Episode 102 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 102 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

اس وقت سورج نہیں نکلا تھا ، جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں پرے رہنے سے کیا ہے ، امرتسر کے لئے نکلتے ہیں۔ اس وقت ٹریفک بھی کم ہوگا۔ وہ ویسے ہی اٹھے اور امرتسر نکل پڑے۔ڈھائی گھنٹے بعد وہ امرتسر میں تھے۔ دن کی چہل پہل شروع ہو چکی تھی جب وہ حویلی پہنچے۔ انہیں مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا۔ وہیں ناشتہ کرکے تیار ہوئے اور اس خاص کمرے کی جانب چل پڑے جہاں انہوں نے بلوایا تھا۔

 سردار رتن دیپ سنگھ سامنے ہی ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ دوسرے صوفوں پر تین سنگھ اور دو لڑکیاں بیٹھی ہوئیں تھیں۔ان سب کا انداز یوں بے تکلف تھا جیسے ایک ہی خاندان سے ہوں۔ رتن دیپ بیٹھا رہا۔لیکن باقی سارے اٹھ گئے۔ وہ رتن دیپ سے ملا، باقی سب سے ہاتھ ملایا تو نوتن کور کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔

(جاری ہے)

تو رتن دیپ نے سن کی طرف دیکھ کر کہا

” میں تم سب کو جی آیا ں نوں کہتا ہوں۔
“ پھر جسپال سنگھ کی طرف دیکھ کر کہا،” خاص طور پر جسپال سنگھ تمہارا۔ خیر، پہلے میں سب کا تعارف کرادوں تم سے یہ تو آپس میں ایک دسوے کو جانتے ہیں۔ “ اس نے ان تین جوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” یہ جو پہلا ہے اس کا نام ہے وکرم سنگھ، بلا کا فائیٹر ہے اور ماہر نشانہ باز، اسلحہ اس کا کھلونا ہے ۔ اس کا تعلق بٹالہ سے ہے۔ اور یہ دوسرا سرجیت سنگھ ،تھوڑا پاگل ، لیکن انتہائی وفا دار،نڈر بہادر، یہ ہوشیار پور سے ہے۔
اور تیسرا بلدیو سنگھ، دلیر، فائیٹر اور ماہر پلانر، فتح گڑھ ڈصاحب سے۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش ہوا ، پھر لڑکیوں کی جانب دیکھ کر کہا ،” یہ بچن کور ہے ، یہ کیا کچھ کر سکتی ،مجھے بھی یقین نہیںآ تا دسوہہ سے اور اس کے ساتھ کرن کور ہریانہ سے، اس کے بارے میں بھی نہ سمجھ آ نے والی باتیں ہی سنی ہیں۔“
” اور میرے بارے تم جانتے ہی ہو۔
“ نوتن کور نے کہاتو ایک ہلکا سا قہقہ لگایا۔ جس سے ماحول کافی حد تک بے تکلفانہ ہوگیا۔
” اب تمہارے ذہن میں جوسوال ہے کہ انہیں کیوں ملوا رہا ہوں تو یہ ان سب کہ ذہنوں میں بھی ہے۔ میں نے ابھی کسی کو بھی یہ بات نہیں بتائی کہ تم سب لوگوں کو یہاں اکھٹا کرنے کامقصد کیا ہے۔“
”ظاہر ہے کوئی بھاری سمسیا ( مشکل) ہوئے گی۔“ سر جیت سنگھ نے کہا
” کوئی سمسیا نہیں ہے۔
لیکن اس معاملے میں سب سے بات ہوتی رہی ہے سوائے جسپال کے ۔ ابھی ایک اور نے تم لوگوں میں شامل ہونا ہے اور وہ ہے بانیتا کور، میری بیٹی۔ وہ ابھی یہاں نہیں ہے۔ بہت جلد آ جائے۔ گرو مہاراج اس کی حفاظت کرے۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا، پھر چند لمحے بعد بولا،” پورا ایک سال ہو گیا، میں نے پورے پنجاب سے یہ ہیرے چنے ہیں ۔ در اصل تم لوگوں کو میرا اکھٹا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت دھرم کی جو جنگ جاری ہے ، اس میں ہندو حکومت طاقت سے نہیں، سازش سے سب کو مار رہی ہے۔
میں ساری زندگی یہ جنگ لڑتا رہا ہوں۔ اس عمر میں آ کر میں تھک نہیں گیا، بلکہ میں یہ سمجھ گیا ہوں کہ انہیں مارنا کیسے ہے۔ سکھ قوم ہندو کے ہاتھوں بہت استعمال ہو چکی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔طاقت سے لڑنے والے بہت ہیں۔ اور گرومہاراج کی کرپا سے وہ لڑ رہے ہیں۔ لیکن ۔ ! بہت سارے محاذ ایسے ہیں جہاں ہمیں لڑنا ہے ۔ تم لوگوں کو ایک ہی مقصد دینا چاہتا ہوں، اور وہ ہے ۔
ہندو سازش کا مقابلہ، وہ ہمارے خلاف ہو یا ہمارے دوستوں کے خلاف۔“ وہ انتہائی جذباتی لہجے میں کہہ کر خاموش ہو گیا تو بلدیو سنگھ بولا
” یہ تو بہت بڑا میدان ہے، ہندو دن بدن عالمی سطع پر اپنے دوست بڑھا رہا ہے ۔ اور اس دوستی میں وہ اپنی طاقت تو بڑھا ہی رہا ہے لیکن اس دوستی میں دوسروں کو کچلنا بھی شامل ہے۔“
” تم لوگوں کا فوکس صرف پنجاب ہو گا۔
“ رتن سنگھ نے ان کو ٹارگٹ دے دیا۔
” میں تیار ہوں۔“ بچن کور نے حتمی انداز میں کہا تو یہی بات کرن کور نے بھی کہہ دی۔
” ہم بھی منہ نہیں موڑ رہے ، بلکہ ہم تو کچھ کرنے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔“ سرجیت نے کہا
” میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ شاید یہ دکھ لے کر مرنا ہوگا کہ میں گرو کا خالصہ اپنی آ نکھوں سے نہیں دیکھ پایا۔ لیکن اتنا تو اطمینان ہوگا کہ میں اپنے جیسے کئی لوگ چھوڑ کر جا چکا ہوں۔
اب کیا کرنا ہے ، کیسے کرنا ہے ، یہ تم لوگ جانو اور تم لوگوں کا کام ۔“ اس نے گہری سنجیدگی سے کہا
” یہ ہم لوگوں کا خواب تھا سردار رتن سنگھ جی، آپ نے ہمیں موقعہ دے دیا۔ ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔“ وکرم سنگھ نے یقین دلایا تو رتن سنگھ بولا
” دیکھو۔! میں جانتا ہوں کہ تم سب اپنی اپنی جگہ ایک قوت ہو۔ تم لوگوں کے پیچھے بڑی قوتیں ہیں۔
اب ایک جُٹ ہو کر اپنی طاقت کو استعمال کرو گے تو دھرم کو کتنی سہائیتا ملے گی، اس کا تصور کرو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تم لوگوں کی اپنی کتنی طاقت ہو گی، یہ بھی سوچو۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوتے ہوتے ایک دم سے بولا۔” اور ہاں ابھی یہ فیصلہ مت کرنا کہ تم ساتھ ہو یا نہیں۔ دن بھر سوچو اور فیصلہ کرو۔ جو بھی فیصلہ ہوگا، مجھے پورے دل سے مانوں گا۔“ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے ، میں تیار ہوں۔
“ بلدیو سنگھ نے کہا تو رتن دیپ نے جسپال کئی طرف دیکھ کر پوچھا
” تم کیا کہتے ہو؟“
” یہ خیال اور آپ کی محنت بہت اچھی ہے۔ اور ہم سب ایک جُٹ ہو کر چلے تو بڑی کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گیں، لیکن ایک بات بارے آپ نے شاید سوچا ہو۔ وہ یہ ہے کہ مرکز کے بغیر کچھ بھی نہیں چلتا اور عہدے کی طاقت، اپنے بات منوانے کی ضد ایسا سب کچھ ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔
میں مانتا ہوں کہ دھرم کی بنیاد پر جھوٹ نہیں چلتا۔ پورے خلوص سے چلنا ہوتا ہے ، کیا ایسا نہیں ہے کہ دھرم کی جنگ لڑنے والے چور ڈاکو، اور قاتل بن گئے ہیں ایسا کیوں ہوا؟ ذاتی فائدہ ، لوبھ اور لالچ ۔ ‘ ‘ 
”اور سب سے بڑی ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی۔“ وکرم سنگھ نے کہا تو سرجیت سنگھ بولا
”جان وارنے اور جان لینے میں بڑا فرق ہے بابو، آج گرو مہاراج نے ہمیں موقعہ دے دیا ہے تو ہم چل پڑیں، وقت خود فیصلہ کر دے گا کہ کون اس قابل تھا اور کون نہیں؟“
” تو ٹھیک ہے چل پڑیں۔
“ جسپال نے ایک دم سے کہا تو رتن دیپ سنگھ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔پھر بڑے ہی جذباتی لہجے میں بولا
” تو پھر آج،ہرمندر صاحب جا کر سچے گرو بادشاہ کے حضور حاضری دیں گے، ارداس کریں گے اور وہیں گرو مہاراج ہماری مدد کر دے گا کہ تم لوگوں کے جتھے کا بڑا کون ہوگا۔ وہ چاہے کوئی بھی ہو ، گرو مہاراج نے قبول کر لیا تو ہم اسی کے آ گے سیس نوا( گردن جھکا) دیں گے۔
“ یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑے اور ہلکے ہلکے کہا،” واہ گرو کا خالصہ ، واہ گرو جی کی فتح۔“
وہاں بیٹھے سارے لوگ یہی دہرانے لگے۔ تبھی جسپال سنگھ نے پورے اعتماد اور سنجیدگی سے کہا
” رتن سنگھ جی ، اگر ہم یہی فیصلہ نہیں کر پائے تو پھر آگے کیا فیصلہ کریں گے۔ یہیں پتہ چلے گا کہ ہمارا جُٹ کس حد تک مضبوط رہ سکتا ہے اور ہم ایک دوسرے کو کتنا مانتے ہیں۔
سب سے پہلے میں کہتا ہوں کہ جو بھی اس جتھے کا سردار ہوگا، میں اس کی تابع داری کروں گا۔“
” سردار جی ، آپ بڑے ہیں، ان میں کون لیڈ کرے گا ، آپ کے ذہن میں ہوگا؟“ بچن کور نے پوچھا
” میں تو بلدیو سنگھ کا نام دیتا ہوں۔“ رتن سنگھ نے کہا تو جسپال اُٹھا اور بلدیو سنگھ کو ہاتھ پکڑ کر بولا
” سب سے پہلے ، میں ان تابع داری قبول کرتا ہوں اور ہرمندر صاحب جا کر بھی اس کی شپت لوں گا۔
” ہوگئی بائی جی۔“ بلدیو سنگھ نے اس کے گھٹنے کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تو باری باری سب نے ویسا ہی کیا جیسا جسپال نے کیا تھا۔ 
” چلو۔! اب ہر مندر صاحب چلتے ہیں۔“ رتن دیپ سنگھ نے کہا تو سبھی اُٹھ گئے۔ ان کے چہروں سے یہ طاہر ہو رہا تھا کہ وہ پنجاب کا اک نیا اتہاس لکھیں گے۔
                                   #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط