Episode 116 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 116 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

” یار نوتن، ابھی تو اتنا کام نہیں ،لیکن الیکشن کے دنوں میں تو کام بہت بڑھ جائے گا۔ تم وہ چند دن ہمارے ساتھ آجاؤ۔“ ہر پریت نے اس سے کہا
” میں رتن دیپ سنگھ سے اجازت لے کر آ جاؤں گی ۔ مجھے امید ہے کہ…“ اس نے کہنا چاہا تو ہر پریت تیزی سے بولی
” تم نوکری چھوڑ دینا، انوجیت اگر ممبر بن گیا تو بہت کام ہوگا، وہ تمہی سنبھال لینا۔“ 
” دیکھیں گے۔
فی الحال تو میں چائے پی کر نکل رہی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ ہنس دی۔
چائے پینے کے بعد نوتن کور اپنی کار میں نکل گئی اور ہر پریت کچن کی جانب بڑھ گئی۔ ایسے میں جسپال نے صوفے پر بیٹھ کربلدیو سنگھ کو فون ملایا۔ حال احوال کے بعد اس نے کہا
” نوتن نے مجھے ساری بات بتا دی ہے۔اورمجھے یقین ہے کہ یہ کام اسی گجندر سنگھ ہی کا ہے۔

(جاری ہے)

اسی کی ایک کڑی مجھے ملی ہے۔

“ 
” وہ کیا؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا
” میرے ایک بندے نے بتایا ہے کہ وہ لڑکا ، جس کے ساتھ لڑکی کی بات طے ہو رہی تھی، وہ گجند ر سنگھ کے ہاں کام کر رہاہے۔ اس کا ذاتی ملازم ہے۔“ بلدیو نے پر سکون لہجے میں کہا
” کہیں یہ کام…“ جسپال نے یہ کہنا چاہا تھا کہ بلدیو نے اُسے روکتے ہوئے کہا
” وجہ کچھ بھی رہی ہو ، یہ ایک کڑی بنتی ہے، رستہ ہے، ممکن ہے ، اسی لڑکے نے گجندر سنگھ سے کہہ کر پولیس آ فیسر سے سفارش کروائی ہو۔
لیکن ایک بات طے ہے، اتنی رات کو ، اتنی جلدی یہ ہوتا نہیں۔ خیر، تم پتہ کراؤ، کہ لڑکے اور لڑکی والوں کے درمیان کو اختلافی بات تو نہیں چل رہی تھی۔“
” تھا، یہی جہیز کم زیادہ کا چکر تھا۔ تم ایسے کرو،سیدھا اسی لڑکے کو …“ جسپال نے غصے میں کہا 
” نہیں، پھر بھی تم پتہ کرو، کوئی بڑا معاملہ تو نہیں چل رہا تھا۔“ بلدیو نے ٹھنڈے لہجے میں کہا
” اوکے۔
“ جسپال نے کہا اور فون بند کر دیا ۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ ہرپریت کے ذمے لگائے گا۔ وہ ہی کسی بات کا پتہ لگا پائے گی اگر کوئی ہوئی تو۔ اس نے کچن میں جا کر ہرپریت کو سمجھایا اور اوپر چھت پر جا پہنچا ۔
 اس نے وہاں جاتے ہی خود کو پر سکون کرنا چاہا۔ وہ بہت حد تک سمجھ گیا تھا کہ یہ کیا ہو سکتا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ خود نکودر جائے اور صبح ہونے سے پہلے لڑکی کو واپس لے آ ئے۔
وہ چھت پر کھڑا ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ رہا تھا کہ بلدیوسنگھ کا فون آ گیا۔
” تمہیں پر یشان ہونے کی ضروت نہیں جسپال، ابھی نوتن کور نے مجھے بتایا ہے۔ تم جاؤ ، لوگوں میں گھلو ملو، دس بجے تک تم نے وہیں رہنا ہے ، باقی میں دیکھ لیتا ہوں۔ مجھے سمجھ آ گئی ہے میں نے کیا کرنا ہے ۔ “
” کوئی کسی قسم کی مدد؟“ جسپال نے پوچھا
” ہو گی تو بتا دوں گا۔
یہ کنفرم ہو گیا ہے کہ وہ لڑکی انہی کے پاس ہے ۔ اسے وہیں کہیں رکھا ہوا ہے۔ مل جائے گی۔ میں پھر فون کرتا ہوں۔“ بلدیو سنگھ نے کہا تو وہ بہت حد تک پر سکون ہو گیا۔ وہ تیزی سے نیچے آ یا۔ ہر پریت ابھی نکلی نہیں تھی۔ وہ بھی اس کے ساتھ چل دیا۔ اب وہ مختلف لوگوں کے گھروں میں جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ بات اس نے ہر پریت کو سمجھا دی۔ لیکن اس معاملے کی ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ وہ کیا کر رہا ہے اور اس وقت کی آوارہ گردی کیوں ضروری ہے؟
وہ دونوں ہی مختلف گھروں میں جاتے رہے۔
ان کے پاس انوجیت کے لئے ووٹ مانگنا کا ،ایک معقول بہانہ تھا۔ ہر جگہ سے یہی کہا گیا کہ وہ لوگ ووٹ انہی کو دیں گے۔ جسپال اور ہر پریت دونوں ہی سمجھ رہے تھے کہ ووٹر بڑا سیانا ہو گیا ہے۔ کوئی ایک فیصد لوگ ہی انکار کرتے ہیں،اور وہ لوگ نظریاتی قسم کے ہوتے ہیں جو بہت کٹڑ قسم کے ہوں۔ ورنہ کوئی بھی نہیں کہتا۔ جسپال نے وقت گذارنا تھا۔ وہ گذار لیا۔
د س بج گئے تھے۔ اُسے بلدیو سنگھ کے فون کا انتظار تھا۔
اس وقت وہ ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے، جب بلدیو کا فون آ گیا۔ وہ اُٹھ کر باہر نکل گیا۔اس دوران وہ اس سے عام سی باتیں کرتا رہا۔ جیسے ہی وہ اکیلا ہوا تو بولا
” اب بتاؤ، کیا بنا؟“
”تم نے کبھی کہانی سنی ہے کہ کسی جن کی کسی طوطے میں جان ہوتی ہے۔“
” ہاں سنی ہے؟“ اس نے سمجھتے ہوئے جواب دیا
” تو بس پھر، وہ طوطا ہمارے پاس ہے ۔
صبح تک سارے معاملات حل ہو جائیں گے۔“ اس نے کہا
” اوکے، پھر صبح ہی دیکھیں گے۔“ جسپال نے جواب دیا تو بلدیو سنگھ نے فون بند کردیا۔کچھ دیر بعد وہ ہر پریت کے ساتھ واپس گھر آ گیا۔
انہیں گھر آئے کچھ ہی وقت گذرا ہوگا۔کہ اوگی پنڈ سے کچھ لوگ ان کے ہاں آ گئے۔ وہ لوگ ان کے ساتھ تھے ، جن کی لڑکی اغوا ہوئی تھی اور ان کا بیٹا قتل ہو گیا تھا۔
وہ سبھی باہر لان میں بٹھا دئیے گئے۔ وہ ابھی بیٹھ ہی رہے تھے کہ جسپال کے ساتھ ہر پریت بھی ان کے پاس آ بیٹھے۔ تبھی ان میں سے ایک بزرگ نے بات کی۔
” جسپال پتر۔! ہم سب تیرے پاس آئے ہیں تاکہ تو ہماری مدد کرے۔ہماری تو کوئی بھی بات نہیں سنتا۔“
” بزرگوں بتائیں ، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔“ اس نے بڑے سکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا
” ہمیں اب تک یہ پتہ ہی نہیں چل سکا کہ وہ لوگ کون تھے۔
کس نے کیا ہے سب۔ لیکن یہ کیسا ظلم ہے کہ تھانیدار بھی ہماری کوئی بات نہیں سنتا ہے۔ اس نے ایک درخواست لکھ لی ہے اور ایف آئی آر کاٹ کر ہمارے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ دو دن ہو گئے ، وہ ہمیں ملتا ہی نہیں ہے، چند بار فون کیا ہے ، اب تو وہ گالیاں دینے لگا ہے کہ فون کیوں کرتے ہو۔ کہاں جائیں، کس کے پاس فریاد کریں۔“ لڑکی کا باپ کہتے کہتے ہوئے رو دیا
” چلیں بات کرتے ہیں اس سے،“ جسپال نے کہا
” رب تمہارا بھلا کرے، اگر تمہاری وجہ سے ہمیں اپنی بیٹی مل جائے۔
“ لڑکی کا باپ بولا
” اس کا فون نمبر دو، میں ابھی بات کرتا ہوں اس سے ۔“ جسپال نے کہا تو ایک نوجوان نے تھانیدار کا نمبر دے دیا۔ جسپال نے کال ملائی ، تو کچھ دیر بعد اس نے فون رسیو کر لیا۔ جسپال نے اپنا تعارف کرایا تو وہ بولا
” جی ، حکم، “ اس کے لہجے میں طنز آ گیا تھا۔
” وہ لڑکی، جو اغوا ہوئی اور اس کے بھائی کاقاتل بارے کچھ پتہ چلا؟ کوئی تفتیش میں پیش رفت، کوئی شک میں پکڑا؟“
” اوہ کہاں کی تفتیش جی، آج کل توآپ سیاست دانوں کے معاملات ہی نہیں سانس لینے دیتے، کبھی کسی کی سیکورٹی، کبھی کسی وی آئی پی کا استقبال، پروٹو کول، یہ الیکشن بھی تو بھگتانے ہیں۔
“ اس نے اُکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا
” اور اگر وہ لڑکی قتل ہوگئی،توکیا ہوگا؟ وہ کس کے ذمے ہوگی؟ “ جسپال نے سنجیدہ لہجے میں کہا
” یہ تو جی، قتل کرنے والے جانیں،یا پھر آپ محکمے کے کسی بڑے سے کہیں، اب مجھے جو حکم ملتا ہے ، میں تو وہی کروں گا نا ۔“ اس نے پھر اسی اندا ز ہی میں کہا
” یہ حکم آتے کہاں سے ہیں،جن کی وجہ سے بے چارے عوام کو انصاف نہیں ملتا؟“ اُس نے طنزیہ لہجے میں پوچھا
” میں نے بحث نہیں کرنی، مجھ سے تو جو ہو سکتا ہے کر رہا ہوں،دن رات عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
“ اس نے ہلکا سا قہقہ لگاتے ہوئے کہا
” ٹھیک ہے ، لیکن ان لوگوں کا قصور، انہیں کچھ نہ کچھ تو…“ جسپال نے کہنا چاہا مگر وہ تیزی سے بات کاٹتا ہوا بولا
” اوہ جی، اب میں کیا کروں، اندھی تفتیش ہے، کوئی سرا پتہ وہ دیں تو میں اسے ابھی اٹھوا لیتا ہوں۔ پھر بعد میں آپ لوگوں نے ہی ان کی سفارش کرنی ہے کہ یہ بے گناہ ہیں ، انہیں چھوڑ دیں۔
” چلو ، ٹھیک ہے، ہم بھی کوشش کرتے ہیں ، آپ بھی کرو، جیسے ہی کوئی سرا پتہ ملا، بتاتے ہیں۔“ جسپال نے کہا اور فون بند کر دیا۔
سبھی اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس نے فون جیب میں رکھا اور تھانیدار سے ہونے والی بات اُنہیں بتا دی۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ ساری بات سن کے وہی بزرگ بولا
” سردار جی ، یہ تو اس کی کچھ بھی نہ کرنے والی باتیں ہیں نا۔
” مجھے بھی یہی لگتا ہے۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
” اب یہ تو بات پکی ہوگئی ہے کہ اس واردات میں کوئی ایسا بندہ ملوث ہے ، جو اس تھانیدار پر بھی اپنا حکم چلا سکتا ہے۔“ اس بزرگ نے کہا تو جسپال نے اس لڑکی کے باپ سے پوچھا
” وہ جو لڑکا ہے ، جس سے لڑکی کی بات چل رہی تھی ، ان سے کوئی اختلاف ہوا ، یا کوئی بات؟“
 ” ہماری تو ان سے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی، یہی جہیز کی بات تھی، اس پر بھی کوئی اختلاف نہیں تھا۔
بس طے ہو رہی تھی بات۔“ باپ نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا۔ 
وہ لوگ کچھ دیر بیٹھے رہے۔ پھر انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ نکودر شہر میں جا کر بڑے آ فیسر سے ملا جائے۔ کل صبح جانے کا فیصلہ ہوا ۔ جسپال نے ان کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی اور انہیں یہ حوصلہ دیا کہ اب یہ ان کا مسئلہ نہیں اس کا اپنا مسئلہ ہے ۔ وہ لڑکی بازیاب کروانے میں پوری طرح ساتھ دے گا۔
اور جو انہوں نے قتل کیا ہے ، اس کا حساب بھی لیں گے۔ وہ کافی حد تک مطمئن ہو کر چلے گئے۔انہیں گئے ہوئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ نوتن کور کا فون آ گیا۔ وہ اسی فون سے کال کر رہی تھی، جو ٹریس نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بتایا۔
”لڑکی اسی گجندر سنگھ کی شہہ پراغواہوئی ہے ، یہ معلوم ہو گیا ہے۔ اس کے قریبی دو بندے پکڑ لئے ہیں اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی اُٹھا لی ہے۔
” کیا، اس کی بیٹی۔ مطلب…“ جسپال نے حیرت سے کہا تو نوتن کور بولی
” بلدیو سنگھ اس معاملے میں بڑا سخت ہے۔ وہ لڑکی بھی تو کسی کی بیٹی ہے، کیا کسی امیر اور طاقت ور کی بیٹی میں سرخاب کے پَر لگے ہیں کہ وہ اغوا نہیں ہو سکتی۔ بلکہ بلدیو سنگھ نے تو اس لڑکی کو بتا دیا کہ تمہارے باپ کے گنا ہ کے بدلے اُسے اغوا کیا گیا ہے۔“
 ” تو کیا بنا، گجندر کو پتہ چلا؟“ اس نے پوچھا
” بتا دیااُسے اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ایک گھنٹے کے اندر اندر لڑکی واپس گاؤں نہ پہنچی تو وہ اس لڑکی کو کہیں دور لے جائیں گے۔
“ نوتن نے بتایا
” اغوا کرنے کی وجہ کیا تھی؟“
” وہی لڑکا، جن سے لڑکی والوں کی بات چل رہی تھی ۔اُسے پکڑ لیا ہے ، اُسی نے بتایا ۔اب اصل بات کیا ہے ، یہ ابھی پوری طرح پتہ نہیں چلا۔ تفصیل معلوم ہو جائے گی ۔ “ نوتن کور نے بتایا تو جسپال اندر سے کھول اٹھا۔
” یار میں آتاہوں وہاں ، دیکھی جائے گی، اُسے تو میں سبق …“
” سارا کھیل بگڑ جائے گا۔
صبح تک انتظار کرو، پھر تم ہی اس سے سیدھے ہوجانا۔ یہ لوگ درمیان سے نکل جائیں گے۔ “نوتن نے کہا 
” چلو دیکھتے ہیں۔ مجھے نیند نہیں آ ئے گی۔“ جسپال نے کہا
” تم آرام کرو، یہ دیکھ لیں گے سب۔“ نوتن کور نے اعتماد سے کہا اور پھر فون بند کردیا۔
جسپال کا دوران خون تیز ہو گیا تھا۔
                                #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط