” جس وقت فیضان بٹ کی گاڑی پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے پھٹی تھی، اس وقت تمہارے دو بندے فیکٹری میں موجود تھے اور الطاف گجر بھی وہیں تھا۔ یاد ہے آپ کو؟“ اس نے یوں کہہ کر یاد دلانے کی کوشش کی جیسے یہ بہت پرانی بات ہو۔ میں سمجھ گیا تھا۔
” آ گے کہو۔“ میں بولا
” اس وقت مجھے فون کال ملی کہ میرے بیٹے کو اغوا کر لیاگیا ہے،انہوں نے میرے بیٹے کی آواز تک مجھے سنائی ۔
میری بات کروائی اس سے ۔“
” تمہارے بیٹے کا اغوا؟“ میں نے یوں پوچھا جیسے مجھے بہت حیرت ہوئی ہو ۔ حالانکہ میں سمجھ رہاتھا کہ وہ ایک نئی کہانی گھڑے گا۔
” جی ، میں یہی سمجھ رہاتھا کہ کوئی مجھ سے تاوان مانگے گا ، جیسے آج کل اغوا برائے تاوان کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔“ اس نے کراہتے ہوئے کہا
” تو پھر…؟“ میں نے پوچھا
”انہوں نے مجھ سے کوئی رقم نہیں مانگی، بلکہ انہوں نے مجھ سے کام لینے کے بارے میں کہا۔
(جاری ہے)
اور جب انہوں نے مجھے کام بتایا تو میں نے سوچ لیا کہ اب نوکری تو چھوڑنا پڑے گی۔ اپنے بیٹے کی خاطر میں نوکری چھوڑنے کا سوچ لیا تھا۔دوسرا انہوں نے میرے بیٹے کو نقصان نہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ یہاں رات سے کس طرح کے بندے کو رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے تصدیق کی تو میں نے بتا دیا کہ بندہ ابھی تک ادھر ہی ہے ۔انہوں نے مجھے ان سب پر نگاہ رکھنے کو کہا۔
یہاں تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائیں۔ جب تک وہ آئے آپ لوگوں کے بندے الطاف گجر کو نکال کر لے جا چکے تھے ۔پھر مجھے کہا گیاکہ میں اپنے مالک کو یہاں بلواؤ، میں نے اسے بلالیا۔ اس کے بعد مجھے نہیں پتہ۔ میرا بیٹا ابھی تک ان کے پاس ہے۔“ وہ یوں بولا جیسے ابھی مر جائے گا۔
” انہوں نے تم سے کام کیا لیا؟“ میں نے تحمل سے پوچھا تو وہ بولا
” جب تک وہ پہنچے آپ کے بندے تو جا چکے تھے۔
انہوں نے یہی کہا کہ میں وہ بندے پہچان کر اسے دوں کہ وہ کون ہیں۔میں نے اپنے ایک بندے کو ان کے پیچھے لگا دیا تھا۔ مجھے یہ احساس تھا کہ اگر میں وہ بندے نہ پکڑوائے تو میرا بیٹا بازیاب نہیں ہوگا۔ میرا آدمی ان دو بندوں کا گھر دیکھ آیا۔بعد میں انہیں گھر کا بھی پتہ چل گیا۔“
” کیا ملا تجھے ، نہ بیٹا اور نہ نوکری، اب کہو گے کہ ان کے بارے میں بھی نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں ، کہاں کے ہیں، تم انہیں نہیں جانتے ۔
“ میں نے طنزیہ انداز میں کہا
” جی باکل ، میں نہیں جانتا ۔ مگر میرے بیٹے کو انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ میری اس سے بات ہوتی ہے ، اب شاید وہ اپنی ماں سے بات کرتا ہوگا۔“
” مطلب، تم نے اپنے بندوں کے ذریعے ہمارے گھر کی نشاندہی کروائی ۔ اور انہوں نے ہمارے گھر پر حملہ کر دیا۔ اگر ہماری قسمت اچھی نہ ہوتی تو اب تک ہم منوں مٹی کے نیچے پڑے ہوتے ۔
خیر۔! اب تم ہمارے مہمان ہو ۔ دیکھتے ہیں، وہ کون لوگ ہیں، جو ہم تک پہنچے۔“ میں نے کہا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
” اب کیا کرنا ہے اس کا؟“ طارق نے پوچھا
” یہ مہمان ہے۔ اس کو کھانا دو، اب کچھ نہیں کہنا اسے۔ میں بعد میں بات کروں گا۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا اور چل دیا۔ جیسے ہی کمرے میں آئے تب میں نے طارق سے کہا،” اس کا بیٹا اگر واقعی ہی اغوا ہوا ہے تو ، الگ بات ہے اور اگر نہیں، تب پھر معاملہ دوسرا ہوگا۔
اب پتہ یہی کرنا ہے کہ اس کا بیٹا اغوا ہوا تھا؟۔ اس کے بیٹے کا پتہ کرو۔ اس کے گھر کی اور گھر والوں کی خفیہ نگرانی ہو۔ “
” جی ہو جائے گا۔“ طارق نے کہا تو بانیتا کور نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
” اوئے۔! بھوکا ہی مار دینا ہے تو نے،کوئی روٹی کا بھی بندوبست ہے یا نری تفتیش ہی چلنی ہے۔“
” ہاں۔! یہ تو ہے۔“ میں نے یوں کہا جیسے اس کی بات سمجھ میں آ ہی گئی ہے تو اس نے بیڈ کے سرے پر رکھا تکیہ اٹھایا اور میرے دے مارا۔
” بس دس منٹ دے دیں مجھے۔“ طارق نے کہا اور جلدی سے مڑ گیا۔
تقریباً بیس منٹ بعد ان کے لئے نہایت پر تکلف کھانا چُن دیا گیا۔ بانیتا کور نے سیر ہو کر کھایا۔ پھر چائے کا مگ لے کر بیڈ پر جا بیٹھی۔
” اب تو کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ سکون سے سو جانے کو من کر رہا ہے۔ آؤ، کچھ دیر سکون سے سو جائیں۔“ اس نے خمار آ لود آواز میں کہا تو میں ہنس دیا
” وہ جو ساتھ لائیں ہیں ان…“
” انہیں بھی دیکھ لیں گے۔
صبح تک وہ باتیں کر نے کے قابل ہو جائیں گے۔“
” اگر سونا ہی ہے تو ٹاؤن چلتے ہیں۔“ میں رائے دی
”اب تو ہلنے کو بھی جی نہیں کررہا اور تم ظالم ہو پھر سفر کرنے کا مشورہ دے رہے ہو۔“ وہ نشیلی آواز میں بولی تو میں ہنس دیا
” ویسے تمہیں اداکار ہونا چاہئے تھا۔ اسکرین پر دھمال ڈال دو، سچی۔“
” میرا توابھی دھمال ڈالنے کو بڑا دل کر رہا ہے ، آؤ نا۔
“ اس نے باقاعدہ بانہیں پھیلا کر کہا تو میں اپنا قہقہ نہ روک سکاتو وہ بھی کُھل کر ہنس دی۔
ہم چائے پی چکے تو میں اٹھا اور اور نیچے والے کمرے میں چلا گیا۔ جہاں ان دونوں کو رکھا ہوا تھا۔ وہ فرش پر پڑے تھے۔ اور ان کی آ نکھوں میں نفرت اُبل رہی تھی۔ مجرم چاہئے کتنا بڑا ہو، اس کی آ نکھ میں خوف دَر آتا ہے۔ لیکن وہ جو کسی مقصد کے لئے نکلے ہو، ان کی آ نکھ کچھ اور ہی بول رہی ہوتی ہے۔
یہ آ نکھیں ویسی ہی تھیں جو کسی مقصد کے لئے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہ تو انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ مقصد انسانیت کے لئے قابل قبول بھی ہے یا وہ حیوانیت اور شیطانیت کے نرغے میں پھنس کو اسی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ میں ان کی آنکھو ں میں جھانک کر کافی دیر دیکھتا رہا۔ ان کے ہاتھوں ہر سفید پٹی باندھی ہوئی تھی ۔ میں سمجھ گیا کہ انہیں دوا وغیرہ بھی دے دی گئی ہوگی۔ میں ان کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور نرمی سے پوچھا
” کون ہو تم لوگ؟“