Episode 124 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 124 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

میں داخلی دروازے پر پہنچا اور اُسے کھولا، وہ کھل گیا۔ اندر سامنے صوفے پر دو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک عورت تھی ، دوسرا مرد تھا جو سامنے دیوار پر لگے ٹی وی میں کھوئے ہوئے تھے۔ جہاں کوئی ڈرامہ چل رہا تھا۔ میں اور بانیتا کور دبے قدموں ان کے سر پر جا پہنچے اور پسٹل کی نال ان کے سروں پر رکھ دی۔ وہ ایک دم ہی سے سہم گئے ۔ عورت کی تو گھکی بندھ گئی ۔
وہ دونوں گھر کے مالک نہیں لگ رہے تھے
” جی جی ، خدا کے لئے ہمیں کچھ نہ کہیں ۔“ مرد ہمت کر کے بولا
” گھر میں اور کون کون ہیں؟“ بانیتا کور نے پوچھا
” کک… کک… کوئی نہیں،صاحب اور بیگم پارٹی میں گئے ہوئے ہیں۔“ مرد نے کہا
” کب آ ئیں گے ؟“ میں نے پوچھا
”پتہ نہیں جی ، کب آتے ہیں۔“ اس نے جلدی سے کہا تو میرے ساتھ کھڑے ایک بندے نے میرا اشارہ پا کر انہیں باندھنا شروع کر دیا۔

(جاری ہے)

پھر انہیں کمرے میں لے گئے۔ طارق سمیت اب انفارم ہوگئے کہ اندر کیا ہوا۔ میں جلدی سے بیڈ روم میں گیا۔ وہاں سامنے دیوار پر شادی کی تصویر لگی ہوئی تھی ۔ سندیپ کور عروسی جوڑے میں غضب ڈھا رہی تھی۔ بانیتا کور کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ وہی ہو سکتی ہے ۔ میں نے فوراً طارق کو بتایا اور نئی ہدایت دے دیں۔ جس سے ان کی آ مد کو بالکل فطری کر دیا گیا تھا۔
جیسے انہیں احساس ہی نہ ہو کہ اندر کوئی ہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد گھر کی تلا شی لی جانے لگی۔ تقریباً ایک گھنٹے کی بھرپور تلاشی کے بعد ایک کمرے سے کچھ اسلحہ ملا، اچھا خاصا زیور، بڑی تعداد میں نوٹ، ایک ڈائری، لیپ ٹاپ، اسکے علاوہ دوسرا ایسا کوئی سامان نہیں ملا جس سے وہ مشتبہ ثابت ہوسکیں۔ جہاں نوٹ تھے ، وہاں سے دو پاسپورٹ بھی ملے، سندیپ کور کا نام اس پاسپورٹ پر سائرہ تھا، اور اس کے شوہر کانام خرم اقبال تھا۔
مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ادھر ہی ہے۔
رات کے دو بجنے کو آ گئے لیکن ان کا پتہ نہ تھا۔ تقریباً سوا دو بجے کے قریب باہر سے اشارہ مل گیا کہ وہ آ گئے ہیں۔ سبھی الرٹ ہو گئے ۔ گھر کے اس ملازم کو بتا دیا تھا کہ اگر اس نے ہمارے کہنے کا ذرا سا بھی انکار کیا تو موت کے حوالے ہوگا۔ اس کی بیوی ہمارے پاس تھی ۔باہر اس نے کار روکی اور ہارن دینے لگا۔
تبھی اسی ملازم نے جلدی سے گیٹ کھول دیا۔ تو وہ اپنی گاڑی سمیت اندر آ گیا۔ اس وقت تک ہم داخلی دروازے کے پیچھے آ گئے تھے ۔ وہ نشے میں تھا۔ اس لئے جلدی سے اندر آنا چاہتا تھا۔
 سندیپ کور تصویر سے زیادہ حسین تھی۔ اس نے جو لباس پہنا ہوا تھا، اس میں وہ آدھی سے زیادہ بر ہنہ تھی۔ بلاشبہ اس نے بھی پی رکھی تھی ۔ وہ جیسے ہی جھولتی ہوئی اپنے شوہر کے ساتھ اندر آئی،ان کی کنپٹی پر پسٹل رکھ دیا گیا۔
ان کے لئے یہ اچانک تھا، خرم تو کوئی مزاحمت نہ کر سکا لیکن سندیپ نے اضراری طور پر اپنا بچاؤ کرنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے وہ تر بیت یافتہ تھی۔ لیکن بانیتا کور نے اسے گردن سے پکڑا اور زور سے قالین پر پھینک دیا، پھر پسٹل اس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا ۔
” اب کوئی حرکت مت کرنا سندیپ کور۔ ورنہ تیرا بدن چھلنی کر دوں گی ۔“
اس کے یوں کہنے پر وہ حیران نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی۔
تب تک دوسرے لوگ بھی آ گئے۔ انہوں نے تیزی سے دونوں کو باندھا اور خرم کو باہر کھڑی ہائی ایس وین میں ڈال دیا۔ جبکہ سندیپ کور کو ہم لے گئے ۔ بعد والوں نے ان دونوں ملازمین کو بھی اُٹھالیا۔ وہ اسی کارروائی میں تھے کہ ہم وہاں سے نکل پڑے۔ 
آدھے گھنٹے میں ہم اسی سیف ہاؤس میں آ چکے تھے۔ سندیپ کور کو ایک کمرے میں لے جا کر ایک کرسی پر بٹھا دیا۔
وہ ہمارے سامنے تھی ۔ اس کی آ نکھوں میں رتی بھر خوف نہیں تھا۔ یوں جیسے وہ مجھے انتہائی نفرت سے دیکھ رہی ہو۔ مجھے اس کی آنکھیں دیکھ کر وہ لوگ یاد آ نے لگے ، جنہوں نے ریستوران میں مجھ پر حملہ کیا تھا اور وہ میری طرف یوں دیکھتے رہے تھے۔
” کیا چاہتے ہو مجھ سے؟“
”کچھ نہیں، ہم نے تو تجھے بچایا ہے ۔“ بانیتا کور نے کہا تو وہ نفرت سے بولی
” ایسا نہیں ہو سکتا۔
“ وہ سر مارتے ہوئے بولی
” کیوں، ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟“ بانیتا کور نے کہا
” پھر مجھے اس طرح باندھا کیوں ہوا ہے ، اگر تم لوگ میرے ہمدرد ہو تو مجھے کھول دو۔“ وہ طنزیہ لہجے میں بولی
” کھول دو ۔“ میں نے کہا تو بانیتا کور نے ایک نگاہ میری طرف دیکھا اور پھر برا سا منہ بنا کر اُسے کھولنے لگی۔ اُسے کھولنے کی دیر تھی ۔ وہ انتہائی تیزی سے یوں نکلی جیسے بجلی کوند گئی ہو۔
اس نے ایک ہاتھ بانیتا کور کی ٹھوڑی کے نیچے گردن پر رکھا اور اُسے پرے دھکیل دیا۔ بانیتا لڑکھڑا گئی،اس نے اسی لڑکھڑاہٹ کا فائدہ اٹھایا اور اپنا گھٹنا اس کے پیٹ میں مارا، وہ دہری ہو گئی، سندیپ نے اپنی کہنی اس کے سر پر ماری اور اسے گرا دیا۔ بانیتا کور کو امید نہیں تھی کہ وہ ایسا کرے گی یا کر سکتی ہے۔ اُسی لمحے سندیپ نے چھلانگ لگائی اور دروازے کی جانب بڑھنا چاہا۔
تب تک بانیتا کور اٹھ گئی تھی اور وہ تیر کی سی تیزی کے ساتھ اس پر جھپٹی، میں حیرت زدہ رہ گیا۔ سندیپ یوں اس کی پہنچ سے نکلی کہ وہ اس چھو بھی نہ سکی۔ بانیتا کور غصے میں آ گئی تھی اور یہی غصہ ایک فائیٹر کے لئے جان لیوا ہوتا ہے ۔ سندیپ گھو می اور اس نے بانیتا کو بڑھا ہوا بازو پکڑ لیا۔ پھر ایک جھٹکا دیا، وہ پھر لڑھک گئی ۔ اس بار سندیپ نے حملہ نہیں کیا بلکہ مجھے نگاہ میں رکھتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی۔
اس نے میرے اور دروازے کے فاصلے کا تعین کر لیا تھا۔ اسی مناسبت سے وہ آگے بڑھی تھی۔ مجھے لگا کہ وہ باہر نکل جائے گی، میں اُسے پکڑنے کے لئے آ گے بڑھا ۔ اس نے مجھے دور رکھنے کے لئے اپنے ہاتھوں کو یوں بڑھایا کہ جیسے وہ مجھ پر حملہ کرے گی۔ میں جیسے ہی اس کے قریب گیا اس نے پوری قوت سے کھڑی ہتھیلی میرے منہ پر مارنا چاہی، میں اسے جھکائی دے گیا۔
لیکن اس کی انگلیاں میرے چہرے کو چھو گئیں۔ تبھی میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اپنا ہاتھ بڑھا کراس کی گردن پکڑ لی ۔ وہ پیچھے کی طرف زور لگانے لگی تو میں نے اس کو چھوڑ دیا وہ لڑھک کر فرش پر گری، پھر جیسے ہی جمپ لگا کر اٹھی اور باہر کی طرف کودتے ہوئے پوری قوت سے پنچ میرے منہ پر مارا۔ تبھی میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گرفت میں لے لیا۔
یہ سب کچھ انتہائی تیزی سے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہوا ۔ میں نے محسوس کی جیسے سندیپ کی جان ہی نکل گئی ہو ۔ اس کا جسم ایک دم سے ڈھیلا پڑ گیا۔ وہ یوں میرے ساتھ لگ گئی جیسے میرے بدن میں گھس جانا چاہتی ہو ۔ میں نے اس کے چہرے پر دیکھا، اس کی آ نکھیں بند تھیں اور وہ یوں خمار آ لود انداز میں میرے ساتھ چمٹ گئی جیسے وہ بھرپور نشے میں ہو۔ میں چونک گیا کہ اُسے کیا ہوا۔
اس وقت تک بانیتا کور اٹھ گئی تھی اور تیزی سے سندیپ کی طرف آ ئی ، اس نے آتے ہی اُسے گر دن سے پکڑا اور کھینچ کر پیچھے کی کی طرف لے گئی ، سندیپ نے ذرا بھی مزاحمت نہیں کی ، بانیتا کور بھی اس کے ڈھیلے اور بے جان جسم کو محسوس کرکے حیران ہو گئی ۔ اس نے سندیپ کو مارا نہیں بلکہ اُسے چھوڑ دیا۔ وہ ایک لمحہ کو یونہی بیٹھی رہی ، پھر یوں اٹھی جیسے نشے میں ہو۔
اس نے میری جانب دیکھا اور میری طرف آئی ۔ میں کھڑا رہا ۔ وہ میرے ساتھ لگ گئی۔ پھر اپنا چہرہ آہستہ آ ہستہ میرے سینے سے رگڑنے لگی۔ کچھ ہی لمحوں بعد اس کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں جیسے وہ بے تحاشا لذّت محسوس کر رہی ہو۔ میں ا س کی یہ حرکت قطعاً نہیں سمجھ سکا۔ میں نے اس دونوں کاندھوں سے پکڑا اور اسے لے جا کر کرسی پر بٹھا دیا۔ وہ یوں میری جانب دیکھنے لگی ، جیسے کسی پیاسے کے منہ سے پانی کا پیالہ ہٹا لیا جائے۔ اس کی آ نکھوں میں محبت کی بجائے ایسی قربان ہو نے والی چاہت جھانک رہی تھی کہ میں ایک لمحے کے لئے چکر ا گیا۔ اُسے ہوا کیا ہے؟ یہی سوال میرے ذہن میں گردش کرنے لگا۔تبھی بانیتا کور نے اس کے منہ پر زناٹے دار تھپڑمارتے ہوئے پوچھا

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط