Episode 118 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 118 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 ” ظاہر ہے اب اگر تم رام لعل کو نہ لے کر گئے تو تم بھی ممبئی میں چین سے نہیں رہ پاؤ گے۔ ٹھیک ہے لے جاؤ اپنے باپ کو، اور اس ملنگ کو بھی۔ اور انہیں یہ باور کرا دینا کہ اب کوئی بندہ ادھر کا رخ نہ کرے۔“ میں نے ایک دم سے فیصلہ سنا دیا تو وہ ایک دم سے خوش ہو گیا۔
” بہت دھنے واد مہاراج۔“ سندر لعل نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو رام لعل کا چہرہ مرجھا گیا تب میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا
” کوئی بات نہیں ، میں تمہیں مناسکر سے واپس منگوا لوں گا، یہ میرا تم سے وعدہ رہا۔
”سچی مہاراج۔“ وہ ایک دم سے کِھل گیا۔
” ابھی جاؤ گے یا…“ میں نے جان بوجھ کر اپنا فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
” جی ابھی ، آج رات ہی، یہاں بھی بندے ہیں، جن کی نگاہ مجھ پر ہے، آپ یہاں ہوئے اور …“ اس نے بھی اپنی بات روک کر کہا تو میں ساری بات سمجھ گیا۔

(جاری ہے)

” اس کا مطلب ہے یہاں پر کام ہو رہا ہے ؟“ میں نے تلخی سے کہا
” جاتے سمے سب کے بارے میں بتا جاؤں گا اور ایک تحفہ بھی دے جاؤں گا۔
“ وہ خوشی سے بولا
” تحفہ، وہ کیا؟“ میں نے پوچھا 
” میں بنیادی طور پر ایک کیمسٹ ہوں، میں نے زہر پر بہت تجربات کئے ہیں۔جس طرح قدرتی شہد کے اپنے اثرات ہوتے ہیں اور ان جیسے اثرات انسانی کوشش پیدا نہیں کر سکتی، اسی طرح سانپ کے منہ میں بنا ہوا زہر بھی اپنی خاصیت رکھتا ہے۔ اس طرح کے خواص کیمیکل سے نہیں بنائے جا سکتے۔ اگر کسی شے میں مہلک اثرات ہیں تو اسی میں زندگی بخش اثرات بھی ہیں۔
ضرورت صرف تلاش کرنے کی ہے۔ سانپ کے زہر کے انسانی بدن پر جو اثرات ہوسکتے ہیں، میں نے ان پر بہت کام کیا ہے ۔اب تک میرے دو تجربے بہت کامیاب ہوئے ہیں۔“ اس نے بتایا
کون سے؟“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا
” میں نے ایک دوا ایسی تیار کی ہے، جو کسی انسان کو ایک خاص مقدار میں دی جائے تو اس کی سوچوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کسی دور میں حشیش سے کام لیا جاتا تھا ، وہ سب وقتی نشے ہیں، لیکن یہ ایسا ہے کہ چند دن تک ایک خاص مقدار بدن میں اتار دی جائے تو انسان کی سوچوں کو تبدیل کر دیا جائے۔
تب اس سے جو چاہے نتیجہ لے سکتے ہیں اور یہ وقتی نہیں ہوتا۔“ اس نے تفصیل سے کہا
” اس کے اثر کو ختم کرنے کے لئے۔“ میں نے پوچھا
” اس کا توڑ ہے ، لیکن میں یہی بتاتا ہو ں کہ اس دوا کا اثر ختم نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ انہی لوگوں کو دی جاتی ہے، جنہیں صرف مرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اسی لئے یہ دوا عام استعمال میں نہیں لائی جاتی اور ایک خاص اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
میں اگر توڑ دے دوں ، تب میری اہمیت تو ختم ہو گئی نا۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
مجھے وہ بہت ہی تیز اور سمجھدار لگا تھا۔ اپنا بچاؤ پہلے سوچ کر رکھنے والا اکثر کامیاب ٹھہرتا ہے۔ 
”اور دوسرا؟“ میں نے پوچھا
” وہ تو عام سا ہے، وہ میں آپ کو اس لئے بتا ررہا ہوں کہ آپ چونکہ بہت تیز خوشبو لگانے کے عادی ہیں، اس لئے میں وہ آپ کو بتا رہا ہوں۔
“ اس نے کہا تو میں چونک گیا،کیا اُسے بھی یہ بہت بری لگ رہی ہے؟ لیکن میں خاموش رہا تاکہ اس کی بات سن سکوں، وہ کہہ رہا تھا،” باتھنگ ٹب میں فقط ایک قطرہ ڈال دیا جائے، اس میں نہائیں، آپ کے بدن سے ایسی بھینی بھینی خوشبو پھوٹنے لگے گی کہ دوسری صنف مدہوش ہو جائے گی۔ یہ چھوٹا سا چمتکار میں نے پیسے بنانے کے لئے کیا ہوا ہے۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا
” کیا یہ چیزیں تم ساتھ میں اٹھائے پھر رہے ہو؟“ بانیتا کورنے پہلی بار بات کی 
 ” بھیس جو بدل کر آنا تھا یہاں اور بھی بہت کچھ ہے جوگی کی پوٹلی میں ۔
“ یہ کہہ کر وہ ہلکے سے ہنس دیا۔
” پہلی والی کا تو ٹھیک ہے، دوسری والی کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ؟“ میں نے پوچھا
” کوئی نہیں، یہ میرے امیر ترین کلائنٹس کے لئے ہے ، لوگ ان سے پوچھتے ہیں یہ پرفیوم دنیا کے کس مقام سے ملتا ہے ، مگر وہ نہیں بتاتے ۔“ اس نے یہ بات سنجیدگی سے کہی 
” اس کا تجربہ کروانے کے لئے تمہیں ایک دن رکنا پڑے گا۔
“ میں نے اُسے کہا تو وہ بولا
” جیسے آپ کی مرضی، میں ایک ہفتہ بھی رک جاؤں گا، پہلے دوا کا تجربہ کر لیں۔“
” ٹھیک ہے ، تم ابھی رہو یہاں پر ، بلکہ پورا پریوار رہے ، صبح سے تجربات کریں گے اور دوسری اگر کوئی چیز ہوئی تو اس پر بھی بات ہو جائے گی ۔“ میں نے کہا
” اور اگر تمہاری باتیں غلط اور تمہارے دعوے جھوٹے ہیں تو ابھی راتوں رات نکل جانا، یہ نہ ہو کہ صبح میرا ارادہ بدل جائے۔
“ بانیتا کور نے کہا تو اس پر سندر لعل کیمسٹ نے گھوم کر اسے دیکھا، پھر نہ جانے کیا سوچ کر خاموش رہا۔وہ آ ہستہ آ ہستہ اپنے سر کو ہلانے لگا تھا۔ میں نے مزید کوئی بات نہیں کی اور اُٹھ گیا۔ میں ملنگ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ میں کمرے سے باہر نکلا تو وہ سامنے کھڑا تھا۔ مجھ سے ہاتھ ملایا تو میں نے پوچھا
” اب کیسے ہو ؟“
” آپ نے ڈیوٹی لگا دی، جو مزہ اس ڈیوٹی میں شاید ہی کسی اور شے میں ہو ۔
“ وہ تشکر بھرے لہجے میں بولا
” چلو باقی باتیں صبح ہو ں گی۔“ میں نے کہا تو کار میں جا بیٹھا۔ اتنے میں وہی سندر لعل تیزی سے میری طرف آیا۔ اس نے ایک کاغذ میری جانب بڑھا کر کہا
” یہ میں نے وہ دوسری دوا کا پورا فارمولا لکھ دیا ہے ۔ یہ کسی بھی ماہر کیمسٹ کو دیکھا دیں، وہ یہ دوا تیار کر دے گا۔ اس سے یہ بھی پوچھ لیں کہ انسانی بدن پر اس کے کیا اثرات ہوں گے اور یہ دوا ، اس کا تجزیہ کروا لیں۔
“ 
میں نے کاغذ کا وہ پر چہ اور دوا پکڑ لی۔ مجھے لگا کہ بانیتا کور کی بات اسے کھا گئی تھی ۔ یہ ایک فطری سی بات ہے ، کسی کی ذات اور کام کو جب نظر انداز کر دیا جائے تو اس کا رد عمل ضرور ہوتا ہے ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ سندر لعل ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ورنہ اس کی موت اس کے سامنے تھی ۔اور پھر یہ بھی ممکن تھا کہ وہ خود کو ختم کر کے ہمیں مار دینا چاہتا ہو۔
کچھ بھی ممکن ہو سکتا تھا۔
حویلی واپس ہوئے آ دھا گھنٹہ گذر گیا۔ راستے میں اشفاق چوہدری یہی کہتا رہا کہ انہیں جس قدر جلدی ہو سکے یہاں سے روانہ کر دینا چاہئے۔ کیونکہ ہم بھی اس کی وجہ سے لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔میں نے ان کے بارے صبح فیصلہ کرنے کا کہا۔ رات گہری ہو گئی تھی ۔ میں بیڈ پر آن لیٹا۔ تبھی مجھے خیال آیا،میں نے اپنے دوست کو فون کیا اور حالات پوچھے۔
اس نے کہا
” وہاں کوئی بندہ نہیں آیا ، جسے مشکوک کہا جا سکے۔ “
” چلو ٹھیک ہے ۔“ میں نے کہا اور سونے کے لئے لیٹ گیا۔بانیتا کور میرے ساتھ بیڈ پر تھی وہ بھی لیٹتے ہی سو گئی۔ رات کافی ہوگئی تھی۔
صبح جب میں بیدار ہوا تو سورج مشرقی افق سے نہیں نکلا تھا۔ میں گہری گہری سانسیں لیتا ہوا حویلی کی چھت پر جانے لگا تو حویلی ہی کے ایک ملازم نے مجھے کہا
” باہر ایک جوگی آ یاکھڑا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے، سندر لعل نام بتایا ہے ۔
” کہاں ہے وہ؟“ 
” میں نے لان میں بٹھایا ہے ۔“ اس نے جواب دیا
” اچھا، میں آتا ہوں۔“ میں نے کہا تو وہ پلٹ گیا۔ میں تھوڑی دیر کاریڈور میں ٹہلتا رہا پھر نیچے چلا گیا۔ وہ لان میں کرسی پر بیٹھا ہو اتھا۔
” کیسے آ ئے صبح صبح، خیریت؟ میں نے پوچھا
” جی، رات وہ آپ کی سیکورٹی گارڈ نے جو بات کہی وہ مجھے بہت کھلی ہے۔
میں صرف اس لئے آیا ہوں کہ خود اپنے سامنے تجربہ کروا سکوں۔ اگر کچھ ہو تو مجھے وہ فوراً شوٹ کردے۔“ اس کے لہجے میں دکھ سے زیادہ اَنّا بول رہی تھی۔
” وہ میری دوست ہے یار۔ تم اس کی بات کا بُرا نہ مناؤ۔ اس نے جو کہا…“ میں نے کہنا چاہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے 
” آپ نے جو میرے باپو پر دیّا کی ہے ، میں ا س کا احسان بھی نہیں دے سکتا۔
آپ چاہتے تو انہیں قتل کر سکتے تھے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، وہ آپ کے دشمن تھے۔ میں یہ ثابت کر کے جاناچاہتا ہوں کہ میں دشمنی نہیں کر رہا ، میں یہاں سے جاؤں گا تو آپ کا احسان مند ہو کر ۔اور جب یہاں سے چلا جاؤں گا تو آپ میرے احسان مند ہوں گے۔ میں آئندہ بھی دوست ہی ثابت ہوں گا۔ آپ نہائیں اس سے، میں ہوں ادھر۔“ اس نے ضدی سے لہجے میں کہا تو میں اس کی ذہنی حالت کو سمجھنے لگا تھا۔
وہ وہاں کا مانا ہوا کیمسٹ اپنے باپ کو بچانے اور ’را‘ کے کہنے پر یہاں آیا تھا۔ اپنی انا پر ہلکی سی ضرب بھی برداشت نہیں کر پایا تھا۔ 
” اچھا، ٹھیک ہے ، آؤ اندر بیٹھتے ہیں اور چائے پیتے ہیں۔“ میں نے کہا تو وہ اُٹھ کر میرے ساتھ اندر آ گیا۔ 
بانیتا کو ر مجھ سے پہلے ہی وہاں موجود تھی ۔ میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی ۔ میں اسے اپنے کمرے میں لے گیا۔
میں نے اس کے سامنے ایک قطرہ ٹب میں ڈالا تو خوشبو ہر طرف پھیل گئی ۔ وہ باہر انتظار کرنے لگا۔ میں خوب نہایا۔یہاں تک کہ میں پر سکون ہو گیا۔ وہ جو تیز خوشبو ، میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی وہ دور ہو گئی ۔ ایک بھینی بھینی خوشبو نے مجھے حصار میں لے لیا۔ جو بہر حال مجھے اچھی لگ رہی تھی۔
” واقعی مست کر دینے والی خوشبو ہے۔“ بانیتا کور نے خمار آ لود آواز میں کہا تو سندر لعل ایک دم سے خوش ہو گیا۔
میں نے ناشتہ لگوانے کا کہہ دیا۔
ناشتے کے دوران وہ بہت ساری باتیں کرتا رہا۔جن میں سے کچھ کی مجھے سمجھ آئی اور کچھ کی نہیں۔جس وقت وہ جانے لگا تو اس نے دو چھوٹی چھوٹی بوتلیں میری جانب بڑھائیں ۔ وہ دو مختلف رنگ کی تھیں۔
” یہ کیا ہے؟“
”یہ آپ بعد میں سکون سے بیٹھ کر سمجھیں۔ میں نے اس کے ساتھ سب کچھ لکھ کر اس لفافے میں ڈال دیا ہے۔
اب مجھے آگیا دیں۔“ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا تو وہ چلا گیا۔
دوپہر ہو چکی تھی۔ جب میں بانیتا کور حویلی سے نکل پڑے ۔اشفاق چوہدری نے وہاں کے ایک ایک معاملے کے بارے میں مجھے بتایا۔ الیکشن کے لئے ماحول تیار ہو رہا تھا ۔ علاقے میں سیاسی پارٹیوں کے کارندے اپنے اپنے طور پر سر گرم تھے ۔ ہم نے ہر موضوع پر بہت دیر تک بات کرتے رہے تھے۔
یہاں تک کہ اشفاق چوہدری کے پاس ساری باتیں ختم ہو گئیں۔ اس کی تان یہیں پر آ کر ٹوٹی کہ انہیں یہاں سے بھیج دیا جائے۔ کیونکہ اگر کسی بھی ادارے کو معلوم ہو گیا کہ وہ کون ہیں اور انہیں یہاں ہم نے رکھا ہے تو خواہ مخواہ کی مصیبت آ جائے گی ۔ میں نے اس کی بات مان لی۔ اور کچھ دیر بعد مسافر شاہ کے تھڑے کی طرف چل دئیے تھے ۔ تاکہ ان کے پاس جا کر انہیں وہاں سے چلے جانے کا کہہ دیا جائے۔
ابھی تک میرے بدن سے جو بھینی بھینی مہک اُٹھ رہی تھی، اس نے مجھے مدہوش سا کر دیا تھا۔
اشفاق چوہدری دوسری کار میں تھا۔ اس کے ساتھ دو لوگ تھے۔ ہم وہاں جا کر رُکے تو دیکھا ، جوگی رام لعل ، سندر لعل اور ملنگ باہر ہی زمین پر گدڑی بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ان کے پاس جا بیٹھا اور کچھ دیر باتوں کے بعد انہیں وہاں سے چلے جانے کو کہا
”دیکھیں۔
! میں یہاں نہیں رہا اور نہ ہی مجھے رہنا ہے لیکن آپ لوگوں کے باعث ہمارے دوست کو پریشانی ہو رہی ہے۔کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ وہ لوگ آپ کی حفاظت نہیں کر سکتے ہیں۔ “
” ٹھیک ہے ، جیسے آپ لوگوں کی مرضی۔ ہم آج ہی یہاں سے چلے جاتے ہیں۔ آپ سے رابطہ رہے گا۔“ جوگی رام لعل نے کہاتو میں نے اُسے سمجھایا
” ہمیں آپ لوگوں کے بارے بالکل پتہ نہیں ہے کہ آپ کون ہو ، کہاں سے آئے ہو، یہاں کس لئے تھے۔
ہم نے آپ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک صرف اس لئے کیا کہ آپ فقیر لوگ ہیں۔ یہی بیان ہر جگہ دینا ، ہم آپ کو یہاں سے اب بھی نہیں جانے دینا چاہتے تھے کہ آپ لوگ خود یہاں سے چلے گئے۔“
” جی میں سمجھ گیا مجھے کیا کرنا ہے۔“ اس نے کہا تو میں وہاں سے اٹھ گیا۔ پھر ہم وہاں سے چل پڑے۔ اشفاق چوہدری ہمیں نو رنگر سے بہت دور تک چھوڑنے آیا تھا۔
                                   #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط