رات گئے وہ دونوں باتوں میں الجھے رہے۔ یہاں تک کہ انو جیت بھی ان کے پاس آ گیا۔ وہ الیکشن ہی کی باتیں کرنے لگا۔ رات کے دوسرے پہر تک باتیں کرہے کے بعد وہ سونے کے لئے چلے گئے۔
صبح کی روشنی بہت حد تک پھیل گئی تھی جب جسپال کی آ نکھ کھلی۔ اس کے پاس سوائے نوتن کور کا انتظار کرنے کے اور کوئی کام نہیں تھا۔ وہ دھیرے دھیرے تیار ہوا۔ اور پھر ڈرائینگ روم میں آ گیا۔
کلجیت کور وہیں بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہیں اسے پتہ چلا کے رات پنڈ کے ایک گھر سے لڑکی اغوا ہو گئی ہے۔ بھائی کی آ نکھ کھلی تو اس نے مزاحمت کی، جس پر انہوں نے بھائی کو فائر مار دیا۔ وہ بے چارہ وہیں مر گیا۔ اب نہ لڑکی کا پتہ ہے اور نہ لڑکی لے جانے والوں کا۔ انوجیت انہی کے گھر گیا ہواہے ۔
” پھوپھو، یہ تو بہت برا ہوا، میں دیکھتا ہوں۔
(جاری ہے)
“ اس نے اپنا سیل فون نکال کر کہا اور انوجیت کے نمبر ملانے لگا۔
جلد ہی اس نے فون رسیو کر لیا۔
” کچھ پتہ چلا؟“ اس نے پوچھا
” نہیں، کوئی سراغ نہیں ملا، پولیس آ ئی تھی اور قانونی کاروائی کر کے چلی گئی ہے۔ لاش بھی پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئے ہیں۔ اب دیکھیں۔“ وہ جواب میں بولا
” اچھا ، میں آ رہا ہوں۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔ وہ اٹھنے لگا تو کلجیت کور بولی
” ناشتہ کر کے جانا، وہاں پتہ نہیں کتنا وقت لگ جائے۔
“
” جی پھوپھو، جیسا آپ کہیں“ اس نے کہا تو کلجیت کور اٹھ کر کچن کی طرف چل دی۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ بلبیر سنگھ پینچ کے پاس جا پہنچا۔ وہ اپنے گھر ہی تھا اور پنچائت گھر جانے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ جسپال کے جاتے ہی وہ اس کے ساتھ کار میں بیٹھا اور ادھر چل دیا۔
” پینچ جی، آپ کو کوئی اندازہ ہے یہ جو اغوا ہوئی ہے لڑکی، یہ کون کر سکتا ہے؟“ جسپال نے اپنا کام شروع کر دیا
” ابھی دیکھتے ہیں، کیا نکلتا ہے ۔
اصل میں یہ جو لڑکیوں کے اغوا والے معاملات ہیں نا، ان میں آدھے سے زیادہ وہ ہوتے ہیں،جن میں لڑکیاں خود شامل ہوتی ہیں۔ بس لوگوں میں یہ بات مشہور نہ ہو کہ لڑکی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ کچھ لوگوں کی آ پس کی دشمنی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جرم ہو ، مجھے نہیں لگتا کہ کسی کی اتنی جرات ہو گئی ہے کہ وہ ایسا جرم کرے ، وہ اب پہلے والا ماحول نہیں رہا۔
“ بلبیر سنگھ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
”آپ کیسے یہ معلوم کر پائیں گے؟“ جسپال نے پوچھا تو وہ بولا
” دیکھو بیٹا۔! سیانوں کی ایک کہاوت ہے کہ جہاں جرم ہوتا ہے ، سراغ بھی وہیں سے ملتا ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے دشمن کو شک کی زد میں لایا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے یہاں۔ سبھی ایسا کرتے ہیں۔ وہ یا اپنی صفائی دیتے ہیں یا پھر ایسا کوئی سراغ یا سمت دے دیتے ہیں، جس سے بات آ گے چلائی جاتی ہے ۔
اگر انہوں نے اپنی صفائی دے دی ، تو بہت حد تک یہ معاملہ صاف ہو گیا۔ اگر لڑکی کہیں دوسرے لڑکے کے ساتھ بھاگی ہے تو بھی وہیں بات کھل جاتی ہے ۔ کیونکہ خود کو الزام سے بری کرنا ہوتا ہے نا ملزموں نے۔“ پینچ نے تفصیل بتائی
” اور اگر جرم ہو تو…“ جسپال سے پوچھا
” تو پھر لوگ پولیس کی مدد لیتے ہیں، اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔
ایسا جرم کرنے والا اکثر ہمیشہ طاقتور بندہ ہی نکلتا ہے اور طاقت ور ہاتھ نہیں آتا۔“ وہ یہ کہہ کر وہ خامو ش ہوگیا۔
اسی خاموشی میں وہ پنچائت گھر جا پہنچے۔ وہاں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اگر صرف کوئی قتل ہو گیا ہوتا تو شاید ایسے وقت میں یہ پنچائت نہ ہوتی بلکہ آخری رسومات کے بعد یہ سب ہوتا ،لیکن چونکہ ایک لڑکی کا اغوا ہوا تھا، اس لئے پنچائت بلانا لازمی تھا۔
وہاں کیافیصلہ ہوتا، یہی سننے کے لئے جسپال بھی وہیں بیٹھ گیا۔
تقریباً ایک گھنٹہ باتیں سنتے رہنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ یہ کسی باہر ہی کے بندے کا کام ہے ۔ گاؤں میں ان کے رشتے داروں ہی سے ان کی چپقلش تھی۔ انہوں نے نہ صرف صفائی دے دی تھی ،بلکہ آئندہ بھی اگر ان کا کوئی جرم ثابت ہو جائے تو وہ ہر طرح کی سزا کے لئے تیار تھے۔ سبھی لوگوں کا اس پر اتفاق تھا کہ لڑکی بہت اچھی تھی ، کسی نے اس میں ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی شک بھی کیاجا سکے۔
طے یہی پایا کہ پولیس سے مدد لی جائے اور خود بھی کوشش کی جائے۔
جسپال وہاں سے اٹھ گیا ۔ اس نے بلبیر سنگھ پینچ سے بڑے مایوسانہ لہجے میں کہا
” یہ تو کچھ بھی نہ ہوا پینچ جی،جب تک پولیس اس لڑکی تک پہنچے گی، اس کا پتہ نہیں کیا حشر ہوجائے گا۔ وہاں ان کی دسترس ہی میں نہ رہے۔“
” اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ کوئی سراغ تو ملے جہاں کوشش کی جائے، اب جیسے ہی ملے گا، کچھ کرتے ہیں۔
“
وہ دونوں اس گھر میں گئے جہاں کی لڑکی اغوا ہوئی تھی ۔ ادھیڑ عمر ماں باپ کے ساتھ ایک چھوٹا بھائی تھا۔ بہن اغوا ہو گئی اور بھائی بہن کو بچاتا ہوا مارا گیا تھا۔ ان پر تو قیامت گذر گئی تھی۔ وہیں سے پتہ چلاکہ لڑکی کی ایک جگہ بات چل رہی تھی لیکن ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا۔ وہ لوگ ساتھ والے گاؤں تلونڈی بھارو میں رہتے تھے اور لڑکا اپنے کام کی غرض سے نکودر شہر میں رہتا تھا۔
اور وہیں کسی کے پاس ملازم تھا۔ ابھی تک ان دو خاندانوں میں بات اس لئے طے نہیں ہو پائی تھی کہ لڑکے والے جہیز کا کوئی زیادہ ہی مطالبہ کر رہے تھے۔ جبکہ لڑکی اس لئے نہیں مان رہی تھی کہ اتنے لالچی لوگوں کے ہاں وہ شادی نہیں کرے گی ۔ والدین کا خیال تھا کہ وہ لوگ اگر کچھ کم جہیز پر راضی ہوئے تو یہیں ہاں کر دیں گے۔ وہ کچھ دیر ان کے گھر رہے اور پھر وہاں سے واپس آ گئے۔
جسپال نے بلبیر سنگھ پینچ کو اس کے گھر چھوڑا ہی تھا کہ ایسے میں نوتن کور کی کال آ گئی کہ وہ گھر پہنچ چکی تھی ۔ جسپال کا من بہت بھاری ہو رہا تھا۔ وہ اسی دکھی من کے ساتھ گھر آ گیا۔
نوتن کور ڈرائنگ روم میں ہی تھی اس کے پاس ہرپریت بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ان کے سامنے کھانے پینے کو کافی کچھ رکھا ہوا تھا۔ جسپال ان کے پاس جا بیٹھا۔
تو نوتن کورنے ہی غور سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
” خیر تو ہے نا جسپال، ایسے منہ کیوں بنا رکھا ہے؟“
” یار ، بات ہی ایسی ہے ، بہت دکھ ہو رہاہے۔“ وہ آرزدہ لہجے میں بولا
” ایسی کیا بات ہو گئی ، وہی تو پوچھ رہی ہوں؟“ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا تو جسپال نے سارا احوال کہہ دیا۔تو وہ بھی افسردہ ہوتے ہوئے بولی،” بہت برا ہوا۔
“
” وہ غریب لوگ ہیں، اگر قاتل مل بھی گئے نا، تو وہ ان کا کچھ نہیں کر پائیں گے۔“ ہرپریت نے کہا تو جسپال نے اس کی طرف دیکھ کر تلخ لہجے میں پوچھا
” ہر پریت۔! ان قاتلوں کا پتہ تو چلے، تم تو ایسے کہہ رہی ہو ، جیسے تمہیں پتہ ہے کہ اس کے قاتل کون ہیں ، اور کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پایا۔“
” میں مانتی ہوں کہ مجھے نہیں پتہ لیکن تم جانتے ہو کہ ایسے جرم کون لوگ کرتے ہیں۔
اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر پولیس کی بجائے ہم ان قاتلوں کی تلاش کریں تو جلدی ان تک پہنچ جائیں گے۔“ وہ مایوسانہ لہجے میں بولی
”ہر پریت یہی ہے وہ ضرورت، جس کی وجہ سے ہمیں طاقت اپنے ہاتھ میں لینی ہے۔ بے شک دشمن پیدا ہوتے ہیں، لیکن طاقت کے آگے، بہت کم لوگ سر مارتے ہیں، سو دفعہ سوچتے ہیں۔ یوں بے بس نہیں ہونا پڑتا۔ بتاؤ، یہی معاملہ اگر ہمارے ساتھ ہوتا تو ہم کیا کرتے۔
یہ جنگل ہے ہرپریت، اس میں کیسے رہنا ہے یہ اب ہمیں جانوروں ہی سے سیکھنا ہوگا۔ انسان اب مہذب نہیں رہا۔ درندہ بھی بھوک لگنے پر شکار کو نکلتا ہے ، جبکہ انسانوں کی ان بستیوں میں ہر وقت صیاد گھات لگائے بیٹھا ہے ، شاید ان کی بھوک مٹتی ہی نہیں۔“ جسپال جیسے ایک دم ہی سے پھٹ پڑا تھا۔
” جسپال۔! تم پر سکون رہو، رَبّ مہراں کرے گا ، تم پر یشانی مت لو۔
“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوئی پھر اس سے پوچھا،” کیا پولیس سے تم ذاتی طور پر ملے ہو؟“
” نہیں، ابھی تو نہیں ملا۔“ا س نے جواب دیا۔
” دیکھتے ہیں ، وہ کیا کرتے ہیں۔“ نوتن نے کچھ ایسے کہا کہ جسپال کی آ نکھیں چمک اٹھیں۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کس طرف اشارہ کر رہی ہے۔ وہ ایک دم سے پر سکون ہو گیا۔
#…#…#