Episode 100 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 100 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

” سرکار آپ فرمائیں؟“ میں نے کہا
” محکومی یہ ہوتی ہے۔ جب دل ، فکر ، جسم ، تقدیر محکوم ہو جاتی ہے ، یعنی دوسروں کے تابع ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ زندگی اور موت بھی غیروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ وہ لذت حیات و موت سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ان کا جینا مرنا بھی اپنا نہیں رہتا۔ حیات جاوادنی کی تڑپ ان میں ختم ہو جاتی ہے۔ عشق ان کے دلوں سے ہجرت کر جاتا ہے۔
وہ تقدیرجو خدا نے مسلمانوں کے دل میں رکھی تھی اس سے ان کی نظریں اٹھ گئیں۔جو دل ہی سے ظاہر ہونا تھی، وہ جمود کا شکار ہوگئی، بے عملی،جہد اورعمل پیہم ان سے تحلیل ہو گئے ۔ “
” اور جن کے اندر یہ آگ پوری طرح موجود ہو؟“ میں نے دھیمے سے لہجے کہا
”باطل کا ارادہ، جس طرح باطل، اپنی باطل فکر کو تخلیق کرتا ہے۔

(جاری ہے)

اسی طرح مرد حق، قوم کی تقدیر کو تخلیق کرتا ہے ۔

قوم جب غلامی ، محکومی، مجبوری اور محتاجی کو اپنی تقدیر سمجھ لیتی ہے ، وہیں آ کر ایک مرد قلندر، مردحق اس تقدیر کو توڑ دیتا ہے ۔’ تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں… نادان جسے سمجھے تقدیر کا زندانی‘ ۔ مرد حق، حق اندیش و حق بیں ہوتا ہے ۔ وہ اپنے ارادے سے قوم کی تقدیر تخلیق کرتا ہے اور، میدان کار گہہ میں، میدان جنگ میں، اس کا تیر، حق کا تیر ہو تا ہے۔
مرد حق زبردست جہاد کرتا ہے اور ان کے دلوں میں عشق کی آگ لگا دیتا ہے۔ جس سے عزم ویقین کی روشنی ہر شے واضح کر دیتی ہے۔ ان کے دلوں میں کھوئے ہوئے تشخص کی آرزو پیدا کر دیتا ہے، اس طرح مردہ دلوں کو زندہ کر دیتا ہے۔ وہ ہدف جو ان کے سینوں سے نکل کر انہیں بے ہدف کر گیا تھا، اور جن کی وجہ سے وہ بے ہدف ہو گئے تھے، اس وجہ کو ختم کر کے ان میں ہدف رکھ دیتا ہے ۔
انہی میں دوبارہ جلوہ گری پیدا کر دیتا ہے اور وہ بے نشانوں میں نشاں کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ افراد ِ قوم نہ صرف اپنے ہدف کو پہچان لیتے ہیں ۔ بلکہ اس پرپورا یقین کرتے ہوئے انہیں پانے کے ایک جہد پیہم، شروع کر دیتے ہیں ۔ ان میں بے عملی ،عمل کی صورت اختیار کر جاتی ہے ۔ وہ مرد قلندر ،جو مصور پاکستان ہے ، اس نے کیا کیا، اس نے اندھیری رات میں قوم کو روشنی ، راہنما دکھایا،بے ہدف سینوں میں ہدف دکھا دیا۔
اس نے غلامی میں سے آزادی دکھائی ۔ موت میں سے حیات دکھا دی، بے یقینی میں سے یقین پیدا کر دیا، جو سینے عشق سے خالی تھے ان میں عشق پیدا کر دیا۔ بت خانہ ء ہندوستان میں ،حرم پاکستان بنا دیا۔ ضمیر کن فکاں تیرے علاوہ کوئی نہیں۔بے نشان کا نشان تیرے علاوہ کوئی نہیں۔ بے تصور کو تصور دیا۔ جس سے فکر تخلیق ہوئی ، نشان ملا ، عمل پیدا ہوا اور پاکستان وجود میں آ گیا۔
“ یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کو خاموش ہوئے پھر جذب سے بولے،” خودی قلندر، مطلب قلندر اور مقصد قلندر۔ ذات قلندر لا الہ الااللہ، ظہورِ قلندر، محمدرسول اللہ ﷺ۔’ قلندر بجز دو حرف لاالہ کچھ نہیں رکھتا،فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا۔“
” اصل میں یہی کام ہے کہ کسی کو ان کی منزل کا نشاں مل جائے۔“ میں نے کہا تو وہ چند لمحے سوچ کر بولے
”جب ہندوستان میں اسلام نہیں پہنچا تھا۔
یہاں بزرگان دین اسلام کا آفاقی و حقیقی انسانیت کا پیغام لے کر آئے ۔ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش، حضرت معین الدین چشتی اجمیری، حضرت بابا فرید الدین کنج شکر۔ حضرت سخی سلطان باہو، حضرت بابا جی محمود شاہ صاحب مبارک اور دوسرے بزگان نے جو عشق کی شمع دلوں میں روشن کی تھی ، وہ کلمہ جو انہوں نے ان کے دلوں میں ڈالا تھا، اسے پاکستان کی صورت میں سامنے لے آئے ۔
” بلاشبہ یہ عطیہ خداوندی ہے۔“ میں نے تبصرہ کیا
” اور سنو۔!اب یہ پا کستان لاالہ الا اللہ ہو گیا ہے۔ اب اس میں محمد رسول اللہﷺ کا ، خدائی اور مصطفائی ﷺ کا نظام ظاہر ہونا ہے۔ جب یہ نظام آ گیاتو پھر اس کی نہ کوئی باطنی عروج کی انتہا ہو گی اور نہ ظاہری ترقی کی انتہا ہوگی۔یہ نظام اسی دل سے ظاہر ہوگا۔’ خودی کا نشمن تیرے دل میں ہے… فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے‘۔
’حریم ذات ہے اس کا نشمن ازلی… نہ خاک تیرہ لحد ہے نہ جلوہ گاہ صفات ۔“
” سرکار یہ نظام کب اس دل سے ظاہر ہوگا؟“ میں نے سوال کیاتو وہ بولے
”زندہ آئین، قرآنی ،نورانی جاودانی ، جس کو حکمتہ بالغہ فرمایا ہے۔ جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو زندگی کو سرتاپا اس کے حقوق عطا کرتا ہے۔ اس کی طرف آ نا ہوگا، جو پرانی رسوم و قیود کو توڑ کر مال و دولت ، رنگ و نسل کے امتیازات کو ختم کر دے۔
فرعونیت و رعیت کی تمیز ختم کر دے ۔ انانیت کو مساوات کے حقیقی فطری اصولوں سے روشناس کردے۔ جو بتاتا ہے کہ اسلام میں کسی قسم کے جمودِ فکری کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ وہ زندگی کے نت نئے تقاضوں سے،نئے چیلنجز سے بر سر پیکار ہو کر ، اس پر پوری طرح غالب ہو نے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح یہ دھارا اپنی لامتناہی منزل کبریائی کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔
’خودی کی ہے یہ منزلِ اولیں …مسافر یہ تیرا ٹھکانہ نہیں۔“
” اب کرنا کیا ہوگا؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولے
”جب یہ پاکستان بن گیا تو کیا ہو ا؟ اصل میں یہ مرد قلندر نے اپنی تیغ خودی کی دھار کی ایک جھلک قوم میں سے دیکھی ہے ۔ ، اب،’ جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہان بینی… جگر خون ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا۔‘ جو پاکستان بننے کے دشمن تھے اب بھی وہی دشمن ہیں۔
اس کے علاوہ جو شیطانی نظام ہے وہ اس کے خلاف ہے۔ اے مسلماں۔! حضرت سلمان  کا معجزہ پھر سے سیکھ لے۔ کہ کوئی شیطان نہیں جو تیری انگھوٹھی کی تاک میں نہ ہو۔ اس دل کی وہ خفیہ نظر بیدار ، ہوشیار اور برق رو سے تیز تر برق افشانی کر، جو اس حرم کے اندر وسوسے، خناس ، شیطانی فکر، فتنوں، غدار، منافق باغی، اور باہر کائنات ۔میں ان بھیس بدلنے والے، عیار ، مکار اور دغا باز دشمن کی گہری چالوں پر نگاہ رکھنے والی نظر، نگہبان حرم ہوشیار۔
نگہبانِ حرم تجھے سلام۔ نگہبان حرم تیرا اللہ نگہبان نظر دل کی حیات جاودانی“ 
” اب میرے لئے کیا حکم ہے ۔“ میں نے پوچھا
”جسم و جان سے گذر کر ، موت وحیات سے گذر کر مکان و زماں سے گذر کر، اس دل کو پالیا۔ دل کو ایسے ہی پایا جاتا ہے۔ دل میں ڈوب کر، حق کے ساتھ محکم ہو کر، دل سے، دردل سے محمد رسول اللہ ﷺ سے ظاہر ہو۔ اب اسی دل سے ظاہر ہو، زماں پر بھی قبضہ کر اور مکاں کو بھی قبضے میں لے لے ۔
یہی خودی ہے۔ جاؤ ،تجھے پیام عشق دے دیا۔ تخلیق کا بھید کن فکاں تیرے علاوہ کوئی نہیں، بے نشان کا نشان تیرے علاوہ کوئی نہیں۔ زندگی کے راستے میں اور بھی بے خوف قدم رکھ ، کیونکہ کائنات میں تیرے سوا کوئی نہیں۔“ یہ کہہ کر انہوں نرم انداز میں آنکھیں بند کی اور خاموش ہو گئے۔ کتنے ہی لمحے وہاں گذر گئے ۔ میں ان کے سامنے بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ وہ انہوں نے آنکھیں کھولیں،میری طرف اجنبیوں کی طرح دیکھا اور وہ بچھا ہوا سفید کپڑا اٹھا کر ایک طرف چل دئیے۔ میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔ میں چونکا اس وقت جب میرا فون بج اٹھا۔ وہ جنید کی کال تھی ۔ وہ قریب ترین سڑک پر آ چکا تھا۔ پھر میں بھی اٹھا اور چل دیا۔
                                        #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط