” اگر میں تمہاری بیٹی بارے جان سکتا ہوں تو کیا یہ نہیں جانتا کہ تمہیں یہاں کیا کرنے بھیجا گیا ہے؟“
” وہ سب غلط فہمی میں ہوگیا۔اب میں طریقے سے کسی سب ٹھیک کر رہا ہوں۔ میں نے الیکشن…“ اس نے کہنا چاہا تو جسپال بولا
” اوہ نہیں ، جو کہا گیا ہے وہی کرو۔“ یہ کہہ کر جسپال وہاں سے ہٹ گیا۔ ایک سپاہی اندر گیا ہوا تھا کہ اس دوران پریس کی کئی گاڑیاں وہاں آن رکیں۔
گجندر سنگھ ایک دم سے پریشان ہو گیا۔ وہ یوں دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے یہاں سہتا کرتے کرتے و ہ خود پھنس گیا ہے ۔تبھی اے سی پی باہر آ گیا۔ ان سب کو دیکھ کر بولا
” جی سردار جی آپ ، یہاں کیسے ؟“
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا، جسپال نے انتہائی غصے میں کہا
” اصل میں تم جیسے کرپٹ بیور کریٹس نے ان عوامی نمائندوں کو سرپرچڑھا رکھا ہے ۔
(جاری ہے)
تم لوگ خوشامد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اتنے لوگ آئے ، مگر تم نے ان کی ایک نہیں سنی اور محض دلا سہ دے کر انہیں اس آفس سے نکال باہر کیا،جو اسی عوام کے پیسے سے بنا ہے اور اس کے ٹیکس سے تمہیں تنخواہ ملتی ہے ۔ اس گجندر سنگھ نے بھی وہی کہنا ہے جوہم تمہیں کہہ کر آئے ہیں۔اب تم باہر کیاسننے آ ئے ہو؟“
اے سی پی نے باہر کھڑے تمام لوگوں کی طرف دیکھا، اس نے اپنی بے عزتی قطعاً محسوس نہ کی اور جسپال کو نظر انداز کرتے ہوئے گجندر سنگھ کی طرف دیکھ کرسکون سے بولا
” آئیں اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
“
اس پر گجندر سنگھ نے جسپال کی طرف دیکھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ اُس سے اپنی بات منوانا چاہتا تھا ، جس طرح وہ سوچ کر آ یا تھا۔ جب جسپال نے ذرا سا بھی رسپانس نہیں دیا تو وہ بڑھ کر جسپال کے پاس آ یا اور منت بھر ے لہجے میں بولا
” تم اگر چاہو تو ہم ابھی سکون سے کوئی معاملہ طے کر لیتے ہیں۔“
” لڑکی تو واپس کرنی ہے وہ بات تو ہوگئی ۔
میں صرف اس شرط پر تم سے سارا معاملہ طے کر لیتا ہوں۔“ جسپال نے کہا تو وہ تیزی سے بولا
” کہو ، کیا کہتے ہو؟“
” اس کے بیٹے کو تو تم واپس نہیں کر سکتے ہو، ہاں اس کے بدلے اپنی بیٹی دے دو ۔“ جسپال نے سکون سے کہا تو گجندر کا چہرہ یک بارگی سرخ ہو گیا جیسے کسی اُسے گالی دے دی ہو ۔
” جسپال ۔! میں اگر سکون سے بات کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کوئی کمزور ہوں ۔
میں معاملے کو حل کرنا چاہتا ہوں،وہ کر لو۔“ اس نے غصے میں کہا
” تو پھر کیا کرو گے ؟“ جسپال نے طنزیہ لہجے میں کہا
” میں ، تم سب کو دیکھ لوں ابھی اور اسی وقت ؟“ اس نے غصے میں کہا تو اس کی آواز خاصی بلند ہو گئی۔ جو وہاں کھڑے لوگوں اور پریس تک جا پہنچی ۔
” میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ اب تمہیں ختم ہو نا ہے ۔“ جسپال نے کہا اور اس کی کوئی بات سنے بغیر بلبیر سنگھ کے پاس آ گیا۔
” چلیں۔“ بلبیرسنگھ نے پوچھا توجسپال نے اے سی پی کی طرف دیکھ کر کہا
” ہاں ، اب کچھ اور ہی کرنا ہوگا۔ یہاں کے لوگ بھی کرپٹ نکلے۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ لڑکی کو کس نے اغوا کرایا ہے ۔ چلو۔“ یہ کہہ کر جسپال جانے لگا تو اے سی پی نے پریس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے میں کہا
” اُو نوجوان۔! رکو، یوں بیان دے کر نہیں جا سکتے ہو، بتاؤ کون ہے وہ ؟رکو۔
“
” تم مجھے ر وک بھی نہیں سکتے ہو۔“ جسپال نے کہا
”میں تمہیں گرفتار کر سکتا ہوں۔“ اے سی پی نے کہا
” تم مجھے گرفتار بھی نہیں کر سکتے ، کیوں گجندر سنگھ بولتے کیوں نہیں ہو؟“ وہ نخوت سے بولا تو سبھی گجندر سنگھ کی طرف دیکھنے لگے۔ جسپال آ گے بڑھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ ابھی گرفتاری دینے لگا ہو۔
وہاں کھڑا ہر بندہ حیران تھا کہ گجندر سنگھ جیسا شخص اس کے سامنے خاموش کیوں ہے؟ کافی دیر تک جب کوئی نہیں بولا تو گجندر سنگھ آ گے بڑھا اور اس نے ا ے سی پی سے کہا
” جسپال ٹھیک کہہ رہا ہے ، یہ اغوا اور قتل میرے ایک بندے سے ہوا ۔ میں اسے آج ہی پیش کر دیتا ہوں ۔ ‘ ‘ یہ کہنا ہی تھا کہ وہاں موجود ہر بندہ چونک گیا۔پریس نے جلدی سے تصویریں بنانا شروع کر دیں۔
ایک ہلچل سی مچ گئی ۔ اے سی پی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
” لڑکی لاؤ کہاں ہے ؟“ اس بار بلبیر سنگھ پینچ نے تیزی سے کہا
” وہ میرے پاس نہیں ہے۔ میں پیش کر دوں گا۔“ اس نے کہا تو جسپال نے اے سی پی سے کہا
” اب اگر تم نے کچھ نہ کیا تو تیرے لئے بہت برا ہوگا۔ میں تمہیں صرف دو گھنٹے دیتا ہوں۔“ اس نے کہا اور اپنے لوگوں کو چلنے کا اشارہ کر کے کار کی جانب بڑھا تو اے سی پی نے کہا
” رکو جسپال ، “ یہ کہہ کر وہ گجندر سنگھ کی طرف دیکھ کو بولا ،” آ پ کو پتہ ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“
” ہاں۔
! مجھے پتہ ہے ۔ آ پ مجھے گرفتار کرو۔ وہ بندہ بھی یہیں ہے ، وہ بھی گرفتاری دے گا۔“ اس نے کہا تو پیچھے سے ایک شخص آ گے آ گیا۔
اسی وقت ارد گرد کھڑے پولیس والوں نے اُسے ہتھ کڑی لگا دی۔ یہ سب کچھ پریس کے سامنے ہوا ۔ تصویریں بن گئیں۔ ایسے میں گجندر سنگھ کا فون بج اٹھا۔ اس کا ایک مصاحب آ گے بڑھا اور فون اسے دے دیا۔
ایسے میں جسپال کا بھی فون بج اٹھا۔
نوتن کور نے بتایا کہ اس وقت لڑکی گجندر کی ہی اک فیکٹری میں موجود ہے۔ پولیس سے کہا جائے کہ وہ اسے وہاں سے بازیاب کرے ۔ پورے پریس کے ساتھ ۔ جسپال نے یہی بات اے سی پی سے کہی توپریس سن رہا تھا۔ وہ سب لوگ اس جانب بھاگے ۔ پولیس کو بھی وہاں جانا پڑا ۔ جسپال بھی وہاں جا پہنچا۔ سہمی ہوئی لڑکی کو وہاں سے باز یاب کرایا گیا ۔ وہیں سے جس وقت سب واپس نکودر تھانے آ ئے تب لڑکی کا بیان لکھا گیا۔
جس وقت وہ اوگی واپس آ رہے تھے، اس وقت نوتن نے بتایا کہ گجندر سنگھ کی بیٹی کو چھوڑ دیاہے ۔ وہ اپنے گھر جا چکی ہے ۔
راستے میں لڑکی نے بتایا کہ جس لڑکے سے اس کی بات چل رہی تھی۔ اس نے ملنے کو کہا۔ اس نے انکار کر دیا۔ جس پر اس لڑکے نے ضد بنا لی کہ وہ اُسے اُٹھا لے گا۔ وہ لڑکا گجندر سنگھ کے پاس کام کرتا تھا اور اسی دھندے میں ملوث تھا ۔
دراصل وہ لڑکیوں کو آ گے سمگل کرتے تھے ۔ یہی اس کا بڑا دھندہ تھا ۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے اور اپنے باس سے بات کی ۔ اس نے لڑکی اُٹھانے کو کہہ دیا کہ چنددن اُسے اپنے پاس رکھنا ، پھر اُسے آگے بھیج دینا ۔ اس دوران لڑکی کا بھائی قتل ہو گیا۔ یہی سر دردی بن گئی ۔
وہ اس لڑکی کی آ گے بات نہیں کر پائے۔ لڑکا اُسے رام کرتا رہا ، لیکن جس کا بھائی اس کے لئے قتل ہو چکا ہو، اُسے کہاں ہوش تھا۔
وہ تو اپنے بھائی کے قاتلوں کو ختم کر دینا چاہتی تھی۔ گجندر اور اس کے لوگ لڑکی کا قتل بھی سوچ ہی رہے تھے کہ اس کی بیٹی اغوا ہو گئی ۔ گجندر کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اتنا سر پھرا بھی ہوگا جو اس کے گھر تک جا پہنچے گا۔وہ سمجھ گیا کہ بات بہت بڑھ جائے گی، وہ اس معاملے کو اپنے طریقے ہی سے حل کر لینا چاہتا تھا ۔ مگر اُسے پولیس کے سامنے اقرار کرنا پڑا۔حالات ہی ایسے بن گئے ۔ اس کے لئے فرار کی کوئی راہ نہیں تھی۔