دوپہر کے بعد ہی کا وقت تھا جب نوتن کور اور جسپال کھیتوں کی طرف نکل گئے تھے۔ سامنے سر سبز و شاداب فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ صاف اور شفاف ہوا، جسے سینے میں اتارتے ہوئے بھی سکون ملتا تھا۔ اصل میں وہ اسی لڑکی کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔
” نوتن کور مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ جرم کس نے کیا ہے؟“ اس نے بات بڑھائی
”جہاں تک میں نے اب تک سنی ہوئی بات پر تجزیہ کیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ فقط لڑکی ہی اغوا کرنے آئے تھے۔
درمیان میں بھائی آیا تو وہ قتل ہوگیا۔ اگر ہم دونوں جرائم کو ساتھ ملا کر سوچیں گے تو کچھ سمجھ میں نہیںآ ئے گا۔صرف لڑکی کے اغوا کو سامنے رکھیں گے تو کوئی سراغ ہاتھ لگنے کا امکان ہو سکتا ہے۔“ نوتن نے انتہائی سنجیدگی سے اپنی رائے دی تو اس نے پوچھا
” تمہاری اس رائے دینے کی وجہ یا بنیاد کیا ہے؟“
” کیونکہ اغوا ایک سنگین جرم تو ہے ہی ، اس پر قتل ہو جانا سنگین تر ہو گیا۔
(جاری ہے)
اب مجرموں کے لئے اغوا کا معاملہ بہت چھوٹا ہو گیا۔ وہ اصل میں قتل کو چھپائیں گے۔ ممکن ہے کہ وہ لڑکی کو بھی…“ یہ کہتے کہتے وہ رک گئی۔ پھر دکھی لہجے میں بولی،” سو ان وجوہات پر نگاہ رکھی جائے، جن کی وجہ سے وہ لڑکی اغوا ہو سکتی ہے یاہوئی ہے، قاتل خود بخود واضح ہو جائیں گے۔“ اس نے اپنی بات کہہ دی۔
” تو یہ ابتدا کہاں سے کر یں؟“ جسپال نے پو چھا
” دو جگہیں ہیں، ایک تھانہ اور دوسرا اسی لڑکی کی کوئی سہیلی، ان سے بات آ گے بڑھے گی۔
“
” جہاں تک تھانے کا معاملہ ہے اگر انسپکٹر نے بات چھپانا چاہی تو وہ کبھی بھی ہمیں اصل بات نہیں بتائے گا۔ اور اگر…“ جسپال نے کہنا چاہا تو نوتن بولی
” پریشان مت ہو، ابھی کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا ۔ میں نے گرلین کور سے کہا ہے ۔ وہ اسی انسپکٹر کے سیل فون کو ٹریس کر رہی ہے۔ان دو دنوں میں اس کا جس سے سب سے زیادہ رابطہ ہوا ہے ، وہ سامنے آ جائے گا، اُسے دیکھ لیتے ہیں۔
“
” اور وہ سہیلی والا معاملہ؟ “ جسپال نے پوچھا
” وہ دوسرا آ پشن ہے، وہ میں اور ہر پریت دیکھ لیں گے۔“ اس نے سکون سے کہا اور دور کہیں دیکھنے لگی۔
” میں کروں اس سے بات ؟“ جسپال نے بے تابی سے کہا
” کر لو، مگر وہ ذمہ دار لڑکی ہے، اپنا کام کررہی ہوگی ، مطمئن ہو کر ہی فون کرے گی۔“ نوتن نے کہا
” ویسے یہ سلمان نے ہمیں جو سیل فون دے دئیے ہیں نا، یہ بھی کمال کی چیز ہے، کہیں ٹریس نہیں ہوتا۔
ورنہ ہم ابھی تک پکڑے گئے ہوتے۔“ جسپال نے ہنستے ہوئے کہا
” ہیں تو سہی،لیکن کب تک ، میں سوچ رہی تھی جس دن اس سے بھی بڑھ کر کوئی ٹیکنا لوجی آ گئی، یا سوفٹ وئیر مارکیٹ میں آ گیا، تب کیا ہوگا، ہمیں شاید پتہ بھی نہ چلے ۔ “ نوتن کور نے بھی ہنستے ہوئے کہااور یہی باتیں تھوڑے سے فاصلے پر موجود ٹیوب ویل کی جانب بڑھ گئی۔ جسپال بھی اس کے ساتھ چل دیا۔
انہیں وہاں کھڑے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ گرلین کور کا فون آ گیا۔ اس نے بات کی تو اس نے فون جسپال کی جانب بڑھا دیا۔ جسپال نے فون پکڑا اور کان سے لگاتے ہوئے کہا
” ہاں گرلین کور۔! کیا بنا پھر؟“
” جسپال ویرے ایک ہی نمبر ہے، وہ بھی نکودر سے ہے۔ ان پر باتیں ہوئیں ہیں۔ اس بارے جتنی بھی تفصیلات مجھے ملی ہیں، وہ میں نے میل کر دی ہیں۔
وہ دیکھ لیں، اگر وہ آپ کے کام کی ہوئیں تو۔ “ وہ چہکی
”ہم دیکھ لیتے ہیں۔ پھر بات کرتے ہیں۔“جسپال نے کہا اور چند الوداعی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔ بات کرنے کے بعد و ہ کھیتوں میں نہ ٹھہر سکے فوراً ہی واپس گھر پلٹ آ ئے ۔ اس نے راستے ہی میں ہر پریت سے کہہ دیا تھا کہ لیپ ٹاپ کھول لے۔ دس منٹ میں جب وہ ڈرائینگ روم میں آئے تو وہ لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔
جسپال نے اپنا ای میل بکس کھولا اور گرلین کی میل دیکھی۔ اس میں دیئے گئے نمبر کے آ گے گجندر سنگھ لکھا ہوا تھا۔ کس وقت کتنی دیر کی کال ہوئی، یہ بھی درج تھا۔
” وہ لڑکی کتنے بجے اغوا ہوئی تھی؟“ نوتن نے پوچھا تو ہر پریت تیزی سے بولی
” یہی کوئی رات کے دو بجے ہوں گے، یہی وقت بتایا تھا انہوں نے ۔“
اور یہ دیکھو جسپال۔“ نوتن نے ایک وقت کے دورانیہ پر انگلی رکھتے ہوئے کہا”یہ، ایک گھنٹے بعد کال ہوئی ہے ، اور پھر مسلسل صبح تک وقفے وقفے سے کال ہوتی رہی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گجندر سنگھ کون ہے؟ یہ ساتھ میں اس کا پتہ بھی ہے۔“
” نام تو سنا سنا سا لگ رہا ہے۔“ ہر پریت نے کہا پھر ایک دم چونک کر بولی،” ارے یہ وہی تو نہیں ہماری مخالف پارٹی کا سیاست دان۔ میرا خیال ہے یہ الیکشن بھی لڑ رہا ہے؟“
” اگر وہی ہے تو ، بہت مشکل درپیش ہو سکتی ہے۔“ نوتن کور نے مایوسی سے کہا اور اٹھ کر دوسرے صوفے پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
” کیا مشکل ہوگی؟“ جسپال نے پوچھا
” اب اس میں پارٹیاں آ جائیں گی، جھوٹ اور سچ کی تمیز نہیں رہے گی، میں کہتی ہوں کہ یہ نہ ہو ۔“ وہ پھر مایوسانہ لہجے میں بولی
” اچھا دیکھتے ہیں۔“ جسپال نے کہا اور انوجیت کا فون ملانے لگا ، کچھ ہی دیر بعد مل گیا تو اس نے اسپیکر آن کرتے ہوئے پوچھا
” کہاں ہو ؟“
” میں ادھر ہوں میلان پور میں، ادھر ایک جلسہ ہے اور کچھ لوگوں سے ملنا بھی ہے۔
“ اس نے تفصیل بتا دی
” مجھے یہ بتاؤ، نکودر میں گجندر سنگھ کون ہے؟“ جسپال نے پوچھا
” وہی، جو ہمارے مخالف الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہا ہے ، وہ ہماری تیسری بڑی مخالف پارٹی ہے۔اگر ہم نہ ہوں تو وہ الیکشن جیت سکتا ہے۔“
” کیسا بندہ ہے وہ؟“اس نے پوچھا
” اچھا نہیں ہے، جرائم پیشہ ہے ، لوگ اس کے شر سے اس کی عزت کرتے ہیں، کیوں کیا ہوا؟“ انوجیت نے پوچھا تو اس نے کہا
” مجھے شک ہے کہ وہ اغوا ہونے والی لڑکی، اس ہی کی کارستانی ہے۔
“
” ممکن ہے، لیکن اسے ثابت کرنا، اور ثابت ہو جانے پر لڑکی کا برآمد کرنا بہت ہی مشکل ہے، یوں کہہ لیں شیر کے منہ سے نوالا کھینچنا، کیونکہ وہ ایک قتل بھی اس کے ساتھ کروا چکا ہے۔ اگر یہ سب ہو بھی جائے تو وہ کون سا اس نے کیا ہوگا۔ ایسے…“ اس نے مزید کہنا چاہا تو جسپال نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا
” میں دیکھ لوں گا ، تم اپنا کام جاری رکھو۔
“یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ پھر ہر پریت کی طرف دیکھ کر بولا،” جوتی سے کہو ، چائے ہی پلا دے۔“
” میں کہتی ہوں۔“ ہرپریت نے کہا اور اٹھ گئی۔
وہ چند قدم دور گئی ہوگی کہ نوتن نے جسپال کی طرف دیکھ کر پوچھا
” کیا ہر پریت کور کو اپنے نئے گروپ کے بارے میں نہیں پتہ یا…؟“
” نہیں ، او ر اس بارے ا بھی اُسے بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے، راز جس قدر اپنے درمیان میں رہے اتنا ہی اچھا ہے۔
میں اسی لئے محتاط تھا۔“ جسپال نے اُسے سمجھایا
” تو پھر تمہیں کسی طور بھی بات کرنے کی ضرورت نہیں ، میں دیکھ لیتی ہوں سب، شام تک اس با رے پتہ چل جائے گا کہ وہ لڑکی اس گجندر کے پاس ہے کہ نہیں۔“ نوتن نے حوصلہ افزاء لہجے میں کہا
” کیاکرو گی ، انہیں بتاؤ گی۔ کیا وہ سب اتنی جلدی آ جائیں گے؟“ جسپال نے پوچھا
” اوئے میں نے اُسی وقت ان سب کو بتا دیا تھا ، جب یہاں میں نے یہ بات سنی تھی۔
دراصل رات میری بلدیو سنگھ سے بات ہوئی تھی۔بچن کور تو بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔“
” بچن کور، وہ کیوں …مطلب؟“میں نے پوچھا
” یہ تو ان کے پاس جا کر پتہ چلے گا نا۔“ یہ کہہ کروہ لمحہ بھر کو رکو رکی، پھر کہتی چلی گئی،” میں نے انوجیت کے الیکشن بارے بلدیو سنگھ بتایا تو وہ بہت زیادہ پر جوش ہو گیا تھا۔ اس نے کہا کہ اچھا ہے ، ہمارا کوئی بندہ تو ہوگا پارلیمنٹ میں۔
وہ یہی پلان کر رہا تھا کہ اسے جتوانا کیسے ہے ۔ اسی لئے وہ آج دوپہر سے پہلے ہی نکودر میں آ گئے ہوئے ہیں۔ ابھی میں انہی کے پاس چلی جاؤں گی۔ میرے خیال میں اب تک وہ کوئی نہ کوئی کام تو کر ہی چکے ہوں گے۔“ نوتن نے بتایا تو جسپال نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا
” وہ کیا کریں گے یہاں؟“
” تجھے یہاں بھارت میں الیکشن اور سیاست دانوں کا نہیں پتہ۔
یہاں جمہوریت کم اور ڈرامے بازی زیادہ ہے۔ ساری پارلیمنٹ کو دیکھ لو، اس میں کتنے لوگ ہیں جو صاف ستھرے ہوں گے، ان میں زیادہ تر لوگ اپنے اپنے علاقے کے غنڈے اور بد معاش ہیں۔ جرائم پیشہ ہیں، اپنے کالے دھندوں کو تحفظ دینے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان کے لئے الیکشن جیتنا اور ہر حال میں جیتنا زندگی اور موت سے بڑھ کر کھیل ہوتا ہے۔ جس طرح انوجیت نے بتایا ہے کہ گجندر کون ہے ؟ اس سے لگتا نہیں کہ وہ کیسا بندہ ہوگا۔
اور تمہارا دوسرا مخالف بندہ، ان سیاست دانوں میں کتنے ایسے ہیں ، جو صاف ستھرے ہیں۔ سو یہاں الیکشن جیتا تو ووٹوں سے جاتاہے لیکن وہ ووٹ حاصل کیسے کئے جاتے ہیں، یہ ایک آ رٹ ہے، ہنر ہے میری جان، جسے ابھی تم نہیں سمجھ سکتے۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہا ۔ آخری لفظ ہر پریت نے سن لئے تھے۔ اس لئے بیٹھتے ہوئے بولی
” ٹھیک کہہ رہی ہے نوتن، یہاں الیکشن جیتنا ایک آرٹ ہی ہے۔
بہت ظلم ہوتا ہے لوگوں کے ساتھ۔ ان کی امیدوں کے ساتھ کھیلتے ہیں یہ لوگ۔“
” اچھا چلو یہ ختم کرو، اب یہ سوچو ، کیا کرنا ہے۔ نوتن تمہارا کیا پروگرام ہے؟“ جسپال نے جان بوجھ کر پوچھا
” میں تو ابھی واپس جالندھر جاؤں گی وہاں کچھ کام ہیں، کل اگر وقت ملا تو آؤں گی، آخر ہم بھی تو ملازم ہیں رتن دیپ سنگھ جی کے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی