Episode 33 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 33 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

ٹیکسی نے ہمیں مال روڈ پر موجود فائیو اسٹار ہوٹل میں چھوڑ دیا۔ استقبالیہ پر بھارتی نژاد برطانوی خاتون کے نام پر سوئٹ بک تھا۔ ہمیں وہاں پہنچا دیا گیا۔ اس کے بعدجب میں فریش ہو کر آیا تو اس نے شارٹس پہن رکھے تھے۔سامنے مہنگی شراب کی بوتل کے ساتھ لوازمات تھے۔ ایک گلاس میں وہ شراب ڈالے ہلکے ہلکے چسکیاں لے رہی تھی۔ میں نے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے تبصرہ کیا
” بہت بدل گئی ہو نوتن۔
” ہاں‘ میں نے فیصلہ کرکے باقاعدہ پلاننگ کر کے خود کو بدلا ہے ۔“ یہ کہہ کر اس نے لمبا سا سپ لیا اور یوں گویا ہوئی جیسے خود پر قابو پاتے ہوئے کہہ رہی ہو ۔” جمال ‘جب تم چلے گئے تو میں نے بہت سوچا، ہم اتنے دن ساتھ رہے ، لیکن تم نے مجھے عورت ہی نہیں سمجھا۔ بلکہ میری بہت ساری خامیوں کو بھی نظر انداز کیا۔

(جاری ہے)

ورنہ میں نے جس کے ساتھ بھی کام کیا ، تنہائی میں اس کی پہلی ترجیح میرا جسم ہوا کرتی تھی۔

جرم کی اس دنیا میں ایک عورت ہونے کی وجہ سے طوائف بن جانے پر مجبور تھی۔ اس کی صر ف اور صرف ایک وجہ تھی کہ میں طاقتور نہیں تھی ، کسی کے سہارے چل رہی تھی۔ رقم تھوڑی ہوتی یا زیادہ ، اس کے عوض زندگی کو گھسیٹنے پر مجبور تھی۔ تم سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ مجھے اپنے ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے یہ کام ہی چھوڑ دیا۔ کوئی تین ماہ بعد بانیتا کور میرے پاس آئی ، میری اس سے لمبی بات ہوئی۔
تب اس نے مجھے امرتسر چھوڑ دینے کو کہہ دیا اور میں نے چھوڑ دیا۔“یہ کہہ کر وہ نیا گلا س بنانے لگی۔ 
” امرتسر چھوڑ کر کہاں گئی ؟“
” ممبئی۔“ یہ کہہ کر اس نے گلا س سے ایک لمبا گھونٹ لیا اور میری طرف دیکھ کر بولی۔
” تب سے میں وہاں ہوں۔ میں نے خود کو پوری طرح بدل لیا۔ اس دن سے میں نے رقم کا نہیں طاقت کا حصول ہی اپنا مقصد بنا لیا۔
اب طاقت بھی ہے اور دولت بھی ۔اب اگر میں چاہوں تو اپنے لیے ، وقت گزاری کے لیے کسی لڑکے کو بلا لیتی ہوں۔ کوئی میری طرف دیکھنے کی جرات نہیں کرتا۔ اس کے لیے میں نے کئی لڑکے پالے ہوئے ہیں۔ “ یہ کہہ کر وہ سپ لینے کیے رکی تو میرے ذہن میں کئی سوال آئے مگر یہ سوچ کر خاموش رہاکہ اس معاملے میں یہ وہیں کی وہیں ہے ۔ مجھے اس پر کوئی سوال نہیں کرنا چاہئے ، یہ اس کی ذاتی زندگی ہے ۔
وہ سپ لے کر بولی۔
”جب پچھلے دنوں تم وہاں تھے تو میرا بہت دل کیا تھا تمہیں ملنے کو ، مگر اس وقت میں پونا میں پھنسی ہوئی تھی اور تم زور دار سنگھ کے پاس ٹھہرے بھی تو ذرا دیر ہی کے لیے تھے۔ جب تک میں ممبئی آئی ، تم وہیں کہیں غائب ہو چکے تھے۔ مجھے دِلی دُکھ ہوا تھا لیکن واہگورو کی مہر سے مجھے تمہارے پاس یہاں بھیج دیا گیا۔“
” کس نے اور کیوں؟“ میں نے پوچھا۔
” ظاہر ہے زوردار سنگھ نے مجھے بھیجا۔ مگر ہمارا ایک بڑا نیٹ ورک ہے ۔ وہ سکھ دھرم ہی کے لیے کام کر رہا ہے لیکن اس کے بہت سارے دوسرے کام بھی ہیں۔ صرف مشن سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اب بات یہ ہے کہ مجھے تمہارے پاس کیوں بھیجا گیا۔“
” وہی تو پوچھ رہا ہوں۔“ میں نے کہا۔
” تو یہ تمہیں بتانا ہوگا کہ تم ممبئی میں کیا چاہتے ہواور میں یا میرا نیٹ ورک تمہارے لیے کیا کر سکتا ہے ، اس حوالے سے میں تمہیں بتاؤں گی کہ ہم کہاں تک کیا کر سکتے ہیں۔
ظاہر ہے اس میں دولت کے علاوہ دوسرے مفادات بھی ہوں گے ۔“ اس نے واضح طور پر کہا تو میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا
” بہت خوب‘تم تو بڑ ے کام کی چیز بن گئی ہو ۔“
” مجھے ذاتی طور پر تمہارے کام آ کر بہت خوشی ہو گی۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
” ابھی کھانا کھاتے ہیں۔ پھر بات کرتے ہیں۔“ میں نے کہا اور اٹھ کر باہر ٹیرس کی جانب بڑھ گیا۔
میں یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ دنیا میں اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اپناتی ہیں۔ کیونکہ ان کے پیچھے کوئی ایسی سوچ ہوتی ہے اور آخرکار بات وہیں اس لکیر پر آ کر رکتی ہے کہ کون انسانیت کے ساتھ ہے اور کون ابلیسیت کا پیروکار۔ اس کے لیے جرائم کی دنیاکو بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے ۔
اس وقت مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے انڈر ورلڈ میں بھی چھوٹی بڑی کمپنیاں بن چکی ہیں اور وہ ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔بے شک اس میں بھی بڑی اور چھوٹی مچھلیاں ضرور ہوں گی۔ جو اپنے مفاد کے لیے کام کرتی ہیں اور اسے بزنس کا نام دے دیا گیا ہے۔
 کہتے ہیں جتنا بڑا شہر ہوتا ہے اتنی بڑی تنہائی ہوتی ہے ۔ بالکل اسی طرح ہر شہر کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔
وہاں کی تہذیب اور ماحول میں بھی انفرادیت ہوتی ہے ۔ وہ اس کی پہچان بن جاتی ہے ۔ ممبئی بھی ایک ایسا ہی شہر ہے، جس کی بنیاد میں جرم ہے ۔
سات جزیروں پر مشتمل شہر ممبئی ،جب کوئی نام نہیں ہوا کرتا تھا، اور وہ محض سات مختلف جزیرے تھے، کولابہ ، مزاگیون، بوڑھی عورت کا جزیرہ ، ودالہ، ماہم ، پاری اور ماروٹونگا۔ امن پسند ان جزیرون پر”اشوکا“ کی نگاہ پڑی اور اس نے یہاں پر انہیں اپنے قبضے میں لیکر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔
جس طرح اصل بھارتیوں پر آریان نے آکر حکومت کی اور انہیں شودر بنا دیا۔ اسی طرح یہاں کے اصل باشندوں کو اس نے انتہائی ذلیل کیا تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں۔اشوکا کی موت سے لیکر 1343ء تک یہ جزیرے مختلف ہندوں حکمرانوں کے ہاتھوں منتقل ہوتے رہے ۔ اس کے بعد گجرات کے مسلمانوں نے اس پر قریباً دو سو سال تک حکومت کی۔ ماہم کا علاقہ ان کا مرکز تھا جہاں آج بھی اسی دور کی ایک مسجد موجود ہے۔
1534ء کے لگ بھگ پرتگیزیوں نے یہاں قدم جمانے شروع کر دئیے۔انہوں نے سازش اور طاقت کے ذریعے مسلمانوں سے بہت سارے علاقے چھین لیے ۔خاص طور پر مغربی ساحلی علاقے جو تجارت کے لیے بہت اہم تھے۔ وہ وہاں آباد ہوئے ، رومن کیتھولک چرچ بنائے۔ باندرہ میں آج بھی سینٹ اینڈریو چرچ موجود ہے ۔ انہوں نے انہی علاقوں میں قلعہ نما عمارتیں بنائیں اورآ ہستہ آ ہستہ سبھی جزیروں پر قابض ہو گئے ۔
انہوں نے ساتوں جزیروں کے مقبوضہ علاقے کا نام رکھا” بوم بیا“ (Bom Baia)، جس کا پر تگیزی زبان میں مطلب ہے ” بہت اچھا ساحل“۔ تقریباً بیس برس بعد انگریز بادشاہ چارلس نے پرتگیزی شہزادی کیتھرین آف برگنزا سے شادی کی تو یہ بوم بیا ان کی عملداری میںآ گیا۔ یہ شہر انہیں تحفے میں دیا گیا تھا۔انہوں نے اس کی قیمت یہ پائی کہ ان جزیروں کو دس سونے کے پونڈکے عوض ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیا۔
اس سے پہلے ایسٹ انڈیا کا مرکزی دفتر گجرات کے شہر” سورت “ میں تھا،1687ء میں انہوں نے اپنا مرکزی دفتر یہاں تبدیل کر لیا ، یہی جگہ تجارتی مرکز قرار پائی اور انہوں نے اس کانام بوم بیا سے بدل کر” بمبئی “رکھ دیا۔ لیکن ساحلی قلیوں نے اس نام کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے اسے ” ممبا “ پکارا۔ یہ نام ان کی ممبا دیوی کی نسبت سے تھا۔ جس کا مندر آج بھی بابو ناتھ کے علاقے میں ہے ۔
یہ علاقہ چوپڑ پتی ساحل پر ہے ۔ یہ غریب طبقہ کی پہلی بغاوت تھی، جو دبا دی گئی ۔ پہلی بار یہ شہر ایک یونٹ میںآ گیا۔ یعنی جزیرے ایک شہر بننے کی ابتدائی سطح پر آگیا تھا۔
تقریباً پچاس برس کے بعد لگ بھگ 1835ء کے قریب ایک نئی قوت داخل ہوئی ۔رستم جی دوراب بھائی پاٹیل نے اپنا آبائی وطن ایران چھوڑا اور ہندوستان کے اسی ساحلی شہر میں آن آباد ہوا۔
اس کے ساتھ کافی سارے لوگ تھے۔ دراصل یہ زرتشت تھے اور اسلام کے اثرات سے اپنے مذہب کو بچا کر ہندوستان میں محفوظ ہونا چاہتے تھے۔وہ پارسی جو ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے، انہیں دوراب بھائی نے آ کر اکٹھا کیااور انہوں نے بھی سازش اور طاقت کے ذریعے برطانوی اور ساحلی قلیوں کی مدد سے ان جزیروں پر قبضہ کیا۔یہ پہلا موقعہ تھا کہ پارسیوں نے کم تعداد میں ہونے کے باوجود ایسا کر دکھایا۔
یہ سب انہوں نے اپنی طاقت سے نہیں کیا بلکہ یہ طاقت انہوں نے غریب اور پسے ہوئے طبقے کو استعمال کر کے کی۔ یہیں سے ”بھائی گیری “کا آ غاز ہوا۔
پارسی ہی اس ”بھائی گیری “ مافیا کے بانی ہیں۔ رستم جی دوراب بھائی پاٹیل نے ایک نئی طرز کی مزاحمت سے اپنی طاقت کا احساس دلایا تھا۔ وہ غریب اور مزدور طبقے سے جنگ پر آمادہ، اور باغی قسم کے نوجوانوں کو چن کر انہیں زبردست طریقے سے استعمال کرتا۔
جو سب سے بڑا غنڈہ ہوتا وہ ” بھائی “ کہلاتا۔ یوں اب تک یہی اصطلاع ان غنڈوں کے لیے مخصوص ہے،جو باقاعدہ ایک مثال ہی نہیں روایت بن گئی ہے ۔
ممبئی میں جرم کی طاقت سے حکومت کا آغاز ہو چکا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک گروپ سے نئے گروپ بنتے چلے گئے۔ ان میں علاقے تقسیم ہونے لگے۔ہر علاقے کا نیا ”بھائی “ وجود میںآ نے لگا۔ ممبئی کے دولت مندوں نے اپنے مفاد کی خاطر نہ صرف اس طاقت کو استعمال کیا بلکہ اسے پروان چڑھایا۔
رقم اور تحفظ فراہم کرکے تجارتی حلقوں میں اپنا اثررسوخ اور رعب داب بڑھانے میں کامیاب ہو تے گئے ۔ اسی دھارے میں سیاست دان بھی آتے گئے۔ ان سے بھی کام لیا جانے لگا۔ یوں ”بھائی گیری “ نے اتنی وسعت اور گہرائی اختیار کر لی کہ یہ مافیا کی صورت اختیار کر گیا۔
”بھائی گیری “ کا خام مال تب بھی اور اب بھی غریب، لاوارث، یتیم اور بگڑے آوارہ بچے ہیں جو اپنے ذہن میں انتقام لے کر پرورش پاتے ہیں۔
یہی انڈر ورلڈ مافیاہے ۔ عورتوں سے لیکر منشیات کے کاروبار تک ، انسانی قتل سے لے کر ڈکیتیوں تک ، چوری سے اسمگلنگ تک ، ایک چھابڑی والے لیکر فلمی پنڈتوں تک سے بھتہ وصولی ،تمام تر جرائم اب اسی انڈر ورلڈ مافیا ذمے دار ہے ۔ یہ مافیا اس حد تک مضبوط ہوگیا ہے کہ اب ہر شعبے میں بادشاہ گر یہی لوگ ہیں۔ مطلب معمولی جیب کترے سے لیکر حکومتی ایوانوں تک ، ان کی گرفت پوری طرح موجود ہے۔ ان سب کا صرف ایک مقصد ہے ، ” فائدہ“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط