برف میں جمے ہوئے سانپ میں اگر حرکت نہیں ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں زہر ختم ہو گیا ہے۔ یہ ایک بہت پرانی کہانی ہے ، لیکن یہ کہانی آج بھی اسی طرح تازہ ہے ، جس طرح یہ تب تھی، جب یہ کہیں کسی نے سنائی تھی۔دشمن وقتی طور پر اگرجمے ہوئے سانپ کی طرح ہو جائے تو اس میں سے زہر نکل نہیں جاتا۔ زہر ویسا ہی رہتا ہے۔
نور نگر میں جوگی رام لعل اور ملنگ کی موجودگی یہ ظاہر کر چکی تھی کہ ” را“ کی رسائی نجانے کب سے وہاں تک تھی۔
بہت پہلے بھی میں نے اسی علاقے سے بندے پکڑے تھے۔اور اب اگر کرنل سرفراز نے وہاں سے اماں اور دوسرے لوگوں کا نکالا تھا تو اس کی ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی۔ جبکہ مجھے اطمینان اس بات کا تھا کہ اشفاق چوہدری نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ نور نگر سے سب اچھا ہی کی رپورٹ تھی۔
(جاری ہے)
اس وقت میں صبح کی ملجگی روشنی میں ٹیرس پر کھڑا چائے پی رہا تھا ، سوہنی کا گھر کچھ اس طرح تھا کہ سامنے سے آنے والی سڑک اس کے گیٹ تک آتی تھی۔
پھر دائیں اور بائیں مڑجاتی تھیں۔بالکل انگریزی کے حرف ” ٹی “ کی طرح۔ یہاں ٹیرس سے سامنے مین روڈ صاف دکھائی دیتا تھا۔ میں ادھر ہی دیکھ رہا تھا کہ ایک لگژری وین گیٹ پر آکر رُکی اور اس میں سے سب اُترنے لگے۔ وہ سارے آ گئے۔ بانیتا کور نے مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور پھر اندر آ گئی۔ میں نے سوچا چائے ختم کر کے ہی نیچے جاتا ہوں میں وہاں کھڑا رہا ۔
میں وہاں سے پلٹ کر جانے ہی والا تھا کہ دو موٹر سائیکل سوار سامنے سے آ تے ہوئے دکھائی دیئے ۔ یہ معمول تھا۔ سو میں اپنے کمرے میں آیا تو بانیتا کور کمرے میںآ چکی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولی
” سب آ گئے اور اپنے کمروں میں بھی چلے گئے ہیں، وہ بہت تھکے ہوئے ہیں۔ آؤ سو جاؤ۔“
” نہیں تم آرام کرو، مجھے اب نیند نہیںآ ئے گی۔ میں واپس چھت پر جا رہا ہوں۔
“ میں نے کہا اور باہر نکل گیا۔ بانیتا کور میرے بیڈ پرلیٹ گئی تھی۔
میں دوبارہ چھت پر آ گیا۔ میں جیسے ہی چھت پر آ یا، میرے سامنے کی روڈ پر کھڑے دو نوں موٹر سائیکل سوار مجھے دیکھ کر ایک دم سے ہراساں ہو گئے۔ وہ دوسری طرف دیکھنے لگے تھے، پھر زیادہ وہاں کھڑے نہیں رہ سکے، اور فوراً ہی نکل گئے۔ میں بھی چونک گیا کہ وہ وہاں کیوں کھڑے تھے اور اب بھاگ بھی گئے ہیں۔
میں نے یہ اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ ان دونوں موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹ نہیں تھی۔بلاشبہ وہ مشکوک تھے۔اس وقت میں نے دارے کو فون کیا۔ وہ ابھی جاگ رہا تھا، سویا نہیں تھا۔
” ہاں۔! کیا بات ہے ، چائے لاؤں؟“ دارے نے پوچھا تو میں نے کہا
” سب کو جگا دو، اور انہیں کہہ دو کہ محتاط ہو جائیں، میں ابھی آ تا ہوں۔“
شاید میرے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ اس نے تیزی سے کچھ پوچھا تھا، جسے میں نے نہیں سنا۔
گیٹ پر سیکورٹی گارڈ کے نام پر ایک آدمی ہی تھا۔ میں نے اس فون کر کے اندر کی جانب ہو جانے کو کہا اور پھر نیچے آ گیا۔ جب تک میں نیچے آ یا سبھی ڈرائنگ روم میں آ گئے تھے، سوائے بانیتا کور کے۔ میں نے انہیں اپنے شک کے بارے میں بتایا تو سب سے پہلے سلمان ہی نے کہا
” ہاں، جب میں وین والے کو واپس بھجوا رہا تھا، اس وقت ہی وہاں دو بندے ایک موٹر سائیکل پر آ ئے تھے۔
“
” اگر یہ صورت حال ہے تو ہمیں ایک چکر اس علاقے کا لگا لینا چاہئے۔ اگر کوئی ہماری تاک میں ہوا تو سامنے آ جائے گا۔“ جنید نے اپنے دونوں پسٹل شرٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔
” ہاں ، انتظار کرنے سے زیادہ علاقہ دیکھ لینا چاہئے ۔ احتیاط زیادہ بہتر ہے۔“ زویا نے کہا
” چلیں ایسا کرتے ہیں آ ج باہر ہی سے ناشتہ کرتے ہیں۔“ مہوش نے زویا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہی تھا کہ باہر سے سیکورٹی گارڈ نے اونچی آ واز میں بلایا۔
سب تیزی سے باہر جانے لگے تو میں نے انہیں روک دیا۔
” میں دیکھتا ہوں۔“ میں نے کہا اور آ گے بڑھ گیا۔
” کیا بات ہے ؟“ میں نے اس کے قریب جا کر پوچھا۔ اس نے گیٹ کی جھری میں سے باہر کی جانب اشارہ کیا۔ میں نے باہر دیکھا تو سامنے سڑک پر ایک سیاہ رنگ کی فور وہیل کھڑی تھی۔ اگرچہ وہ گیٹ سے کافی دور تھی لیکن اس کے کھڑے ہونے کے انداز ہی سے شک ذہن میں لہرا گیا۔
میں اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ ایسے میں ایک اور فوروہیل اس کے پیچھے آ ن کھڑی ہوئی۔ میرے دماغ میں خطرے کا الارم بج گیا۔
میں پلٹنا ہی چاہتا تھا کہ اسی لمحے ایک فور وہیل گیٹ کے پاس آ ن رکی ۔ اس میں سے دو آ دمی نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں گنیں تھیں۔ وہ جس وقت تک گنیں سیدھی کر کے گیٹ کی جانب مڑے، اس وقت تک میں اپنا پسٹل نکال لیا تھا۔ جیسے انہوں نے گیٹ کو ہاتھ لگایا، اسی وقت، وہ یوں پیچھے پلٹ کر گرے ، جیسے انہیں کرنٹ لگ گیا ہو۔
اس کے ساتھ ہی فور وہیل کی چھت پر گولیاں لگیں۔ میں نے پیچھے مڑکر دیکھا، چھت پر بانیتا کور کھڑی تھی، اس کے دونوں ہاتھوں میں پسٹل تھے۔ میں اوٹ میں ہو گیا اور جھری میں سے باہر دیکھا۔ سامنے والی فوروہیل تیزی سے آگے بڑھی تھی۔ میں نے اس کے ٹائیروں کا نشانہ لیا تو اس کے ٹائر ایک دھماکے سے پھٹ گئے۔
اچانک ہی اس فوروہیل کی چھت کھلی اور اس میں سے ایک بندہ باہر نکلا۔
اس کے ہاتھ میں راکٹ لانچر تھا۔ وہ بہت خطر ناک تھا۔ اس سے نکلا ہوا فائر بم کی طرح تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ سیدھا ہو کر فائر کرتا، میں نے اس کے سر کا نشانہ لیا۔ میں فائر نہیں کر سکا تھا لیکن اس سے پہلے ہی وہ لڑھک گیا۔ میں نے دیکھا۔ جنید اور اکبر نجانے کب چھتوں کو پھلانگتے ہوئے ان کے سر پر جا پہنچے تھے ۔ یہ انہوں نے ہی فائر کئے تھے کہ وہ چھت میں سے گن سیدھی ہی نہیں کر سکا تھا۔
میں نے گارڈ کو اچانک گیٹ کھولنے کا اشارہ کیا۔ زویا اور سلمان اندر والے کمرے میں کھڑے تھے۔ گیٹ کھلتے ہی گیٹ کے ساتھ کھڑی فور وہیل سامنے آ جاتی۔ لیکن جیسے ہی گیٹ کھلا، اس وقت تک وہ بیک گئیر میں واپس مڑ چکی تھی۔ میں نے رسک لیا اور اس کا نشانہ لے فائر کر دئیے۔ سامنے کے دونوں ٹائر دھماکے سے پھٹے تھے۔ مگر وہ رکے نہیں یونہی مڑتے گئے۔ اس وقت سامنے ایک ہی فور ووہیل کھڑی تھی جو اس کے پیچھے آ ئی تھی وہ نجانے کب واپس پلٹ گئی تھی۔