Episode 21 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 21 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

گوا میں سب سے پہلے جسپال اور رونیت کور ہی ساحل کی طرف سے اس گیراج کی جانب نکلے تھے،جہاں ان کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ وہ پیدل ہی وہاں سے نکلے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک جگہ اکٹھے ہوکر وہ گیراج تک جا پہنچیں گے لیکن ایک دم ہی سے ناکہ بندی ہونا شروع ہو گئی تو فرنینڈس نے سب کو الگ الگ نکل جانے کا مشورہ دیا۔
جسپال اور رونیت اس وقت ساحل سے شہر کی طرف جانے والی مصروف سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔
مقامی اور غیر ملکی لوگوں کی وہاں پر گہما گہمی تھی۔ سڑک کنارے کافی اسٹال لگے ہوئے تھے ، جہاں مختلف چیزیں مل رہی تھیں۔ رونیت وہاں چیزیں دیکھنے لگی۔ تبھی انہیں سندو کا فون ملا۔
”جسپال! ایک بری خبر ہے۔“
”کیا؟“ اس نے مرتعش لہجے میں پوچھا۔
”چندی گڑھ میں کچھ لوگ پروفیسر کو اٹھانے آئے تھے۔

(جاری ہے)

مقابلے میں تین لڑکوں کے ساتھ پروفیسر بھی مارا گیاہے۔

ظاہر ہے ان کے نیٹ ورک کی نشاندہی گرباج نے کی ہو گی۔“ اس نے رنجیدہ لہجے میں بتایا تو جسپال سرسراتے ہوئے لہجے میں بولا۔
”اوہ ، یہ تو بہت برا ہوا۔ اس کا مطلب ہے اب چندی گڑھ محفوظ نہیں۔“ 
یہاں اور وہاں چندی گڑھ میں بھی پولیس ہی نہیں اور بہت سارے لوگ بھی پوری طرح الرٹ ہو چکے ہیں۔ تم لوگ جس قدر جلدی ممکن ہو یہاں سے نکل جاؤ۔ ہم بعد میں آتے رہیں گے۔
تم جہاں بھی جاؤ ، رابطہ ضرور کرنا، مجھے جمال کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا۔“
”تم لوگ ہو کہاں پر؟“ جسپال نے پوچھا۔
”ہم یہاں ساحل پر ہی ہیں۔ یہاں کے سارے راستے بند ہیں۔ سخت چھان بین ہو رہی ہے۔ ہمیں نکلتے ہوئے وقت لگ سکتا ہے ، اتنی دیر میں تم لوگ…“ اس نے جان بوجھ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی 
”اوکے ، تم لوگ اپنا خیال رکھنا۔
“ جسپال نے کہا تو رابطہ کٹ گیا۔ 
جسپال نے رونیت کی طرف دیکھا، وہ چیزیں خریدنے میں محو تھی۔ جسپال نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دبایا تو وہ فوراً ہی پلٹ کر جسپال کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی جو سپاٹ تھا۔ اس نے رونیت کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر چل دیا۔جسپال کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ پروفیسر کے بارے میں اسے کیسے بتائے۔ کافی دور تک چلتے رہنے کے بعد رونیت نے تجسس سے پوچھا۔
 
”کوئی بات ہے جسپال ؟“ 
”ہاں۔لیکن تمہیں یہ بہت حوصلے سے برداشت بھی کرنا ہوگا۔“وہ باوجود کوشش کے اپنے مرتعش لہجے پر قابو نہ رکھ سکا تو وہ بولی۔
”کہہ دو۔“اس پر اس نے وہ ساری بات بتا دی۔ ایک لمحے کے لیے رونیت کور حواس باختہ ہوئی۔ پھر ایک دم سے جسپال کے گلے لگ کر رونے لگی،یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ اس نے رونیت کو رونے دیا۔
کچھ دیر وہ اس سے الگ ہوئی تو یوں ہو رہی تھی جیسے اس میں جان ہی نہ رہی ہو۔ پھر سسکتے ہوئے بولی۔
”وہ میرا باپ تھا اور وہی میری ماں ، ہمیں فوراً چندی گڑھ نکلنا ہوگا۔“
”یہ دیکھ لو کہ وہاں رسک ہے۔“ جسپال نے کہا تو وہ ضد کرتے ہوئے بولی۔
”نہیں ،جو کچھ بھی ہو ، میں انتم سنسکار میں ضرور شامل ہوں گی۔“
”اوکے۔“ جسپال نے کہا اور ائرپورٹ کے لیے ٹیکسی دیکھنے لگا۔
                                    ؤ…ؤ…ؤ

سہ پہر ہوگئی تھی اور ہم اسی جھونپڑی میں پڑے ہوئے تھے۔ اس دوران جانی بھائی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ ہمارے کانوں کے ساتھ لگے آلات خاموش ہو چکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری بے چینی بڑھتی چلی جا رہی تھی کہ وہی لڑکا فون لے کر آ گیا۔ دوسر ی طرف جانی بھائی تھا۔ وہ سکون سے بولا۔
”بڑو۔
ادھر اپنا حلیہ بدل اور ساتھ والی چھمیا( حسین لڑکی) کو بھی کہہ۔ تم دونوں اپن کے پاس آجاؤ۔ ہوٹل پر نجر ہے۔“
”ٹھیک ہے۔“ میں نے کہا تو اس نے فون بند کر دیا۔ تبھی میری نگاہ ایک پیکٹ پر پڑی جو وہ لڑکا لے کے آیا تھا۔ ہم نے کپڑے بدلے اور کچھ دیر بعد میزبان لڑکے سمیت ہم اس جھونپڑ پٹی سے پیدل نکل پڑے۔ تقریباً دو کلو میڑ آگے ایک ٹیکسی ہمارے انتظار میں تھی۔
لڑکا ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گیا اور ہم پیچھے، ٹیکسی چل دی۔ کافی دیر تک سفر کرتے رہنے کے بعدہم ممبئی کے تجارتی اور پرانے علاقے کولابہ میں موجود ایک پرانی بلڈنگ کے پورچ میںآ رُکے۔ ہم چھٹی منزل کے ایک اپارٹمنٹ تک جا پہنچے۔ اندر ڈرائنگ روم میں جانی بھائی بیٹھاہوا تھا۔
کچھ دیر باتوں کے بعد میں اور بانیتا فریش ہوئے ، پھر کھانے کے بعد جانی بھائی نے پوچھا۔
”جمال ، اب تیرا پروگرام کیا ہے ؟“
”یہیں ممبئی میں رہ کر اس ڈیوڈ کا سارا نیٹ ورک تباہ کرنا ہے۔ بس یہی میری…“
”شایدابھی تو ایسا نہ کر سکے۔ ابھی کھانا کھا، سکون کر، ادھر لڑکا لوگ ہے ، سیفٹی ہے۔ چاہے تو گھوم پھر لے۔ پھر بات ہو گی۔ لمبا لفڑا ہے۔کچھ دن انڈر گراؤنڈ رہنا ہوگا۔“ جان بھائی نے میری بات کاٹ کر کہا۔
”دیکھ جانی بھائی ، تو میرا محسن ہے۔
میں نہیں چاہتا کہ تجھے کوئی خطرہ ہو، وہ بھی میری وجہ سے۔ میں کوئی اور ٹھکانہ کر لوں گا تم …“
”ارے کیسن بات کرتا ہے بڑو،یہ دھول مٹی جو اٹھی ہے نا، دو چاردن میں بیٹھ جائے گا۔ پھر تم جو کرنا۔ ابھی آرام کر ، پھر ملتے ہیں۔“ یہ کہہ وہ اٹھا اور اپنا سیل فون مجھے دے کر اپنے لوگوں کے ساتھ چلا گیا۔ ایک دم سے سناٹا چھا گیا۔ دو تین لڑکے تھے ، جو باہر تھے۔
میں اور بانیتا کور بیڈروم میں آ گئے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا، یہ وہی علاقہ تھا جہاں انڈیا گیٹ، تاج محل ہوٹل اور دیگر مشہور عمارتیں تھیں۔ میرے دائیں جانب انڈیا گیٹ دکھائی دے رہا تھا۔ میں واپس بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا۔ تو بانیتا کور نے لیٹتے ہوئے کہا۔
”جانی بھائی ٹھیک کہہ رہاتھا ، بس سکون کرو۔ پھر میں بتاؤں گی کہ کیا کرنا ہے۔“ 
”کیا ہے تیرے ذہن میں؟“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”زور دار سنگھ کے پاس کوئی نہ کوئی …“ اس نے کہنا چاہا تو میں بولا۔
”چل ابھی سکون کرتے ہیں ، پھر دیکھا جائے گا۔“
میں لیٹنے کو تو بانیتا کے پہلو میں لیٹ گیا مگر مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ ڈیوڈ ریبنز کی باتیں میرا دماغ خراب کر رہی تھیں۔ 
اس وقت شام ہو رہی تھی۔ بانیتا سو چکی تھی۔ میں اٹھ کر ڈرائنگ روم میںآ گیا۔ میں نے ایک لڑکے سے نیٹ کے بارے پوچھا۔
اس نے ایک کمرے میں پڑے کمپیوٹر کے بارے میں بتایا۔ میں اسے کھول کر بیٹھ گیا۔ روہی سے کافی کام کی باتیں معلوم ہوئیں۔ انہوں نے ڈیوڈ کے بارے میں کچھ بھی نہ کرنے اور ایک نمبر پر بات کر نے کی بابت ہدایت دی ہوئی تھی کہ جو وہ کہے اس پر عمل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی جسپال کا نمبر تھا۔ مجھے کافی حوصلہ مل گیا کہ اب جس نئی راہ کے بارے بتایا جا رہا ہے۔
ضرور اس کے ڈانڈے ڈیوڈ تک جاتے ہوں گے۔ میں نے پہلے جسپال سے رابطہ کیا۔ وہ چندی گڑھ پہنچ چکا تھا اور رونیت کے ساتھ پرو فیسر کے انتم سنسکار میں مصروف تھا۔ میں نے دوسرا نمبر ٹرائی کیا۔کچھ دیر بعد رابطہ ہو گیا۔ دوسری طرف ایک بھاری آواز سننے کو ملی۔ کوڈ ورڈ کے تبادلے کے بعد میں نے اپنا نام بتایا تو اس نے کہا۔
”مجھے پتہ ہے ،تم اس وقت انڈیا گیٹ کے پاس ہو۔
سورج ڈھلنے کے بعد، مجھے وہیں ملو۔“ 
یہ کہہ کر اس نے اپنی شناخت بتائی۔ میں نے جواباً ڈن کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ، میں پہنچتا ہوں وہاں۔“
”اور ہاں ، تمہارے ساتھ جو لڑکی ہے ، اسے مت لانا، اسے کہو وہ واپس اپنے شہر چلی جائے۔ یہ ذہن میں رکھنا کہ اب واپس اس اپارٹمنٹ میں نہیں آنا۔“ 
اس کے ساتھ ہی اس کا فون بند ہو گیا۔
میں کمپیوٹر کے پاس سے اٹھا اور بانیتا کور کے پاس گیا۔ وہ جاگ رہی تھی۔ میں سوچ چکا تھا کہ اس سے کیا کہنا ہے۔ 
”بانیتا ! ہمیں یہاں سے ابھی نکلنا ہے ، فوراً۔“
”کیا ہوا ؟“ اس نے تیزی سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
”تم یہاں سے سیدھی زور آور سنگھ کے پاس چلی جاؤ یا پھر امرتسر، ہمیں اب غائب ہونا ہے۔“ میں نے تشویش سے کہا۔
”پر ہوا کیا ہے ؟“ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”ہمارے لیے فورسز اس علاقے میں پہنچ چکی ہیں۔وہ لڑکا جو ہمیں یہاں چھوڑ گیا تھا، وہ پکڑا گیا ہے۔“ میں نے کہا تو بانیتا کے چہرے پر تشویش لہرا گئی۔ زور دار سنگھ کا نمبر اسے یاد تھا۔ اس نے رابطہ کیا۔ اگلے چند منٹوں میں ہم وہاں سے نکل پڑے۔ بانیتا کور ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر نکل گئی اور میں پیدل ہی انڈیا گیٹ کی جانب چل پڑا۔ سورج مغرب کی اوٹ میں جانے کو تیار تھا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط