Episode 81 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 81 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 رامیش پانڈے سے بات کرکے میں ذہنی طور پر تناؤ میںآ گیا تھا ، میں نے دعوی کر لیا تھا، مجھے یقین تھاکہ جیسا میں نے کہا ہے ویسا ہو جانا ہے ، لیکن ممکن ہے وقت آ گے پیچھے ہو جائے۔ میں کچھ دیر اس بارے سوچتا رہا ، پھر اچانک میرے ذہن میں سارا پلان آ تا چلاگیا۔ بس مجھے چند چیزیں کنفرم کرنا تھیں۔ وہ میں نے فہیم اور اروندکو بتادیں۔ انہوں نے مجھے دوپہر تک اس بارے کنفرم کر دینے کا وعدہ کر لیا تھا۔

 میں ناشتہ کر کے چھت پر چلا گیا۔ میں جانتا تھا کہ میرا تناؤ کھلی فضا میں دور ہوتا ہے ۔ میرے لاشعور میں کہیں تھا کہ میں نے کسی کو چیلنج دیاہے ، اسے پورا کرنا ہے۔ میں نے ایک دم سے رامیش پانڈے کو ذہن سے نکال باہر کیا اوراس کی جگہ انوجیت سنگھ کے بارے میں سوچنے لگا جو سیاست کے میدان میں کودنے والا تھا۔

(جاری ہے)

اچانک میرے من میں آیا کہ سیاسی نظام کو چلانے والے آخر لوگ ہی تو ہوتے ہیں۔

جب تک ٹھیک اور درست بندے نہ آئے ، اس وقت تک نظام درست چل ہی نہیں سکتا۔ میرا دھیان اپنے ہی سیاسی نظام کی طرف چلا گیا جہاں سوائے کرپشن، جھوٹ اور استحصال کے اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میرا دل کیا کہ اس سیاسی نظام میں اچھے لوگوں کو آنا چاہئے ، مگر کیسے؟ یہ ایک اُلجھا ہوا سوال تھاَ جس کا جواب بہر حال موجود تھا، فوری طور پر میرے ذہن میں نہیںآ رہا تھا۔
میں نے سوچا کہ اشفاق کو اپنے علاقے سے ایم این اے الیکشن لڑوا دیاجائے۔ اس بارے اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جب تک عام عوام یہ سمجھتی رہے گی کہ یہ کام چند مخصوص خاندانوں کا ہے ، یہ عوام اسی طرح پستی رہے گی۔ چونکہ اس نظام کو لوگوں ہی نے بدلنا ہے ، اس لئے لوگ بھی اچھے ہی لائیں جائیں۔ میری سوچ اس طرف چل پڑی۔ ایسے میں کرنل سرفراز کا فون آ گیا۔
” کیا ہو رہا ہے؟“
” ایویں ہی کچھ سوچیں سوچتا چلاجا رہا تھا یہاں کی سیاست کے بارے میں۔“ میں نے کہا 
” مثلاً کیا۔“ انہوں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا تو میں نے اختصار سے بتا دیا ، تب انہوں نے کہا،” میں نے اس پر بہت سوچا ہے اور میرے پاس ایک پلان بھی ہے۔ اس بارے میں تم سے میں بات کرتا۔لیکن ابھی تم نے جو رامیش پانڈے کو چیلنج دیا ہے ، اسے پورا کرنا اور پوری سنجیدگی سے کرنا ہے ۔
“ 
” ہو گیا، اس بارے آپ کے جو ذہن میں ہے، میں وہ ضرور سننا چاہوں گا۔“ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا
” میں نے کچھ معلومات تجھے میل کر دی ہیں۔ اسے دیکھو، یہ نوتن کور گروپ کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ تم ونود رانا سے رابطہ کرو ، میں بھی کچھ کرتا ہوں۔“ انہوں نے راستہ دکھاتے ہوئے کہا
” اوکے ۔“ میں نے کہا تو انہوں نے فون بند کر دیا۔
میں چھت سے اتر کر نیچے اس کمرے میںآ گیا جہاں فہیم بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس سے لیپ ٹاپ لیا اور میل دیکھنے لگا۔کچھ دیر بعد میں نے لیپ ٹاپ بند کیاا ور چند لمحے سوچنے کے بعد بانیتا کور سے رابطہ کیا۔
” ہائے ظالم ۔! یہ میری قسمت ہے کہ تم نے مجھے اس قابل سمجھا کہ مجھ سے بات کرو، یقین جانو بڑا مس کرتی ہوں تمہیں، بولو کیا حکم ہے میرے لئے۔
اب یہ مت کہنا کہ کوئی حکم دینے کے لئے نہیں صرف تم سے بات کرنے کو جی چاہا تھا۔“ اس نے ایک دم سے شوخی بھرے لہجے میں کہا تو میں نے ابھی اسی انداز میں کہا
” یار تم تو گیانی ہو گئی ہو۔ اب تو کہنے سے پہلے ہی من کی بات جان جاتی ہو۔“
” بولو ، بات کیا ہے۔“ اس نے کافی حد تک سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا تو میں نے اسے رامیش پانڈے سے ہونے والی ساری بات بتا دی
” کرنا کیا ہے ؟“ اس نے پوچھا
” تم ونود رانا سے بات کرو ، کہو میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔
پھر جو بھی بات ہوگی تمہارے سامنے ہو جائے گی۔“ میں نے اس سے کہا
” میں اس سے رابطہ کرتی ہوں۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔میں انتظار کرنے لگا ، تقریباً دس منٹ کے بعد اس نے کال کرکے بتایا کہ وہ خود بات کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کانفرنس کال میں دونوں کو لے لیا۔کچھ دیر تمہیدی باتوں کے بعد میں نے پوچھا
” کیا تم جگجیت بھر بھرے کا انتقام لینا چاہتے ہو ؟ اس سیٹ اپ کو ختم کرنا چاہتے ہو جو رامیش پانڈے نے بنا دیا ہے؟ یا خاموشی سے اپنی نوکری کرنا چاہتے ہو؟“ 
” مجھے خود سمجھ نہیںآ رہی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔
میں دلبرداشتہ ہو چکا ہوں۔ “ وہ مایوسی سے بولا
” میرے کہنے پر ایک بار اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ۔ حوصلہ پکڑو۔ ایک بار پھر سے فتح یاب ہو جاؤ۔“ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
” کیسے کوئی راستہ ہی نہیں ہے؟“اس نے پھر اسی مایوسی میں کہا
” دیکھو ونود ،میں نے اسے چوبیس گھنٹے کا وقت دیا ہے ، جس میں سے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گذر چکا ہے ، اس دوران اس نے پرائم منسٹر سیکٹریریٹ سے بھی رابطہ کر لیا ہے۔
وہ اپنے بندو بست میں لگ گیاہے۔ اسے یہ اندازہے کہ میں ایسا کر سکتاہوں تو اس پر خوف طاری ہے۔ میں مانتا ہوں کہ خوف زدہ انسان بہت خطرناک ہوتا ہے، اسے اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے، لیکن ظالم اندر سے انتہائی بزد ل ہوتا ہے۔ اس کے بندو بست ہی اسے لے ڈوبتے ہیں۔ میری بات سمجھ رہے ہو۔“
” میں سمجھ گیا، مجھے کیا کرنا ہے، بولو تم کیا چاہتے ہو۔
“اس نے ایک دم سے چونکتے ہوئے پوچھا۔ اس کے لہجے میں جوش بھرا ہوا تھا۔
”بس اسے گھیر کر رکھو، اوپر سے جو بھی سیکورٹی کے لئے ہوگا، اس میں اپنے بندے داخل کر دو۔ باقی کام بانیتا کر لے گی، یہ ابھی ممبئی آ رہی ہے۔“ میں نے کہا تو بانیتا کور نے شوخی میں کہا
” ارے تم تو مجھے نارتھ پول جانے کا بھی کہو تو میں جانے کو تیار ہوں، یہ تو اپنی ممبئی ہے یار۔
“ یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ تب میں نے کہا
” بس تم وہاں پہنچو، یہ ذہن میں رکھنا کہ یہی صرف تمہارا آپریشن ہو گا۔ اس میں جسپال کہیں نہیں ہے۔“ 
 ” وہ کیا ہر پریت کے پاس ہے؟“ اس نے پوچھا
” ہاں وہ ادھر ہی ہے ، میں نے خود اسے وہیں رکنے کو کہا ہے ۔“ میں نے جواب دیا
” کاش تو بھی میرے پاس ہوتا۔“ اس نے حسرت سے کہا تو میں ایک دم سے بولا
” یہ کل تک ختم کرو، پر سوں میرے پاس ہوگی تم۔
” مجھے معلوم ہے یہ تم اپنی بات سچ کر دکھاؤ گے۔ کیا یہ آ ج رات نہیں ہوسکتا ممبئی والا کام ۔“ یہ کہہ کر وہ پھر ہنس دی۔ تو میں نے کہا
” میں نے اسے چوبیس گھنٹے کا وقت دیا ہے ، تم نکلنے کی تیاری کرو۔ ونود میں تم سے رابطے میں رہوں گا۔ تم سن رہے ہو نا۔“ میں نے پوچھا
” میں سن رہاہوں۔ جیسے ہی مجھے کو ڈیویلپمنٹ دیکھنے کو ملی میں آپ سے رابطہ کر لوں گا۔
“ اس نے جوش سے کہا
” نہیں، تمہیں ، میرا نمبر نہیں ملے گا ،میں خود کروں گا، یہ کہیں بھی ٹریس نہیں ہوگا۔ اب تم اپنی آ نکھیں کھول لو اور ٹھنڈے دماغ سے سوچنا شروع کر دو۔“
” اوکے ۔“ اس نے کہا تو میں نے رابطہ منقطع کر دیا۔
کچھ دیر بعد میں نے سب کو بتا دیا کہ میں کیا کرنے جا رہاہوں۔ سب لوگوں کی توجہ اس کام پر لگ گئی تھی۔
 کچھ وقت گذرا تھا کہ کرنل سرفراز کا فون آ گیا۔
اس نے مجھے ایک فون نمبر دیتے ہوئے کہا
” یہ وہ جوان ہے ، جسے میں نے اس کام کے لئے چنا ہے جو تم چاہ رہے ہو۔ میں چاہتا تھا کہ اسے کندن بناؤں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ابھی کندن نہیں بنا ، ابھی اسے بھٹی میں ڈالنا ہے، ڈال سکتے ہو تو یہ کام اپنے ذمے لے لو، اس کی تمام تر ذمہ داری تمہیں خود پر لینا ہوگی۔اگر یہ تمہیں اپنے مطلب کا بندہ نہ لگے تو…“
” وہ اگر آپ نے چنا ہے تو وہ اس قابل ہوگا۔ میں تیار ہوں اسی کی ذمہ داری لینے کے لیے۔“ میں نے کہا
” میں نے اس کے بارے میں تمام ضروری معلومات ای میل کر دی ہیں۔ جب چاہے اسے بلالینا۔“ انہوں نے کہا اور فون بند کر دیا

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط