سندو گن لے کر مجھے سے کافی فاصلے پر چلا گیا۔ تیز روشنی میں ہر شے واضح دکھائی دے رہی تھی ۔ میں نے نشانہ لیا اور ایک بندہ گر گیا۔ پھر میں رکا نہیں ، مسلسل فائر کرتا رہا۔ میرے سامنے ہلچل مچ گئی ۔ وہ اس اچانک اُفتاد پروہ بوکھلا گئے تھے ۔ شاید انہیں یقین نہیں تھا کہ ہم یہاں بھی ہو سکتے ہیں اور ان پر فائر بھی کر سکتے ہیں۔ وہ جیپوں کے اندر چھپ گئے۔
اندر سے جوابی فائر ہونے لگا۔ جو بلا شبہ اندھا دھند فائرنگ تھی ۔ سندو اپنا کام کر رہا تھا۔ جس سے انہیں سمجھ نہیںآ رہی تھی کہ فائر ہو کہاں سے رہے ہیں۔میں نے جیپوں کے ٹائروں کا نشانہ لیا۔ جیسے ہی ٹائر پھٹے ، انہوں نے جیپیں بڑھا دیں۔ لیکن وہ زیادہ دور نہیں جا سکے ، کوئی کچھ فاصلے پر اور کوئی زیادہ فاصلے پر ریت میں دھنس گئیں۔
(جاری ہے)
ساحل پر لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
مجھے پورا یقین تھا کہ اسٹیمر سے یہ سارا منظر دیکھا جا رہا ہوگا۔کیونکہ جس لمحے وہاں سے گاڑیوں نے حرکت کی وہاں سے راکٹ فائر ہوا ،جو سیدھا ایک جیپ میں لگا تو اس کے پرخچے اڑ گئے۔ ایسی صورت حال میں جو بھی دوسری جیپوں کے اندر تھے ، وہ نکل کر بھاگے ۔، اسی اثنا میں ایک دوسرا راکٹ فائر ہو گیا۔ دوسری جیپ کے ساتھ ہی تیسری کو بھی آگ لگ گئی۔
ساحل پر بھاگنے والے چار لوگ تھے ۔ میں نے تین کو ہی گرایا تھا کہ ایک کو سندو نے مار گرایا۔
اب ہمارے پاس چھپے رہنے کا وقت نہیں تھا۔ میں محتاط انداز میں نکلا تو سندو بھی میرے پیچھے لپکا۔ ہم تیزی سے سمندر کی جانب بھاگے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اسٹیمر سے ایک کشتی ساحل کی جانب آنے لگی تھی۔ تقریباً دس منٹ میں ہم سمندر کی لہروں میں تھے، کشتی ہمارے قریب آگئی اور میری توقع کے مطابق اس میں جسپال تھا۔
ہم بھاگتے ہوئے کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے مجھے گلے سے لگا تے ہوئے بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔
”تو ٹھیک تو ہے نا۔“
”میں ٹھیک ہوں، تو دیر مت کر جسپال، ہم اب مزید خطرے میں ہوں گے ، جلدی کر “ میں نے جواب دیا تو اس نے فوراً ہی بوٹ کا رخ پھیرا اور واپس اسٹیمر کی جانب تیزی سے چل دیا۔
میں اسٹیمر کے عرشے پر کھڑا گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔
بوٹ اٹھا لی گئی تھی اور اسٹیمر واپسی کے لیے مڑ چکا تھا۔ ایسے میں ایک فربہ مائل ، خوبصورت سی لڑکی میرے پاس آ کر بولی۔
”مجھے رونیت کور کہتے ہیں، آ پ زخمی ہیں، نمی سے زخم خراب ہو سکتے ہیں ، میں آپ کی ڈریسنگ کردوں۔“
”وہ سندو ، مجھے سے زیادہ زخمی ہے ۔“
”میں نے اس کی ڈریسنگ کر دی ہے ۔“ اس نے پرسکون لہجے میں کہا تو میں اس کے ساتھ چل دیا۔
اسٹیمر پر کافی لوگ تھے ۔عملے کے چند لوگوں کے علاوہ جسپال کے ساتھ آئے کچھ لوگ تھے۔ ڈریسنگ کے فوراً بعد ہمیں کھانے کو کافی کچھ مل گیا۔ کھانے کے دوران جسپال اور رونیت کور کے ساتھ سندو بھی تھا۔
”تم کس خطرے کی بات کر رہے تھے ؟“ جسپال نے پوچھا تو میں نے کہا۔
”ان کے پاس ہیلی کاپٹر ہیں۔ ممکن ہیں دو سے زیادہ ہوں، میرا اندازہ ہے کہ وہ کھلے سمندر میں …“ لفظ میرے منہ ہی میں تھے کہ ایک بندہ بھاگتا ہوا ہمارے پاس آیا اور تیزی سے بولا۔
”ہماری رینج میں ہیلی کاپٹر آ رہا ہے ۔ دو چار منٹ میں واضح ہو جائے گا ۔“
”اسے اس وقت تک کچھ نہیں کہنا ، جب تک اس کی طرف سے فائر نہ ہو، اگر ایک بھی فائر ہوتا ہے تو اسے تباہ کردو۔“ میں نے تیزی سے کہا۔یہ سن کر وہ واپس چلا گیا۔ ہم نے کھانا وہیں چھوڑا اور کسی ممکنہ حملے کی جوابی کارروائی کے لیے تیار ہوگئے۔
ہمیں فضا میں ہیلی کاپٹر دکھائی دینے لگا تھا۔
عملے کا ایک بندہ راکٹ لانچر لیے تیار تھا۔ ویسے بھی اسٹیمر کا اپنا ایک حفاظتی نظام تھا۔ ہم پوری طرح تیار تھے۔ ہیلی کاپٹر ایک دائرہ میں گھوما اور دور چلا گیا۔پھر جیسے ہی واپس ہوا تو اس میں سے ایک راکٹ فائر ہوا ۔ جو سیدھا اسٹیمر کے اوپری اگلے حصے کو توڑتا ہوا سمندر میں جا گرا، تب تک نیچے سے تین راکٹ فائر ہوئے۔ دو عملے کے لوگوں نے فائر کیے تھے اور ایک اسٹیمر سے ہوا ۔
دو فائر خالی گئے تھے لیکن تیسرا ہیلی کاپٹر کے درمیان میں لگا تھا۔ ایک دھماکا ہوا اور ہیلی کاپٹر گھومتا ہوا سمندر میں جا گرا۔
عملے کے لوگ جلدی سے فائر زدہ حصے کی جانب بڑھے۔ ایسا نقصان نہیں تھا کہ ہم سفر نہ کر سکتے ۔
”ہم نے کتنی دیر کا مزید سفر کرنا ہے ۔“ میں نے عملے کے بڑے سے پوچھا۔
”ایک گھنٹہ مزید لگ سکتا ہے ۔“
”ایسا ہی حملہ مزید ہو سکتا ہے ۔
ان کے پاس …“ میں نے کہنا چاہا لیکن وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”اب نہیں ہوگا، میں نے اپنی کمپنی کو بتا دیا ہے ، وہ اور سمندری نگرانی کرنے والے ہماری حفاظت کے لیے آ رہے ہیں، اب فضائی نگرانی ہو گی ، آپ اطمینان رکھیں۔“ اس نے تسلی دی تو میں عرشے پر پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ تبھی مجھے احساس ہوا کہ کم از کم میں یہاں غیر قانونی ہوں۔
مجھ سے تو بہت پوچھ گچھ ہوگی ۔ یہی بات جب میں نے جسپال سے کہی تو رونیت کور تیزی سے بولی۔
”اس کی آپ فکر نہ کریں، یہ بات پہلے ہی اس بندے سے ہو چکی ہے ، جو اس اسٹیمر کا مالک ہے اور وہ کمپنی چلاتا ہے۔ عملے کے ساتھ آپ کو نکال لیا جائے گا۔ آپ بے فکر ہو جائیں۔“
”تم یہاں تک پہنچے کیسے ؟“ میں نے جسپال سے پوچھا تو اس نے سندو کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
”اس کی وجہ سے ۔“ یہ کہہ کر اس نے ساری بات اختصار سے بتا دی۔تبھی سندو کے چہرے پر زندگی دوڑ گئی ۔ وہ خوش ہوتا ہوا بولا۔
”یہ واہگرو کی مہر ہے کہ وہ پانچ پیارے بچ گئے۔ شاید اسی وجہ سے مجھے زندگی مل گئی ۔“ یہ کہہ کر وہ چونکتے ہوئے بولا،”اس جزیرے کی لوکیشن کا پتہ کیسے لگا۔“ سندو نے پوچھا تو جسپال نے کہا۔
”میں خود حیران ہوں۔
یہ کسی نمبر پر ٹریس نہیں ہوا ، پھر بس غیبی مدد ملی اور ہم یہاں پہنچ گئے۔“ اس نے کہا تو میں سمجھ گیا کہ اس کی غیبی مدد کون سی ہو سکتی تھی۔ اسے روہی سے بتایا گیا ہوگا ۔ انہوں نے کیسے پتہ کیا ، یہ بہرحال وہی جانتے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا،”کل بارہ بجے کے قریب ہمیں پتہ چلا تھا ۔ اور پتہ ہے یہ جزیرہ کہاں ہے ، ممبئی کے قریب، ہم چندی گڑھ سے ممبئی رات پہنچے اور رات ہی کے آخری پہر بندر گاہ سے نکلے تھے۔
“
”چندی گڑھ سے ممبئی ؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاں میں وہیں تھا، میں ، رونیت اور ابھیت تینوں، اڑھائی گھنٹے کا فضائی سفر تھا، اس دوران ساری بات چیت ہو گئی ۔ ہم تم لوگوں تک پہنچنے کے لیے تیار ہوگئے۔“ جسپال نے بتایا تو سندو نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔
”جمال ایک بات پوچھوں؟“
”جتنی مرضی پوچھو۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تم نے اچانک اس جزیرے سے نکلنے کا فیصلہ کیسے کر لیا۔ تم نے تو صرف اس باس سے ایک ملاقات ہی کی تھی اور میرے خیال میں تم یہاں کے بارے میں جانتے تک نہیں تھے ، تمہیں تواتنا بتایا گیا کہ یہ جزیرہ کس قدر خطرناک ہے اور ہم نے دیکھا بھی کہ خطرناک ہے، یہ سب کیسے سوجھا تجھے کہ تم یہاں سے نکل سکتے ہو ؟“ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”تم نے میرے ساتھ آ نے فیصلہ کیوں کیا؟“ میں نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔
”میں یہاں سے تنگ آ چکا تھا، وہ آئے دن نئی کہانی سناتا تھا۔ مجھے اس کے کسی مقصد کا پتہ ہی نہیں چل رہاتھا، تم نے ہمت کی ، تو میں نے بھی یہاں سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ بس ایک گمان تھا کہ تم یہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تو تم میں کچھ ہے؟“ اس نے پھر سے الجھتے ہوئے اسی لہجے میں کہا ، جیسے اسے سمجھ نہ آرہی ہو کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے اور پوچھنا کیا چاہتا ہے۔
”دیکھ سندو! تمہیں تو صرف گمان تھا ، لیکن مجھے پورایقین تھا کہ میں اس جزیرے سے نکل جاؤں گا ۔“ میں نے کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گیا، پھر تیزی سے پوچھا۔
”یہ یقین کیوں تھا؟“
”اس کامجھے بھی نہیں پتہ۔“ میں نے ا س سے چھپاتے ہوئے کہا۔
”آپ اس بندے سے پہلی بار ملے ، پہلی ملاقات کے بعد ہی اس سے بغاوت کر دی، ایسا کیوں ہوا؟ آخر کیا دیکھا تھا کہ …“ رونیت نے پوچھا۔
”وہ انسانیت کا دشمن ہے رونیت، یہ بات مجھے پہلی ملاقات ہی میں معلوم ہو گئی تھی اور بس ۔“ میں نے کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گئی۔
مجھے اس سے غرض نہیں تھی کہ وہ مطمئن ہوئی یا نہیں لیکن مجھے اطمینان تھا۔جس وقت مجھ سے اس بندے نے ، جو خود کو آزاد کہتا تھا، بات کی تو مجھے اس کے مشاہدہ کی ساری حقیقت سمجھ میں آ گئی ۔جال میں پھنسے ہوئے جو کچھ میں نے دیکھا تھا، وہ سب آشکارا ہو گیا۔
وہ شیطان کا چیلا تھا۔ مجھے سمجھ آگئی تھی کہ اب مجھے کیا کرنا ہے ۔ جس وقت میں نے اس کی بات سن کر پورے اعتماد کے ساتھ اس جزیرے سے نکل جانے کا کہا تھا۔ اس وقت میرے ذہن میں یہی بات تھی کہ ابھی مجھ سے مزید کام لیے جانے ہیں۔ اب میں جو بھی ارادہ کروں گا، وہ ہو کر رہے گا۔ کیونکہ اب میرا ذاتی کوئی مقصد نہیں رہاتھا ، میں نے اپنا آپ انسانیت کے لیے وقف کر دیا تھا۔
میں سندو اور رونیت کو سمجھانا بھی چاہتا تو نہیں سمجھا سکتا تھا۔جب تک انسان اپنے بارے میں آگہی نہیں حاصل کر لیتا ، اُس وقت تک اسے بہت سی سامنے کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ باتیں کرتے ہوئے ، ہم ممبئی بندر گاہ تک آن پہنچے۔ وہاں ایک مرحلہ تھا جو طے ہوا ۔ دوپہر کے بعد ہم وہاں سے نکل گئے۔
ء…ء…ء