” کون ہو تم؟“ میں نے پوچھا
” یہ تفصیل میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا، جب تم میرے سامنے اپنی موت کے لئے بھیک مانگ رہے ہو گے۔ میں…“ وہ کہہ رہا تھا اور میں سمجھ گیا کہ وہ جو کوئی بھی تھا، کیا چاہ رہا ہے ۔ میں نے سیل فون بند کرکے جیب میں رکھا اور تیزی سے اٹھا۔ بانیتا کور مجھے دیکھ رہی تھی، اس لئے مجھ سے پہلے ہی وہ اٹھ گئی۔
” یہ لوگ ہمارے لئے ہیں۔
“ میں نے کہا تو وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ سامنے کے واش روم میں گھس گئی۔یہ چند قدم چلتے رہنے کے دوران اس نے اپنا پسٹل نکال لیا تھا۔ میں دوسری طرف بنے ہوئے ستون کے ساتھ لگ گیا۔ وہاں سے سیڑھیوں کا سرا دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دکھائی دئیے۔ میں پوری طرح الرٹ ہو گیا۔ قدموں کی چاپ نہیں آرہی تھی۔
(جاری ہے)
میں سمجھ گیا کہ وہ سبھی تربیت یافتہ ہیں۔
میں نے سامنے دیکھا، بانیتا کور میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے اشارے سے بتا دیا کہ وہ آ رہے ہیں۔ اس نے دروازے کی آ ڑ لے لی۔ اس نے پسٹل کا سیفٹی کیچ ہٹایا اوروہ فائرنگ کے لئے پوری طرح تیار ہو چکی تھی۔
ایک دو منٹ کے اندر ہی وہ اوپر آ گئے۔ وہ چار تھے۔ ایک نے آتے ہی کسی نے کہا
” یہاں تو کوئی نہیں ہے ۔ نہ جمال اور…“
” یہیں ہوں گے، دیکھو۔
“ دوسرے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ اسی لمحے وہ آ گے آ کر پھیلنے لگے۔ اس طرح وہ مجھے دیکھ لیتے، میں جب تک ایک دو کو فائر کرتا ، تب تک وہ مجھے نشانہ بنا لیتے۔ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بانیتا کور نے فائر کر دیا۔ اس لمحے انہیں سمجھ نہیں آ ئی کہ یہ فائر کس طرف سے ہوا ہے۔ میں نے اسی لمحے کا فائدہ اٹھایا اورتبھی میں نے ایک کے ہاتھ کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔
پسٹل سمیت اس کا ہاتھ اُڑ گیا تو اس کے منہ سے بھیانک چیخ بلند ہوئی۔ اس کے بعد موقعہ نہیں تھا۔ ان کی طرف سے گولی چلی اور بانیتا کور بھی اگلا فائر چکی تھی۔ اس کے ساتھ میں نے فائر کردیا۔ وہ واپس مڑنا چاہتے تھے یا نہیں، البتہ میں سامنے نکل کر ان پر فائر کرتا چلا گیا۔ وہ چاروں فرش پر پڑے چیخ رہے تھے۔ بلاشبہ نیچے والوں نے اوپر آ نا تھا یا پھر بھاگ جانا تھا۔
میں انہیں بھاگنے کا موقعہ نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں نے پسٹل کا میگزین بدلا اور سیڑھیوں کے سرے پر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔میں نے بانیتا کور کو دیکھا۔ وہ پاؤں کی ٹھوکر سے ان کا اسلحہ ان سے الگ کر رہی تھی۔ وہ ایساکرچکی تو میں نے اسے سیڑھیوں کے سرے پر نظر رکھنے کو کہا۔ وہ میری جگہ آ گئی تو میں تیزی سے شیشے کی بڑھا۔ ایک الماری کی کنڈی نہیں تھی ۔
میں نے اسے کھولا اور نیچے قدم رکھااور ایک ہاتھ سے جھول گیا۔ اسی لمحے مجھے اندر کا منظر دکھائی دیا۔ وہ منظر دیکھ کر میرا دماغ گھوم گیا۔ مجھے ایک دم سے شاک لگا۔ان دونوں حملہ آوروں نے دو عورتوں اور چند بچوں کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ بچوں کی ہچکیاں بندھی ہوئیں تھیں۔ اگر ایک ہوتا تو میں چشم زدن میں اس کا صفایاکر چکا ہوتا۔ وہ دو تھے۔ اگر ایک مرتا تو دوسرا نقصان پہنچا سکتا تھا۔
اس وقت صورت حال یہ تھی کہ میں نیچے بڑی آ سانی کے ساتھ جا سکتا تھا، لیکن اوپر جا نا بہت مشکل تھا۔مجھے اچھی طرح احساس تھا کہ بانیتا کور دوسری طرف نگاہ رکھے ہوئے تھی۔میں وہیں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر بہت مشکل سے کھڑا ہونا چاہا لیکن میری حرکت سے آواز پیدا ہوئی۔ میں کوئی ایسی آواز بھی نہیں نکالنا چاہتا تھا ، جس سے نیچے کھڑے حملہ آور متوجہ ہو جاتے۔
میں نے جیب سے سیل فون نکالا اور بانیتا کور کو فون کردیا۔ اس نے بجائے فون سننے کے چند ثانئے کے بعد کھڑکی میں آ کر دیکھا۔ وہ کچھ کہناچاہتی تھی مگر میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی ہوئی تھی۔ اس نے اشارے سے پوچھا، تو میں نے سیل فون کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دوبارہ کال کر کے نیچے کی صورت حال کے بارے میں بتایا۔ پھر اسے سمجھایا کہ کیا کرنا ہے۔
اس وقت دو عورتوں اور بچوں کی زندگی کا سوال تھا۔ بانیتا کور پیچھے ہٹ گئی تومیں نے بڑی احتیاط سے خود کو اس طرح ٹیرس پر لٹا لیا کہ آواز تک پیدا نہیں ہونے دی ۔ اس بار جب میں نے ان حملہ آوروں کے چہروں پر کافی حد تک تشویش دیکھی تھی۔
میں نے بانیتا کور کو یہ سمجھایا تھا کہ وہ ایک دم سے سیڑھیوں پر سے لڑھکتے ہوئے ایسے نیچے گرتی چلی جائے جسے کہ وہ بے ہوش ہے یا مر چکی ہے۔
ایک آدھ ثانئے کو ان حملہ آوروں کی توجہ ہٹانی تھی۔ لیکن اس سے پہلے میں اسے کہا تھا کہ وہ اپنا پسٹل میری طرف پھینک دے۔وہ وہاں پر ان چاروں میں سے کسی کا بھی اسلحہ استعمال کر سکتی تھی۔ چند لمحوں ہی میں اس نے پردے کے ایک کپڑے میں پسٹل باندھ کر بالکل میرے اوپر تک پہنچا دیا۔ میں لیٹے لیٹے وہ کھولا، اس کا میگزین دیکھا اور مطمئن ہو کر اسے ایکشن کے لئے کہہ دیا۔
میں غور سے شست باندھے ان پر نگاہیں گاڑے ہوئے تھا۔ تبھی اُن کی توجہ ہٹی، انہوں نے گھوم کر دیکھا، تبھی میں نے دونوں ہاتھوں سے پوری توجہ کے ساتھ دو فائر کئے۔ ان کے ہاتھوں سے پسٹل نجانے کدھر گئے، اس کے ساتھ ہی ان کے حلق سے چیخیں بلند ہوئیں۔ میں نے اگلا لمحہ ضائع نہیں ہونے دیا۔ جس وقت تک ان کی چیخیں کم ہوتیں، میں ٹیرس سے کود گیا تھا۔
بلاشبہ بانیتا کور بھی اٹھ گئی ہوگی۔ میرے قدم جونہی زمین پر لگے۔ وہ دونوں باہر کی جانب بھاگ کر آتے ہوئے دکھائی دئیے۔
میں اسپرنگ کی مانند اچھلا اور ان دونوں کے درمیان آ گیا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں ان پر وار کروں گا، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔میں ایک دم سے جھک گیا وہ میرے اوپر سے الٹ کر باہر فرش پر جا گرے۔ اس سے پہلے کہ وہ اٹھتے میں ان کے سر پر پہنچ گیا۔
اس وقت تک بانیتا کور بھی آ گئی۔ اس نے آتے ہی ایک بندے کے منہ پر زور دار ٹھوکر ماری۔ اس کے دیکھا دیکھی میں نے بھی اس کے منہ پر ٹھوکر رسید کی۔ وہ اُوخ کی کریہہ آواز نکال کر وہیں ڈھیر ہوگئے۔
خطرہ ٹل جانے کا احساس کرکے لوگوں کی باتیں شروع ہو گئیں۔یہ ایسی صورت حال تھی ، جس میں ہمارے لئے خطرہ بڑھ جاتا۔ پولیس کو جواب دینا، وقت ضائع ہونا اور خواہ مخواہ تفتیش سے گزرنا ، کئی ایسے مرحلے تھے ۔
اس سے بہتر یہی تھا کہ ان دونوں کے لے کر یہاں سے نکل جائیں۔ میں نے فوری طور پر ان کی تلاشی لیتے ہوئے وہاں کے لوگوں کہا کہ فوراً رسی لائیں۔ جب تک ہم نے ان دونوں نے تلاشی لی تب تک ہمیں رسی دستیاب ہو گئی۔ میں نے دونوں کو باندھتے ہوئے بانیتا کور کو سمجھا دیا کہ اب کیا کرنا ہے ۔ وہ تیار ہوگئی ۔ جیسے ہی میں نے دوسرے کو باندھا، وہ کار کی جانب بڑھ گئی۔
وہ تیزی سے کار قریب لائی۔ اس کا دروازہ کھولا۔ تبھی ایک آدمی تیزی سے بولا
” ارے کیا کر رہے ہو بھائی، پولیس آ تی ہی ہو گی ۔ ‘ ‘
ہم نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان دونوں کو اٹھا کر ، کار کی پچھلی سیٹ کے درمیان رکھا۔ بانیتا کور نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ہم وہاں سے چل دئیے۔
” کدھر جانا ہے؟“ اس نے پوچھا
” فی الحال چلتے چلو۔
بتاتا ہوں ۔“ میں نے کہا اور سیل فون نکال لیا۔ میں نے طارق نذیر کے نمبر پش کئے۔ میرے خیال میں اس نے بیل بھی نہیں بجنے دی تھی کہ فون پک کرلیا۔
” سر میںآ پ ہی کو فون کر رہا تھا۔“ اس نے تیزی سے پر جوش لہجے میں کہا
” کیوں؟“ میں نے پوچھا
” اس بندے کا پتہ چل گیا ہے ، جس کی وجہ سے آپ کے گھر پر حملہ ہوا تھا۔ وہی مینجرتھا، وہ ہمارے پاس ہے اسی نے بتایا۔
“ وہ بولا
” اچھا میں یہ تفصیل تمہارے پاس آ کر سنتا ہوں۔ مجھے کوئی سیف ہاؤس بتاؤ، یا پھر ایسی جگہ جہاں دو غلط قسم کے بندوں کے ساتھ ہم بھی کچھ وقت گزار سکیں۔“ میں نے کہا تو وہ تشویش سے بولا
” اوہ۔! ایسا کیا ہو گیا سر ؟“
” یار ، آ کر بتاتا ہوں نا، جلدی بولو۔“ میں نے کافی حد تک تلخی سے کہا تو وہ میری لوکیشن پو چھنے لگا۔
میں نے بتایا تو وہ بولا
” آپ سیدھے اسی روڈ پر آتے چلیں جائیں۔ پھر دائیں جانب آ ئیں گے تو نہر آ جائے گی۔ تب تک میں پہنچ جاتا ہوں، میں کار میں سوار ہو گیاہوں، میں قریب ہی ہوں۔ “ اس نے روانی میں کہا ۔ میں اگلے چوک کو دیکھنے لگا جہاں سے مڑنا تھا۔ہم نہر پر پہنچے ہی تھے کہ سامنے طارق کھڑا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ہم کون سی کار میں ہیں۔
میں نے کال کر کے اسے بتایا تووہ اپنی کار میں بیٹھ گیا۔ ہم اس کا تعاقب کرتے ہوئے ایک بنگلہ نما گھر میں آ گئے۔
” وہ مینیجر بھی ادھر ہی ہے ۔ آپ خود اس سے پوچھ لیں ۔“ طارق نے بتایا
” ان دونوں کو اُتارو، یہ ذرا خاص مہمان ہیں، ان کی خاطر داری کرو، ان کے ہاتھوں پر زخم ہیں، انہیں فسٹ ایڈ دوپھر ان سے بات کرتے ہیں۔ “ میں نے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔
ننگے فرش فرش پر ایک ادھیڑ عمر فربہ مائل شخص اَدھ موا ہوا پڑا تھا۔اس کی آ نکھیں بند تھیں اور وہ آ ہستہ آ ہستہ سانس لے رہا تھا۔
” یہی ہے وہ مینجر۔“ طارق نے بتایا تو میں اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ آواز سُن کر اس نے بہ مشکل پپوٹے کھولے ، میری طرف دیکھا تو اس کی آ نکھوں میں حیرت اتر آ ئی۔ وہ میری جانب خوف زدہ نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔ پھر یوں سر گرا دیا جیسے وہ مایوس ہو کر ہر طرح کی صورت حال کو قبول کرنے کا فیصلہ کر چکا ہو۔ میں نے اس کے بال پکڑے اور اس کا سر اٹھا کر پوچھا
” کیسے ہوا سب؟“