمار آوازیں ایسی سنائی دے رہی تھیں جو کہتی تھیں کہ ہم تماشادیکھیں گے ہم دشمن کو اس طرح ماریں گے کہ وہ مر مر کے جئیے۔
تھوڑی دیر بعد تماشائیوں کا ہجوم دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک گروہ خبیب کے قتل کے خلاف تھا۔ اسے وہ عرب کی روایتی بہادری کے منافی سمجھتا تھا اور دوسرا گروہ خبیب کو تڑپا تڑپاکر مارنے کے نعرے لگارہا تھا۔
خالد نے جب اہل مکہ کو اور دور دور سے آئے ہوئے تماشائیوں کو اسطرح ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا تو دہ دوڑتا ہوا ابو سفیان تک گیا۔
”دیکھ لیا ابو سفیان!“…خالد نے کہا …”دیکھ لیا یہاں میرے کتنے حامی ہیں ۔ ایک کو ماردیا ہے دوسرے کو چھوڑ دو ، ورنہ اہل قریش آپس میں ٹکرا جائیں گے “
ہند نے خالد کو ابو سفیان کے پاس کھڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ خالد بھی خبیب کی رہائی کا حامی ہے ۔
ہند نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ان دونوں کے پاس جاپہنچی۔
”خالد! “…ہند نے سخت بپھری ہوئی آوا ز میں کہا …”میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو ۔ کیا تم ابو سفیان کو اپنا سردار نہیں مانتے َاگر نہیں تو یہاں سے چلے جاؤ میں نے جو سوچا ہے وہ ہوکر رہے گا “
”خالد!“…ابوسفیان نے کہا …”اگر تم سمجھتے ہو کہ میرا حکم اور میرے ارادے صحیح نہیں تو بھی مجھے ان پر عمل کرنے دو۔
اگر میں نے اپنا حکم واپس لے لیا تو یہ میری کمزوری ہوگی۔ پھر لوگ میرے ہر حکم پر یہ توقع رکھیں گے کہ میں اپنا حکم واپس لے لوں“
خالد کو آج مدینے کے راستے میں یاد آرہا تھا اور اسے افسوس ہورہا تھا کہ اس نے ابو سفیان کا حکم مان لیا تھا۔ خالد کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی نظم و نسق اور اپنے سردار کی اطاعت تھے۔ اس نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر صرف اس لیے ابو سفیان کا حکم مان لیا تھا کہ اہل قریش میں حکم عدولی کی روایت قائم نہ ہو۔
”اے اہل مکہ !“…ابو سفیان نے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تماشائیوں سے بلند آواز میں کہا …
”اگر آج یہاں دو مسلمانوں کے قتل پر ہم یوں بٹ گئے تو ہم میدان جنگ میں بھی کسی نہ کسی مسئلے پر پھٹ جائیں گے اور فتح تمہارے دشمن کی ہوگی “اگر اپنے سردار کی اطاعت سے یوں انحراف کروگے تو تمہارا انجام بہت برا ہوگا۔“
ہجوم کا شورکچھ کم ہوگیا لیکن خالد نے دیکھا کہ اہل مکہ کے کئی ایک سردار چہروں پر نفرت کے آثار لیے واپس گھروں کو جارہے تھے ۔
انہیں دیکھ کر بہت سے لوگ بھی جو تماشہ دیکھنے آئے تھے واپس چلے گئے ۔ خالد وہاں نہیں رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ دونوں گروہ آپس میں ٹکرا جائیں گے ۔ اس کے اپنے قبیلے کے زیادہ تر لوگ تماشائیوں میں موجود تھے ۔ وہ کم از کم اپنے قبیلے کو اپنے قابو میں رکھ سکتا تھا ۔
######