وہ ایک روشن صبح تھی۔ ہم خوب سونے کے بعد بہت فریش اٹھے تھے۔ ناشتہ کر لینے کے بعد ہم وہاں سے جانے کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ تھوڑی دیر وہ ویٹرس آئی ، اس نے میرے کاغذات مجھے تھمائے، اس کے ساتھ چھوٹے بڑے پرانے نوٹوں کی چند گڈیاں مجھے دیں۔
”ہم ابھی یہاں سے نکل رہے ہیں۔“ میں نے اسے بتایا تواس نے پوچھا۔
”کہاں جانا ہے ، میں اس کے لیے بندوبست کردوں۔
“ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو میں نے جسپال کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔ تبھی میں نے فیصلہ کر لیا۔ اس لڑکی کو اپنے کاغذات دیتے ہوئے کہا۔
”دو ٹکٹ، امرتسر کے لئے۔“
میرے یوں کہنے پر جسپال نے چونک کر میری طرف دیکھا، پھر ایک دم سے ہنس دیا۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ اس لڑکی کے ساتھ باہر نکل گیا۔
(جاری ہے)
میں نے سندو کو بتا دیا کہ میں جا رہا ہوں۔ بعد میں رابطہ کروں گا۔
ء…ء…ء
شام کے سائے پھیل رہے تھے ، جب ہم اوگی پنڈ کے نزدیک پہنچے تھے۔ امرتسر پہنچتے ہی میرا جی چاہا کہ میں رتن دیپ سنگھ سے ملوں، اُن کے پاس کچھ دیر ٹھہروں ، لیکن میں نے پھر کسی وقت ان سے ملنے کا سوچ کر ٹیکسی لی اور ترن تارن تک آئے ۔
یوں تین جگہ سے ٹیکسیاں بدلنے کے بعد اوگی پنڈآن پہنچے ۔ سامان کے نام پر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لیے سڑک ہی سے ٹیکسی والے کو فارغ کیا اور پھر اوگی سے باہر کھیتوں میں بنی سرخ رنگ والی کوٹھی کے باہر پیدل چلتے ہوئے آن رکے ۔ باہر بنتا سنگھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ جسپال کو دیکھ کر یوں چونکا جیسے کو ئی جن دیکھ لیا ہو۔
”اُو بائی جی آپ ، ایک دم سے ، نہ کوئی پیغام نہ … اور یہ آپ کے کیس …؟“
”چل یار بنتے آ گیا ہوں نا، تُوسنا ٹھیک ہے نا، باقی باتیں پھر کریں گے ۔
“ جسپال نے کیس والی بات گول کرتے ہوئے کہا تو اس نے گیٹ کھولتے ہوئے پوچھا۔
”سب ٹھیک ہے ، واہ گرو کی مہر ہے، پر یہ کیس…“
جسپال نے اس کی نہیں سنی ۔ہم اندر چلے گئے۔ ڈرائینگ روم میں ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس نے ایک نگاہ ہم دونوں پر ڈالی ، وہ یوں ہمیں دیکھنے لگی جیسے بے ہوش ہو جانے والی ہو ۔
”اوہ پھپو، رب کا نام ہے، چیخ نہ مار دینا ، یہ میں ہی ہوں جسپال ۔
“
”یہ سنتے ہی وہ اٹھی اور بڑے ہی جذباتی انداز میں اسے گلے لگا لیا، وہ کافی دیر تک اُسے سینے سے لگائے رہی ، پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔
”یہ ہو نہ ہو جمال پترہے ؟“
”جی پھوپھو، میں جمال ہی ہوں ۔“ میں نے کہا تواس نے مجھے بھی گلے سے لگا لیا
”یہ پتر اچانک ، فون تو کیا ہوتا ۔ انوجیت تجھے لینے …“ گلجیت کور نے کہنا چاہا تو جسپال جلدی سے بولا۔
”وہ ہے کدھر ؟“
”وہ تو باہر ہی گیاہے، ہر پریت… “ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ ہرپریت کور کسی طوفان کی طرح آئی اور پھر ایک دم سے رک کر جسپال کو دیکھنے لگی جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو
”یہ میں ہی ہوں پریتو۔“ جسپال نے شوخی سے کہا۔
”پر تو وہ جسپال نہیں جو یہاں سے گیا تھا۔“ اس نے جس انداز سے کہا ، اس سے وہ مجھے کٹر مذہبی لگی۔
”میں وہی ہوں، پتہ نہیں کس طرح اپنا آپ بچا کر لایا ہوں ، چل، مجھے نہ مل، جمال سے تو مل لے ۔“ جسپال نے جیسے ہی میرا تعارف کرایا وہ میری طرف یوں دیکھنے لگی جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو
”جمال ویرے۔“ یہ کہتے ہوئے وہ میرے گلے لگ گئی۔پھر الگ ہوتے ہوئے بولی ۔”بہت یاد کرتے تھے ہم تمہیں۔ پر یہ اچانک …“
”ساری باتیں ابھی پوچھ لو گی یا بیٹھنے بھی دو گی۔
“ جسپال نے مصنوعی غصے میں کہا۔
”تمہیں تو بے بے جی ہی بیٹھنے کو کہے گی ، میں نہیں، جمال ویرے تُو بیٹھ ، میں لسّی لے کے آتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اندرونی کمرے کی طرف چلی گئی ۔ جسپال صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
”بہت غصے میں لگتی ہے یار۔“
”چل منانے میں کون سا وقت لگے گا۔“ میں نے کہا تو کلجیت کور بیٹھتے ہوئے بولی۔
”رب کی بڑی مہر ہے پتر کہ تو آ گیا، روز پتہ نہیں کیسے کیسے خیال آتے تھے، بڑا سر کھاتی رہی ہے ہرپریت میرا، کبھی ادھر کی بات تو کبھی اُدھر کی بات۔
“
”لگتا ہے پھوپھو، اب تو پیروں میں جیسے سفر بندھ گیا ہے ، ایک دن بھی سکون سے نہیں گذرا۔ خیر آپ سناؤ ، اُوگی میں سب ٹھیک ٹھاک ہے نا۔“ جسپال نے ایک لمبی سانس لے کرکہا
”سب ٹھیک ہے ،“ یہ کہہ کر وہ اُٹھتے ہوئے بولیں،”تم بیٹھو ، میں تمہارے کھانے کا بندو بست کرتی ہوں۔“
انہیں گئے ذرا سی دیر ہوئی تھی کہ ہرپریت کور آ گئی ۔
اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی، جس میں کافی کچھ تھا۔ وہ ہمارے سامنے رکھ کر بولی۔
”جمال ویرے ، یہ اچانک آنا،کوئی سامان نہیں جس سے باقاعدہ سفر کی پلاننگ کا احساس ہو، لگتاہے کو ئی معاملہ ٹھیک نہیں؟“
”یہ تُو جاسوس کب سے ہو گئی ؟ اب آ گئے ہیں تو سب کچھ بتا دوں گا، کیوں پریشان ہوتی ہے ۔“ جسپال نے شرارت بھرے غصے میں کہا۔
”میں تم سے بات نہیں کر رہی پھر تو جواب کیوں دے رہا ہے۔
“ وہ منہ پھلا کے بولی۔
”اچھا چل ، ختم کر دے غصہ ، اور میرا ایک کام کر دے ۔ “ میں نے ہرپریت کی طرف دیکھ کر کہا۔
”بول ویرے کیا کام ہے ؟‘ اس نے جلدی سے پوچھا تو میں نے کہا۔
”ایک الگ تھلگ کمرہ ، میں نے اس جسپال کے ساتھ نہیں رہنا، یہ بہت بور کرتا ہے ۔“ میں نے کہا تو جسپال ایک دم سے ہنس دیا اور ہرپریت میری بات سمجھتے ہوئے ایک دم سے شرما دی ، پھر اٹھتے ہوئے بولی۔
”آپ لسّی پئیں، میں کمرہ ٹھیک کر دیتی ہوں۔“
وہ چلی گئی تو میں لسّی پیتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا۔ اگلے چند گھنٹے بہت اہم تھے ۔
دوسری منزل پرکمرے کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔ میں بیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنے سامنے لیپ ٹاپ رکھ لیا۔ کچھ ہی دیر بعد میرا روہی سے رابطہ ہو گیا۔ روہی کے آپریشن روم میں سرمد کے علاوہ دو تین مزید لوگ بھی تھے۔ کچھ دیر اس معاملے پر بات ہوتی رہی ۔ پھر میں نے اپنا خیال بتایا۔ وہ انہوں نے مان لیا۔ میں پوری طرح تیار ہو گیا۔