میں اور سندو، باہر جانے والے مرکزی گیٹ کی جانب بڑھتے چلے گئے۔یہاں تک کہ ہم گیٹ سے باہر آگئے ۔وہاں آکر میں نے طویل سانس لی اور چاروں طرف دیکھا۔ محل نما اس عمارت کے آگے کافی دور تک میدان تھا۔کافی فاصلے پر گھنا جنگل دکھائی دے رہاتھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہر طرف سے اس محل نما عمارت کو جنگل نے گھیرا ہوا ہے ۔ میں جائزہ لے رہا تھا کہ سندو نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”تمہیں یقین ہے کہ تم اس گھنے جنگل سے گزر کر ساحل تک پہنچ جاؤ گے؟“
”تم میرے ساتھ کیوں آ ئے ہو ؟“ میں نے جواب دینے کی بجائے سوال کر دیا ۔
”میرا دل کہتا ہے کہ میں تم پر بھروسہ کر لوں۔حالانکہ میں تمھارا نام تک نہیں جانتا۔“ اس نے خوشگوار لہجے میں کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
(جاری ہے)
”تو پھر تم اپنا بھروسہ قائم رکھو۔
ہم نہ صرف ساحل تک جائیں گے بلکہ ساحل سے بھی آگے جائیں گے ۔ باقی رہی نام کی بات تو مجھے جمال کہتے ہیں۔“
”مطلب مسلمان ہو اور پاکستانی۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ بہت کچھ سمجھ گیا ہو۔
”چلیں پھر ؟“ میں نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے قدم بڑھا دئیے ۔
اسے میں سمجھاتا بھی تو میری بات اس کی سمجھ میںآ نے والی نہیں تھی۔
کیونکہ میں نے اپنا مقصد دیکھ کر سمجھا تھا۔ میں نے سمجھ لیا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے ۔ میرے مقصد کا تعین ہو گیا تھا۔ اب میری زندگی میری نہیں رہی تھی۔ میں مشاہدہ کر چکا تھا۔
وہ لوگ جو موت سے بھاگتے ہیں، موت ان کے تعاقب میں رہتی ہے اور جو لوگ موت کا تعاقب کرنے لگیں، زندگی خود اس کی حفاظت کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ایسا انہی لوگوں کا مقدر ہوتا ہے جو اعلی مقصد لے کر چلتے ہیں۔
پھر کائنات کے تمام ذرائع اس کے مدد گار بن جاتے ہیں۔ یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں، تاریخ کے اوراق ایسی بے شمار مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ زندگی وجود کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ اس کاتعلق اعمال کے ساتھ ہے۔
کچھ ہی دیر بعد ہم گھنے جنگل میں داخل ہو چکے تھے۔ ہمارے پاس ہتھیار نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ جس طرح صحرا کی اپنی مخصوص آواز ہوتی ہے ، اسی طرح جنگل کی بھی اپنی ایک مخصوص آواز ہوتی ہے ۔
فرق صرف یہ ہوتاہے کہ جنگل میں پرندے بولتے ہیں اور ہوا کی سرسراہٹ سے آواز بدل جاتی ہے۔مختلف پرندوں کی مختلف بولیاں سماں باندھ دیتی ہیں۔اگر خوف کو خود پر مسلط کر لیا جائے تو یہی آوازیں قدم قدم پر ڈرا دینے کا باعث بن جاتی ہیں۔ یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے ۔ کوئی بھی مقصد لے کر چلو، وہ مقصد کتنا ہی اعلی اور پاکیزہ کیوں نہ ہو ، ابتدائے سفر ہی سے مختلف بولیاں سنائی دینے لگ جائیں گی۔
منفی ، مثبت بولیاں، جن میں اگر بندہ اُلجھ گیا تو مقصد کی راہ کھوٹی ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو اپنے مقصد پر نگاہ رکھتے ہوئے بولیاں تو سنتے ہیں لیکن ان پر توجہ نہیں دیتے،وہی اکثر کامیاب ٹھہرتے ہیں۔
خوف انسانی صلاحیتوں کو نگل لیتا ہے۔دشمن اسی ہتھیار سے ختم کرنے کی ابتدا کرتا ہے۔ لیکن اگر بندے کے پاس اعلی مقصد ہو تو دشمن کا پیدا کیا ہوا یہی خوف ایک ہتھیار بن جاتا ہے۔
دشمن سمجھتا ہے کہ ڈر گیا، اس وقت وہ پوری طرح اپنی خباثت ظاہر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ منافقین بھی پوری طرح ننگے ہو جاتے ہیں۔ یہاں مقصد کی نہ صرف جیت ہوتی ہے بلکہ اسے زندگی مل جاتی ہے اور دشمن کا پھیلایا ہوا خوف دشمن ہی کی موت بن جاتا ہے۔یہیں معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کی اوقات کیا ہے۔
ہم جنگل میں داخل ہو کر اس کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلتے چلے جا رہے تھے۔
مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ عمارت سے ساحل تک کا کتنا سفر ہے ۔ اس لیے معلومات لینے کی خاطر اور وقت گزاری کے لیے میں نے سندو سے پوچھا کہ شاید اسے معلوم ہو تو اس نے کہا۔
”میں نے یہیں سے سنا ہے کہ ہر طرف سے چھ کلو میٹر ہے۔ مطلب بارہ کلومیٹر محیط کا یہ جزیرہ ہے ۔“
”اور کیا سنا ہے اس کے بارے میں؟“ میں نے مزید معلومات کے لیے پوچھا۔
”وہی جو ان لوگوں نے بتایا۔ خونخوار جانور ، وحشی جنگلی اور یہ بھیانک جنگل۔“ یہ کہہ کر وہ ہنس دیا
”اگر راستے میں کوئی نہیںآ یا تو ہم دوپہر سے پہلے ساحل تک پہنچ جائیں گے ۔“ میں نے کہا اور ایک زور دار قہقہہ لگا دیا۔ یہ میرا پاگل پن نہیں تھا بلکہ میں سندو کو حوصلہ دے رہاتھا اور شاید وہ بھی ایسا ہی سوچ رہا تھا۔
ہمیں اندازہ نہیں تھاکہ ہم کتنا سفر طے کر آئے ہیں۔
ایک جگہ تالاب بنا ہوا تھا۔اس میں شفاف پانی تھا۔ پانی کو دیکھتے ہی پیاس ابھر آئی ۔ میں ایک تنے کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سندو نے تالاب کے پانی کو چکھا اور پھر سیر ہو کر پی لیا۔ میں اس وقت پانی پینے کے لیے اٹھ گیاتھا، جب ایک تیر میرے سر کے اوپر درخت میں لگا۔ ایک دم سے میری ساری حسیں بیدار ہو گئیں ۔ سندو بھی دیکھ چکا تھا۔ وہ بھی چوکنّا ہو گیا۔
مجھے یہی اندازہ کرنا تھاکہ یہ تیر آیا کس طرف سے تھا۔ میں محتاط نگاہوں سے ہر طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک سات آٹھ جنگلی ہمارے سامنے نمودار ہوگئے ۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے ،بھالے اور تلوار نما ہتھیار تھے ۔ مختلف عمروں کے کالے سیاہ ننگ دھڑنگ جنگلی جنہوں نے اپنے ارد گرد جین یا مختلف کپڑوں کے شارٹس پہنے ہوئے تھے ۔ اس پر انہوں نے پتے اور پَر باندھے ہوئے تھے۔
انہوں نے ہمیں گھیر لیا تھا۔میں اور سندو نے ایک دوسرے کے ساتھ کمریں جوڑ لی تھیں ۔ ہم سبھی ایک دوسرے کو نظروں ہی نظروں میں تول رہے تھے۔ میں ان کے پینترے سمجھنے کی کوشش کر رہاتھا۔ وہ محتاط انداز میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ ہم پر اکٹھے ہوکر حملہ کرتے میں نے سامنے والے جنگلی پر حملہ کی جھکائی دے کر بالکل دائیں جانب والے پر جا پڑا۔
وہ بلاشبہ اس پینترے میں تھا کہ میں سامنے والے پر حملہ کردوں گا تو مجھ پر ٹوٹ پڑے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ، اس کی لمحہ بھر کی غفلت کا میں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسے لیتا ہوا زمین پر جا پڑا۔ میں وہیں ٹکا نہیں رہا۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ میں نے وہ چھینا اور وہاں سے چشم زدن میں ہٹ گیا۔ اسی لمحے وہاں تلوار اور بھالے کے وار ہوئے۔میں نے دیکھا ان کا دائرہ ٹوٹ چکا تھا۔
تین جنگلی نہتے سندو کو گھیرے ہوئے تھے۔اسی لمحے میں نے ایک چیخ ماری اور نیزہ سیدھاکر کے ان کی جانب بھاگا۔ چیخ سے وہ میری جانب متوجہ ہوگئے۔ سندو نے اس کا فائدہ لیا اور ان کے گھیرے سے باہر آ کر ایک جانب بھاگ گیا۔ میں نے نیزہ اس کی جانب پھینک دیا، جیسے اس نے پکڑلیا۔وہ جنگلی کچھ قدم پیچھے ہٹ گئے تھے ۔ پہلا بھرپور ہلہ ان پر نفسیاتی دباؤ ڈال گیا تھا۔
ہم آمنے سامنے تھے ۔ وہ سب ایک طر ف اور ہم دونوں ایک جانب تھے۔ وہ سبھی ایک جان ہو کر ہم پر حملہ آور ہوئے ۔ میں ذرا سا ترچھا ہوا اور ایک جانب بھاگ نکلا۔وہ آدھے بٹ کر میری جانب آگئے۔ میں وہیں گھومتے ہوئے انہیں اپنے پیچھے لگا کر بھاگتارہا، پھر اس وقت جب کے میں نے انہیں خود کو پکڑنے کا موقعہ دے دیا ، اور وہ میرے قریب آ گئے تو میں ایک دم رُک گیا۔
وہ مجھ سے آلگے۔ میرے ذہن میں تھا کہ کس کے پاس تلوار ہے اور کس کے پاس بھالا۔ وہ میرے اوپر سے آگے جا گرے ۔ اسی وقت میں نے ایک سے تلوار چھینی اور لیٹے ہوئے ایک جنگلی کی گردن پر رکھ دی ۔
”اپنے ساتھیوں سے کہو وہ ہتھیار پھینک کر دور ہٹ جائیں۔“ میرے یوں کہنے پر اس وہ آ نکھیں پٹپٹا کر مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے اسے میری بات کی سمجھ نہ آئی ہو۔
تاہم باقی ٹھٹک گئے تھے۔ میں چند لمحے انتظار کیا ، پھر بولا،”میں جانتا ہوکہ تم لوگ انگریزی سمجھتے ہو۔ میں تین تک گنوں گا۔“ یہ کہہ کر میں نے تلوار کی نوک اس کی گردن میں چبھو دی۔ وہ تڑپ اٹھا۔ اس نے تیزی سے انگریزی میں اپنے ساتھیوں سے وہی کہاجو میں اسے کہہ چکا تھا۔ انہوں نے ہتھیار پھینک دئیے۔
سندو نے جلدی سے وہ سب ہتھیار اکٹھے کرلئے۔
تب میں نے سب کو زمین پر لیٹ جانے کا کہا تو وہ لیٹ گئے۔ تبھی سندو نے زور سے پنجابی میں پوچھا۔
”تمہیں کیسے اندازہوا کہ یہ انگریزی جانتے ہیں۔“
تب میں نے انگریزی ہی میں جواب دیا
”یہ جنگلی نہیں ہیں، بلکہ اس جزیرے کے وہ مقامی لوگ ہیں ، جنہیں انہوں نے اپنی سیکورٹی اور لوگوں کو ڈرانے کے لیے رکھا ہوا ہے ۔“
”تمہیں پتہ کیسے چلا؟“
”ان کے شارٹس، اور پھر ان کے پینترے دیکھ کر، ممکن ہیں ان کے آباؤ اجداد جنگلی ہوں ، مگر یہ نہیں ہیں۔
“ میں نے کہا اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر بولا،”بتاؤ ، میں سچ کہہ رہا ہوں؟“
جس پر اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہاں کا اشارہ کر دیا۔ پھر ذرا مشکل انگریزی میں بولا
”تم ہم سے تو بچ جاؤ گے لیکن ، آگے کیا کرو گے۔ جنگل کے درندے ہیں اور گن بردار سیکورٹی گارڈ۔“
”یہ ہماری قسمت ہے ،ہم تمہیں بھی کچھ نہیں کہنا چاہتے، نہ مارناچاہتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف دیناچاہتے ہیں۔
اگر تم ہمارے راستے سے ہٹ کر چلے جاؤ۔“ میں نے لہجے میں ہمدردی بھرتے ہوئے کہا۔
”ہم چلے جاتے ہیں۔“ اس نے کہا تو میں نے فوراً تلوار اس کی گردن سے ہٹا لی۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے ساتھ باقی بھی اٹھ گئے۔ وہ ایک ساتھ ہو کر کھڑے ہوئے اور ہمارے آگے جھکے ، اس لمحے انہوں نے ہم پر چھلا نگیں لگا دیں۔ میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں غیر محتاط تھا، سندو کچھ زیادہ تھا۔
وہ ہم پر ٹوٹ پڑے ۔ چار میری طرف اور تین سندو کی جانب۔ انہوں نے ہمیں مکوں اور ککوں پر رکھ لیا۔ تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی۔ میں مار کھاتے ہوئے یہی کوشش کر رہا تھاکہ کسی طرح مجھے موقعہ مل جائے ۔ ایک کے مکے سے میرے گال کی جلد پھٹ گئی تھی ،جس سے لہو بہنے لگا تھا۔ان کی رفتار ذرا سی ڈھیلی ہوئی تو میں نے ایک کی گردن پر ہاتھ ڈال دیا۔ ہلکی سی آواز آئی وہ تڑپنے لگا۔
میں نے اسے چھوڑا تو وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ باقی تو مجھے مار ہی رہے تھے ، میں نے دوسرے کی گردن کو قابو کیا ، اور اس کی گردن کی ہڈی توڑ کر اسے پھینک دیا۔ باقی دو مجھے حیرت سے دیکھنے لگے ۔ یہی لمحہ مجھے چاہئے تھا۔ میں نے اپنا گھٹنا ایک کی ٹانگوں کے درمیان مارا وہ دہرا ہوا تو اس کی گردن میرے ہاتھ میں تھی ۔
اگلے چند لمحوں میں وہ بھی زمین پر تھا۔یہ دیکھ کر چوتھا بھاگ اٹھا۔ باقی تینوں سندو کو بے دردی سے مار رہے تھے ۔ وہ لہو لہان ہو رہاتھا۔ میں نے تلوا ر اٹھائی اور ان کی طرف بھاگا۔ میں نے جاتے ہی ایک کی کمر میں تلوار گھسا دی۔ اس کی لرزا خیز چیخ فضا میں پھیل گئی ۔ باقی دونوں رُک گئے۔ و ہ حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے انہیں موقعہ نہیں دیا۔
ایک کے چرکا لگا تو وہ بلبلا اٹھا۔ تب تک سندو بھی سیدھا ہو گیا تھا۔ اس نے تلوار مجھ سے پکڑی تو ایک بھاگ نکلا، مگر سندو نے اسے جانے نہیں دیا۔ اس نے بھاگتے ہوئے اس جنگلی کو پکڑا اورتلوار اس کے پیٹ میں گھسا دی۔
”سندو ، یہاں سے فوراً نکلو، ان کی چیخیں بہت دور تک گئی ہوں گی۔ ممکن ہے ان کے مزید لوگ آ جائیں ۔“ میں نے کہا تو اس نے ایک بھالا اٹھایا ،باقی ہتھیار تالاب میں پھینکے اور میرے ساتھ چل دیا۔
اس دوران ہم نے دوچار چلّو پانی پی لیاتھا۔ اگلے چند لمحوں میں وہاں سے نکل گئے تھے۔
کافی دور جانے کے بعدہم ایک ایسے گھنے درخت کے نیچے رُک گئے، جس کی شاخیں زمین سے لگ رہیں تھیں۔ مجھے میرا زخم تکلیف دے رہاتھا۔ اس وقت مجھے شدت سے احساس ہوا کہ مجھے ان جڑی بویٹوں کے بارے میں بھی معلوم ہونا چاہئے ، جو زخموں کو فوراً آرام دے دیتی ہیں۔
میں نے اس حوالے سے سندو سے کہا تو وہ کراہتے ہوئے بولا۔
”بھائی جی میں کئی بار ایسے مرحلوں سے گذر چکا ہوں۔ میں جانتا ہوں۔ لیکن ابھی مجھے وہ بوٹی دکھائی نہیں دی ۔“
”چلو پھر چلتے ہیں۔“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو اس نے نگاہوں ہی نگاہوں میں سستانے کا کہتے ہوئے بولا۔
”بہت مارا ہے ظالمو ں نے۔“
”مجھے تو اب یہی معلوم ہے کہ ہر لمحہ دشمن سے خبردار رہو ، اب بھی وہ ہر آنے والی رکاوٹ جو ہمارا رستہ روکے گی وہی ہماری دشمن ہے ، حالات اور نوعیت کے ساتھ دشمن بھی بدل جاتا ہے۔
“ میں نے کہا تو وہ سر ہلانے لگا۔ جیسے وہ میری بات سے اتفاق کر رہا ہو ۔ ہم وہاں کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ متوقع دشمن سے کیسے نپٹنا ہے ، یہ ہم نے طے کر لیا تھا۔
ء…ء…ء